تحریر: آ صف لانگو موجودہ حالات سے عوام سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا و الیکٹرونک میڈیا کے زریعے پل پل کی خبر سے باخبر ہے۔ صبح اٹھتے ہی موبائل سروسز، فیس بک، ٹیلی وژن اور اخبارات میں مشغول رہتی ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہرمیں ہونے والی حرکت کی خبر بہت جلدی پہنچ جاتی ہے۔ اچھا برا جانتی ہے۔ کون ؟کیا کر رہا ہے؟ سب خبروں سے قوم سمیت پوری دنیا بہت جلدی باخبر ہو جاتی ہے۔ پاکستانی قوم جاگ چکی ہے یا ابھی تک سو رہی ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن قوم موجودہ سیاسی صورتحال سے اچھی طرح سے باخبر ہے۔ عوامی طبقا ت میں سیاسی بحث و مباحثہ اور سیاسی شترنجوں کے مستقبل کی فتویٰ بھی دیئے جا رہے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زرداری کی نسبت میاں نواز شریف کی حکومت اچھی کار کردگی دکھا رہی ہے۔
کچھ لوگوں نے تو عمران خان وزیراعظم اور ڈاکٹر طاہر القادری کو مستقبل کا صدر پاکستان بننے کی مبارک باد بھی دے رہے ہیں کچھ تو مشرف کے حامی ہیں اور کچھ ابھی بی بی بھٹو کو زندہ تصور کرتی ہیں کہ اگلی بی بی کی بیٹے کی ہے کیونکہ بی بی بھٹو ابھی زندہ ہے۔ خیر خیالات میں فرق معمول کی بات ہے لیکن مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ قوم میں سیاسی شعور بید ار ہوچکی ہے ۔اب قوم کم از کم اچھے نما ئندے کی انتخاب میں آ نکھیں بند کرنے کے بجائے سوچ سمجھ کر ووٹ دے گی اور اس سے ووٹ اور سیاسی کارکن و عوام کی قدر و قیمت میں بھی اضافہ سامنے آ ئے گا ممکن ہے کہ ٹرن آ وٹ 35 سے 40 فیصد سے زیادہ سامنے آ ئے گا میں سمجھتا ہوں کہ کم ازکم 60 سے 70 فیصد ٹرن آ ؤٹ بھی ہوگا۔
عوام کے ایک طبقہ کے مطابق پاکستان میں 2000ء کے بعد حکومتوں میں سب سے اچھی حکومت مشرف کی حکومت اچھی کار کردگی پر تھی اب مشرف کی ضرورت ہے کیونکہ مشرف نے سخت پالیساں مرتب کئے تھے جس سے مہنگائی اور بد امنی بے لگام نہ تھی۔ دوسرے طبقہ کے مطابق مشرف کی پالیساں انتہائی ناقص تھیں بلوچستان میں فوجی آ پریشن ، قبائلی علاقوں میں اور افغانستان جنگ بنیاد، لال مسجد جیسے آ پریشن اور امریکہ دوستی میں آ نکھیں بند کرکے معاہدے کرنے سے ملک میں تاحال بد امنی و مہنگائی کی لہر دوڑ رہی ہے۔ مشرف سے آ صف علی زرداری کی حکو مت اچھی تھی جس نے غریبوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالا مال کیا ہے۔
تیسرے طبقے مطابق مشرف پالیساں تو غلط تھیں لیکن آ صف علی زرداری بھی اندرونی طور پر مشرف کی پالیسوں کے حامی تھے اور ناکارہ کا کردگی کے سوائے کچھ بہتری نام و نشان بھی قائم نہیں کی ہے بلکہ مہنگائی، بد امنی ، بے روزگاری، رشوت خوری اور لاقانو نیت میں 100 فیصد اضا فہ ہوا ہے۔ زرداری حکومت نے اپنی مدت ہی پوری کی ہے اس کے سوا کوئی خا ص، قابل زکر کام نہیں کی ہے۔ ملک کو انتہائی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ زرداری کی حکومت سے میاں نواز شریف کی حکومت کی کار کردگی بالکل درست ہے موجودہ حکومت نے مہنگائی ، بد امنی اور دہشت گردی کی کمر توڑی تو نہیں ہے لیکن کمر میں درد ضرور ڈالی ہے۔ میاں کی حکو مت نے معاشی طور پر ملک کو زرداری کی حکومت سے اچھی پوزیشن پر روک رکھا ہے۔
جیسے کہ پٹرول زرداری کی حکومت میں 115 روپے کے لگ بھگ تھی اب 97 روپے لیٹر چل رہی ہے تو یہ بھی بہت بڑی بہتری ہے، یا ڈالر کی قیمت کی دنیا میں پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے 106 سے 108 روپے فی ڈالر کم ہو کر 100 روپے فی ڈا لر بک رہی ہے تو اس با ت ثبوت ہے کہ کم از کم کنٹرول ہوئی ہے۔ یا مہنگائی و کرپشن اور دہشت گردی میں بھی اضافہ کے بجائے کم یا کنٹرول ہو ئی ہے تو یہ بھی اچھی کار کردگی ہے لیکن چھوتے طبقے کے مطابق مشرف و زرداری کی پالیساں غلط تھیں اور اب نواز شریف کی پالیسی بھی نا قابل تعریف ہے ان کے مطابق عمران خان ہی وہ واحد لیڈر ہیں جو مشرف، زرداری و نواز شریف کی دی ہوئی زخموں پر مرہم لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
Imran Khan
عمران خان ہی ملک کو کرپشن، بد امنی، بے روزگاری، لاقانونیت، مہنگائی اور غلا می سے نجات دلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمران خان ہی چند مہینوں میں ملک کی تقدیر ہی بدل سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو عمر ا ن خان کو نوجوان طبقہ اور خصوصاََ تعلیم یافتہ طبقہ سے بہت رسپونس مل رہی ہے اس کے تمام جلسوں و جلوس میں 80 فیصد نوجوان لوگ شامل دکھائی دیتے ہیں۔ ملک میں 65 سے 70 فیصد نوجوان طبقہ ہے تو اگر نوجوانوں نے عمران خان کو اسی طرح الیکشن کے دن بھی رسپونس دیا تواس بات سے انکار نہیں کرنا چاہئے کہ پی ٹی آ ئی میدان میں نمایا پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی۔
اس وقت پاکستان میں سیاسی میدان میں عمران خان الگ اور باقی سیاسی جماعتیں الگ نظر آ رہے ہیں ۔ جمعیت علماء اسلام ،نیشنل پارٹی بلوچستان، پشتون خواہ ملی پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی،ایم کیوایم، پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں حکومت کی دفاع کر رہے ہیں۔ زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ دھاندھلی ہوئی ہے لیکن اب خاموشی اختیار کرنے سے نام نہاد جمہوریت بحال رہے گی ۔ عجیب بات ہے کہ زرداری تسلیم کرتے ہیںپھر بھی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں ؟ ۔جس قدم سے ممکن ہے کہ ا ن کو بھی نقصان پہنچ جائے کیونکہ اس وقت عوام میں شعور بیدار ہوچکی ہے اور عوام سمجھتی ہے کہ ایک دوسرے کے حامی سیاستدان ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہیں۔ تو عمران خان کو انتہائی فائدہ بھی حاصل ہو سکتا ہے۔
موجودہ سیاسی جماعتوں کی پارلیمنٹ و آ ئین کی بالادستی کے نام پرسیاسی چال کے نقصانات و فوائد سے نظر انداز کرنا مستقبل میں تبدیلی کی ایک لہر ثابت ہو سکتی ہے۔ حکومت کے اتحادی جماعتیں الیکشن 2013ء کو جعلی الیکشن اور دھاندلی کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور اپنی کرسیوں کی قربانی تک نہیں دے رہے ہیں اصلی الیکشن کے بجائے اپنی دفاع کر رہے ہیں جو ان کے لئے مستقبل میں نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔پارلیمنٹ و آ ئین کی بالادستی کے نام پرسیاست کے بجائے عملی کردار ادا کریں ۔ایک منظم الیکشن کمیشن اور شفاف ترین الیکشن کے لئے راہ ہموار کر کے اصلی نمائندوں کو اسمبلی میں جگہ عنایت کریں تاکہ ملک و قوم کے لئے بھلائی ہو سکے۔
اب تو الیکشن کمیشن کا چیئرمین بننے سے لوگ قطرا رہے ہیں۔ جیسا کہ جسٹس ریٹائر بھگوان داس اور جسٹس جیلانی (ر) نے چیئرمین بننے سے انکار کیا ہے یہ لوگ ڈر رہے ہیں کہیں دوبارہ دھاندلی نہ ہو جائے اور عمران خا ن، بلاول یا نواز شریف اسلام آ باد دھرنا شرنا نہ دیں ان کو عدالتوں کے چکر لگانے پڑیں گے۔ حکومت ریٹائر ڈ افسران کے بجائے نوجوانوں کو الیکشن کمیشن کی قیادت سنبھالنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے تو بہتر ہے۔ 88 سالہ بزرگ قابل احترام ہے لیکن ہڈیاں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں مضبوط ہڈی والوں کی ضرورت ہے۔