تحریر: سید توقیر زیدی بلا شبہ سانحہ کوئٹہ نے ملک بھر کو ہلا کر رکھ دیا اور سرکاری سطح پر بھی سرگرمیوں میں بہت تیزی آ گئی ہے حکومت اور عسکری شعبہ نے باہمی تعاون سے دہشت گردی کے عزم کو پھر سے دہرایا اور طے کیا کہ اس کے خاتمے کے لئے ہر ممکن اقدام کئے جائیں گے کور کمانڈر کانفرنس میں سانحہ پر انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا کہ پورے ملک میں کومبنگ آپریشن شروع اور تیز کیا جائے اس کے نتیجے میں مختلف شہروں میں کارروائی کی گئی اور اب تک درجنوں مشتبہ حراست میں لئے گئے ہیں، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے ہدایت کی کہ حساس ایجنسیاں مربوط روابط کے ساتھ کارروائی کا آغاز کریں اور ملک دشمنوں کو ڈھونڈھ نکالیں۔ اس سلسلے میں انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے بھی مفرور ملزموں کو جلد گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
ملک بھر میں احتجاج ہو رہا ہے اور قومی اسمبلی میں بھی اراکین پارلیمینٹ پھٹ پڑے، مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھایا اور تنقید کر دی۔ اس کے جواب میں ان پر اعتراض بھی کئے گئے اور ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ تاہم یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کارکردگی بہتر بنانا چاہئے۔ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے موقف کی روشنی میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے یہ تو دیکھ لینا چاہئے کہ ان اداروں نے اب تک کتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے البتہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ دہشت گرد بھی ہم جیسے ہیں اور وہ دین ہی کے نام پر یہ ظالمانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ ایسے میں ان کی نشان دہی شہریوں کا بھی فریضہ ہے اس کے لئے سرکاری طور پر اہتمام کیا گیا لیکن یہ غیر یقینی صورت حال ہے۔
Terrorism
شہریوں کو ابھی تک اس طرف راغب نہیں کیا جا سکا، حتیٰ کہ پولیس تھانوں میں کارخاص کا نظام بھی قریباً ختم ہو کر رہ گیا ہوا ہے۔ پولیس میں ”کارِ خاص” کے نظام یا طریقے کی بہت اہمیت ہے لیکن یہ اصل کام سے ہٹ کر ٹاؤٹ ازم بن گیا ہوا ہے۔ پہلے ہر تھانے میں ایک ”کار خاص” ہوتا تھا، جو کانسٹیبل کے عہدہ کا حامل اور سفید پوش ہوتا اور صرف ایس ایچ او کو جواب دہ تھا یہ ملازم علاقے میں عام شہریوں کے ساتھ دوستی اور تعلقات رکھتا اور علاقے میں گھومتا پھرتا رہتا ہے اور یہی اس کا ذریعہ معلومات ہوتا ہے چنانچہ ماضی میں یہ بہت مفید رہا، تاہم بتدریج یہ ”ٹاؤٹ ازم” بن گیا اور ناجائز کاموں کا درمیانی ذریعہ ہو گیا۔
مخبری کا سلسلہ ختم ”رشوت” کے سودوں کا شروع ہے۔ حالانکہ اس کار خاص کے ذریعے علاقے کے جرائم اور جرائم پیشہ کی اطلاع درست ہوتی تھی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے عوامی حمایت بھی اسی طریقے اور ذریعے سے حاصل کی جا سکتی ہے کہ اس کار خاص کو معلومات مل جائیں گی اس لئے اس مقصد کے لئے تو اسے بحال کر لیا جائے کہ یوں بھی عوامی حمایت کے بغیر دہشت گردی اور جرائم پر قابو پانا مشکل ہے۔
Quetta Tragedy
سانحہ کوئٹہ کے بعد وزیر اعظم بہت متحرک ہو گئے ہیں اور انہوں نے ملکی سلامتی کے حوالے سے کئی اجلاس کئے ہیں۔ اب اگر وزیر اعظم سرگرم ہیں تو ان کو ملک کے تمام طبقات فکر کو اعتماد میں لینا ہوگا ہمارے خیال میں پارلیمینٹ میں نمائندہ جماعتوں کے لئے ایک ”ان کیمرہ” اجلاس کیا جائے بلکہ پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس ہو تو بہتر ہوگا اس لئے بھی کہ بھارت کے ارادے ٹھیک نہیں ایک تو کوئٹہ کا سانحہ مشکوک ہے اور شبہ ”را” کی طرف جاتا ہے جبکہ بھارت نے الٹا مقبوضہ کشمیر میں کسی شخص کو گرفتار کر کے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی نام لشکر طیبہ کا لیا ہے جو یہاں کالعدم تنظیم ہے، ان حالات میں قومی اتفاق رائے لازم ہے۔ قومی اسمبلی میں جن جماعتوں کی نمائندگی نہیں ان کو الگ سے بلایا جا سکتا ہے۔
اب یہ ضرورت ہے اور اسے پورا ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ اگرچہ کیا گیا کہ بین الاقوامی طور پر پاکستان کے موقف کو واضح اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کیا جائے تو اس میں تاخیر نہیں ہونا چاہئے اور یہ کام ماہر افراد کے سپرد کیا جائے ہمارے خیال میں تو بھارتی عوام کی رائے کو بھی متاثر کرنے کا سلسلہ شروع ہونا چاہئے۔تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے احتجاج کو موخر کر کے بہتر اقدام کیا۔ حکمران جماعت کو بھی فراخدلی کا ثبوت دے کر مذاکرات کر کے ٹی او آر اور سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلقہ مسائل کو حل کرنے کی راہ نکالنا چاہئے یہ وقت درست اور صحیح ہے۔