ّآج سے تقریبا پندرہ سو سال قبل آقائے نامدار حضرت محمدۖ نے فرمایا تھا کہ” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں”گویا ایک انسان سے دوسراانسان اس وقت تک محفوظ رہ سکتا ہے جس وقت تک وہ اپنے کسی بھائی کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ ہو۔ارسطونے بھی معاشرتی رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیاتھا کہ”عا لم ا سوقت تک عالم نہیں ہو سکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے،وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھ سکے”۔کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی استحکام،معاشرتی رویوں اور عوامی خیالات میں ہم آہنگی کی عکاسی کا اگر صحیح اندازہ لگانا ہو تو اس ملک کی پارلیمنٹ کی قانون سازی اور جملہ ممبران کے رویوں کو مدنظر رکھا جا تا ہے،یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ کسی جمہوری ملک کا آئینہ ہوتی ہے۔کہ یہ ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں عوام کے منتخب کردہ نمائندے،عوام کی فلاح کی بات کرنے اور معاشرتی و معاشی استحکام کے لئے قانون سازی کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔چونکہ پارلیمنٹ کا مقصود انسانیت اور اس کی معراج کی سعی پیہم کرناہوتا ہے اسی لئے جمہوری ممالک میں اس ادارے کو مقدس ایوان بھی کہا جاتا ہے۔
دیگر اسلامی وجمہوری ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پارلیمنٹ کو مقدس ایوان کہا جاتا ہے یعنی پارلیمنٹ کے دونوں ایوان،ایوان بالا(سینٹ)اور ایوان زیریں(قومی اسمبلی) ملک میں قانو ن سا زی،عوامی مفادات کے تحفظ اور معاشی و سیاسی استحکام کے لئے کام کرنے والا ادارہ خیال کیا جاتا ہے۔مگر یہ سب باتیں کہنے اور لکھنے کی حد تک تو ٹھیک ہیںعملا ان کااطلاق دور دور نظر نہیں آتا،جو پارلیمنٹ مقدس ایوان ہے ان کے ممبران کی اگر بجٹ کے پیش کرنے اور اس پر بحث کے اجلاس کی کارروائی کو ملاحظہ کر لیا جائے تو کسی ایک انگ سے بھی نظر نہیں آتا کہ یہ ایک گریجوایٹ اور تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھوں چلایا جانے والا ادارہ ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تہذیب و شائستہ اور اخلاقی اقدار کا امین نہیں بلکہ عدم برداشت،غیراخلاقی رویوں اور غیر شائستہ افراد کی آماجگاہ کے ساتھ ساتھ ایک طوفان بدتمیزی کا عکاس ہو۔یہ سب پارلیمانی ممبران جن کا منشور و دعویٰ جمہوریت،جمہوری اقدارکافروغ،جمہوریت بہترین انتقام ،رواداری و اخوت اور ملکی وقار کا احیا ہے یہ سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور چنداں دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ہیں جیسے کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب ،ایچیسن ور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں،مسٹر بلاول بھٹو کرائسٹ چرچ آکسفورڈ،خواجہ آصف حسن ابدال کیڈٹ کالج،خاقان عباسی لارنس کالج اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ،عمر ایوب جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکہ اور دیگر بہت سے ممبران جو ایسے ہی معروف تعلیمی اداروں کے سند یافتہ افراد ہیں اور یہ وہ سب ادارے ہیں جنہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت،تہذیب اور اخلاقی رویوں کی وجہ سے دنیا میں ممتاز اور امتیاز حاصل ہے۔تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب یہی ممبران پارلیمنٹ میں جاتے ہیں تو ان کے رویوں اوراخلاق میں وہ انسانی حیوان کیوں باہر آجاتا ہے جو کبھی زمانہ جاہلیت میں ہوا کرتا تھا۔ایک دم سے انکے ہاتھ،ہاتھا پائی،زبان ،طعن و تشنیع اور الفاظ دوسروں کی پگڑی اچھالنے کے لئے مصروف عمل ہو جاتے ہیں۔مرد ممبران ،خواتین کی طرح طعنے اور خواتین کوہم نے چوڑیاں پھینکنے اور دوپٹے اچھالتے بھی دیکھا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ان پارلیمنٹ ممبران کا تعلیم نے تو کچھ بگاڑا نہیں لہذا انہیں تربیت کی اشد ضرورت ہے۔اور تربیت کا سب سے اہم جزو برداشت ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں سقراط کہتا ہے کہ”برداشت معاشرہ کی روح ہے،برداشت جب سوسائٹی سے کم ہوتی ہے تو مکالمہ کم ہو جاتا ہے،اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو معاشرہ میں وحشت بڑھ جاتی ہے،اس لئے دلائل اور منطق سے کام لیا جائے۔مگر یہ دونوں پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے،جب مکالمہ اور اختلاف جاہل لوگوں کے پاس آجائے تو معاشرہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے”۔سقراط کی باتیں اپنی جگہ درست ہیں مگر مجھے کیوں لگتا ہے کہ یہ دونوں باتیں یعنی دلائل اور منطق دونوں پڑھے لکھے جاہلوں کے پاس آگئے ہیں جس سے ملک میں انارکی پھیلی ہوئی ہے،میرے خیال میں اسے صرف اور صرف برداشت،تحمل اور صبر سے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔
پارلیمنٹ میں پیش کردہ حالیہ بجٹ کے حق و مخالفت میں پیش کی گئی تقاریر پراگر آپ غور فرمائیں تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں دکھائی دیتی ہے کہ سب نے سیاسی و عوامی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دے رکھی ہے،کوئی اپناآپ بچا رہاہے تو کوئی اپنا پیسہ،کسی کو اپنے ابو کو بچانے کی فکر ہے تو کوئی زمین وجائیداد کو محفوظ کرنے کے چکر میں ہے۔ایک سوال میری طرح آپ کے اذہان میں بھی پیدا ہوتا ہوگا کہ یہ سب اعلی تعلیم یافتہ افراد جب اسمبلی میں ہوتے ہیں تو پارلیمنٹ کسی مچھلی منڈی،دنگل یا پولٹری فارم کا نقشہ کیوں پیش کر رہی ہوتی ہے۔گویا یہ سب شور و غوغا عوام کے لئے نہیں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔اگر سب دعویداروں کا دعویٰ ملکی مفاد اور عوامی مفاد ہے تو پھر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ہمت اور توفیق بھی انہیں پیدا کرنا ہوگی وگرنہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔