اسلام آباد (جیوڈیسک) نواز شریف نے پنجاب ہاؤس میں کارکنوں اور وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا، آپ نے مجھے صدارت سے فارغ کر دیا، اب کہاں گیا قانون، اقامے پر نہ جانے اور کون کون سے فیصلے سنائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا 20 کروڑ عوام کی پارلیمنٹ کے قانون کو کوئی ختم کر سکتا ہے ؟ حالات سے گھبرانے والا نہیں ، پارٹی صدارت سے نا اہلی کا فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا یہ قانون پہلی بار بھٹو کے زمانے میں بنایا گیا ، 2014 میں تمام جماعتوں نے مل کر یہ قانون بنایا۔ انہوں نے کہا ہر بات پر اسٹے آرڈر آ جاتا ہے ، انتظامیہ کو عملاً مفلوج کر دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا پارلیمنٹ کے قانون سے انحراف کرتے ہوئے مجھے نا اہل کیا گیا، پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا لیکن آپ نے مجھے صدارت سے فارغ کر دیا ، آپ کیسے پارلیمنٹ کے قانون کو نظرانداز کر سکتے ہیں؟۔ نواز شریف نے کہا کہ آپ آئین کی بات کرتے ہیں، جب مارشل لا لگتا ہے تو کیا آئین کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ؟ آمریت میں آپ آئین سے انحراف کر کے ڈکٹیٹر کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
قبل ازیں سابق وزیراعظم نواز شریف نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ میرے لئے غیر متوقع نہیں۔ انہوں نے کہا 28 جولائی کو وزارت عظمیٰ اور کل پارٹی صدارت چھین لی گئی ، آئین میں کوئی شق ہے تو میرا نام بھی چھین لیں۔ ان کا کہنا تھا اب مجھے تا حیات نا اہل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
سارے عدالتی فیصلے نواز شریف کی ذات کے گرد گھومتے ہیں ، انتقام اور بغض میں ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ نواز شریف نے کہا آئین میں کوئی شق نہیں کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نا اہل کر دیا جائے ، کل کے فیصلے کی بنیاد وہ ہی ہے کہ بیٹے سے تنخواہ نہیں لی۔