پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ملکی صورت حال پر ارکان کی دھواں دھار تقاریر

Parliament

Parliament

اسلام آباد (جیوڈیسک) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے موجودہ ملکی صورت حال پر دھواں دھار تقاریر کی گئیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں جاری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران سینیٹر صالح شاہ نے کہاکہ جمہوریت ملک کے لئے حفاظتی دیوار ہے اور دونوں ایوانوں نے ثابت کیاکہ وہ جمہوریت کے ساتھ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات پارلیمنٹ نے سنجیدہ اور مفید تجاویز دیں۔ حکومت نے ملک میں موجودہ صورتحال میں جس صبر وتحمل کا مظاہر ہ کیااس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ڈی چوک میں دھرنے سیاسی اور جمہوری نہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری قوم میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ عمران خان وزیراعلی خیبرپختون خوا کو کنٹینر سے آزاد کریں اور انہیں خیبرپختونخوا کی خدمت کرنے دیں۔

پیپلز پارٹی کے ایاز سومرو نے کہا کہ جس انسان میں ظرف نہ ہو اسے سیاست نہیں کرنی چاہئے، انتخابات میں ریٹرننگ افسران کے ذریعے دھاندلی ہوئی لیکن ہم نے قائدین کے حکم پر کڑوا گھونٹ پیا۔ سندھ کی دھرتی قدیم روایات کی حامل ہے اور ہم اپنی روایات پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ باہر سے آئے لوگوں کو اپنایا لیکن وہ احسان فراموش نکلے۔

سندھ سے ہارے ہوئے لوگ سندھ میں سیاست نہ کریں، سندھ کے لوگ صرف اور صرف ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مرید ہیں کسی اور کے نہیں۔ سندھ کے نوجوان کسی 62 سالہ بوڑھے کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان قائد کے ساتھ ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف نے جن پر احسان کئے آج وہی ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں لیکن پیپلز پارٹی اس ملک میں جمہوریت اور نظام کی خاطر ان کے ساتھ ہے۔ ہمیں 14 ماہ میں لاڑکانہ اور لاہور کا فرق نظر آگیا ہے، اگر سندھ اور بلوچستان کے لوگ ایک ماہ دھرنا دیتے تو ہمیں غدار کا لقب دیا جاتا لیکن ہم پارلیمنٹ کی خاطر حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سندھ صوفیوں اور درویشوں کی دھرتی ہے لیکن اس دھرتی کی تقسیم سوچنےوالا کوئی اب تک پیدا نہیں ہوا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ عمران خان نےثابت کیا کہ آکسفورڈ میں پڑھنے والا تہذیب یافتہ نہیں ہوتا، پی ٹی وی اور پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ ہوتا ہے لیکن دھرنا دینے والے کہتے ہیں کہ ایک گملا نہیں ٹوٹا، دھرنے والے کبھی کفن دکھاتے ہیں اور کبھی قبریں، انہیں 1992 کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں پر رحم آتا ہے جنہوں نے انہیں برداشت کیا۔ وہ ابھی اقتدار میں نہیں آئے اور ٹانگیں توڑنے اورجیل میں ڈالنے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ انہیں اس کا کوئی خیال نہیں کہ وہ ملک کا کتنا بڑا نقصان کر بیٹھے ہیں۔