تحریر : فاروق حارث العباسی پاکستان اور اس قوم کی بدقسمتی کا آغاز درحقیقت اسی روز ہی ہوچکا تھا جس روز بابائے قوم محمد علی جناح نے اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ مخلص قیادت کے فقدان نے اس ملک وقوم کو ان تاریکیوں کی طرف دھکیل دیا جہاں سے روشنی پھوٹنے کے امکانات انتہائی معدوم ہوچکے ہیں۔ سیاستدان اپنے بڑے بڑے سیاسی نعروں اور بلندوبانگ دعوئوں ووعدوں کے ساتھ ملک وقوم کی قسمت سنوارنے کے لیے نمودار ہوئے اور پھر ملک وملت کی قسمت کو بدقسمتی میں بدل کر اپنی اپنی قسمت سنوار کر رفوچکر ہو گئے۔ ہر آنے والی حکومت نے ہر جانے والی حکومت کو بدترین انتقام اور تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہر اپوزیشن نے ہر حکومت کے ہر کام کو ملکی وقومی مفاد کے منافی قرار دے کر قوم کو خوب ”اُلو” بنایا اور پھر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ کر ہر اس کام کو بڑی ڈھٹائی اور انتہائی بے حیائی کے ساتھ اسی طرح سرانجام دیا جس قسم کے الزامات وہ اپوزیشن میں رہ کر منتخب حکومت پر لگا چکے تھے۔ چند ایک کے سوا ہر سیاستدان نے ملک کو جی بھر کر لوٹا اور قوم نے بھی ہر بار جی بھر کر انہی لٹیروں کو منتخب کیا جن کے ہاتھوں وہ ہر بار لُٹتے رہے۔
ملک کے ان بے اصول، قانون شکن، وعدہ خلاف اور مفادپرست سیاستدانوں کے قول وفعل اور کردار وافکار ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہیں۔ ملک کی سیاست ومعاشرت، قومی سلامتی، امن وآشتی ودیگر قومی ومذہبی امور کو تہ وبالا کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ملک کے بیرونی دُشمنوں نے وطن عزیز کو شاید اس قدر نقصان نہیں پہنچایا جس قدر ہمارے ان کردار کے غازیوں نے ملک کو خوفناک بحرانوں اور بدترین تباہیوں سے دوچار کیا۔ اخلاق ہی درحقیقت وہ احساس ہے جس پر کردار کی پوری عمارت اپنے مکمل وجود کے ساتھ عظمت وشکوہ کا ایک نشان ہوتی ہے جسے دیکھ کر بڑے بڑے سورما بھی ادھر کا رُخ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ذاتی مفادات نے ہمارے اخلاق اور ہمارے کردار پر اس قدر گرد ڈال دی ہے کہ اس گرد کے نیچے دبی ہوئی ہماری اخلاقی قدروں اور جذبۂ ایمانی کا کہیں نشان تک نہیں ملتا اور یہی وہ قوم کے مجرم ہیں جن کی بے حسی وبدکرداری نے پوری قوم کے اخلاق وکردار پر شدید وار کیا۔ ملک میں ابلیسیت کا راج ہے اور پھیلی ہوئی اس ابلیسیت نے شرفاء کا جینا تک حرام کردیا ہے۔ اقبال نے بالکل صحیح فرمایا کہ:
تری حریف ہے یاربّ سیاست افرنگ مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس بنایا ہے ایک ہی ابلیس آگ سے تُو نے بنائے خاک سے اُس نے دو صد ہزار ابلیس
مجھے حیرت ہے کہ خود کو مہذب کہنے والے یہ قومی نمائندے جب پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر جانوروں کی سی حرکات کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا تقدس برباد کرتے ہیں، کیا اس وقت انہیں پارلیمنٹ کے تقدس کا کوئی خیال نہیں آتا؟ یا صرف انہی مقدس پارلیمنٹیرین ہی کو حق حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا تقدس جس طرح چاہیں تباہ کردیں؟ جس پارلیمنٹ کے تقدس کی یہ بات کرتے ہیں کیا انہوں نے کبھی سوچا کہ اس پارلیمنٹ کی حیثیت وحقیقت کیا ہے؟ اسمبلیوں میں ہونے والے یہ سینکڑوں اجلاس ہم نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ وہ کس طرح مچھلی منڈی کی صورت اختیار کر گئے، کس طرح طوفانِ بدتمیزی کی نذر ہوئے، کس طرح گالم گلوچ کے بعد اختتام پذیر ہوئے، کس طرح لعنت ملامت، ہلڑبازی، دھینگامُشتی، تھپڑوں، گھونسوں اور لاتوں سے جاری جنگ وجدل کے بعد پھٹے گریبانوں، سُوجے چہروں، بکھرے بالوں اور منہ سے بہتی ہوئی رالوں کے ساتھ اختتام کو پہنچے۔
یہ ہیں وہ مقدس پارلیمنٹیرین اور یہ ہے اس پارلیمنٹ کا تقدس، جس کے بارے میں اگر کوئی کچھ کہے تو نہ صرف پارلیمنٹ کا تقدس خراب ہوتا ہے بلکہ ان مقدس پارلیمنٹیرین کا استحقاق بھی مجروح ہو جاتا ہے۔ ان کی انہی تیسرے درجے کی گفتگو اور گالی گلوچ کو دیکھتے ہوئے ہٹلر نے کیا خوب کہا کہ ”پارلیمنٹ ادنیٰ ذہنیت کی پیداوار ہے، احمق اور فاترالعقل ہے، اقربانواز اور خویش پرور ہے، سست رفتار اور کاہل الوجود ہے۔
اسمبلی ایک مکان ہے جہاں باتیں چبائی جاتی ہیں، تقریریں ہوا میں اُچھالی جاتی ہیں، ہنگامی حالات میں اسمبلی حیرانی سے دانتوں میں اُنگلی دبا کر بیٹھتی رہتی ہے اور سوچتی رہتی ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ اسمبلی خوانچہ فروش سیاستدانوں کا بازار ہے، انسانی گمراہی کا مندر ہے، موقع پرستوں کا ہجوم ہے، احمقوں اور جاہلوں کی انجمن ہے، یہ بددیانت لوگوں کا تکیہ ہے”۔ ہٹلر کے ان الفاظ میں کہاں تک سچائی ہے، اسمبلیوں میں ہونے والی ہلڑبازی، گالم گلوچ اور غیرسنجیدہ وغیرمہذب ماحول کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہٰذا مال روڈ لاہور کے جلسے میں عمران خان اور شیخ رشید نے اگر اسمبلی پر لعنت بھیجی تو اس کی یہی وجہ تھی کہ ان اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جس کا اظہار ہٹلر نے اپنے الفاظ میں کیا، یہ الگ بات کہ شیخ رشید اور عمران خان کو اس کا خیال 75سال بعد آیا، چنانچہ خود کو مقدس کہنے والے اپنے کردار کو بھی مقدس بنائیں تاکہ پارلیمنٹ کا تقدس بحال ہوسکے۔
جنرل مشرف نے اسمبلیوں کو مہذب بنانے اور اس کی اساس کو قائم رکھنے کے لیے صوبائی وقومی اسمبلی کے ممبران کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کردی تاکہ پڑھے لکھے لوگ جب ان اسمبلیوں میں جائیں گے تو کسی مچھلی منڈی نہیں بلکہ مہذب لوگوں کا ماحول دیکھنے کو ملے گا جو اس سے قبل انگوٹھاچھاپ، جاہل اور اٹھائی گیروں کا ہائوس سمجھا جاتا تھا مگر اس کے باوجود وہ ماحول دیکھنے کو نہ مل سکا جس کی توقع کی جارہی تھی اور اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم نہیں تربیت تھی۔ جنرل مشرف اگر گریجویشن کی شرط کے ساتھ تربیت کی شرط بھی عائد کر دیتے کہ وہ گریجویٹ اسمبلی میں آنے سے قبل دو سال تک پہلے تربیت حاصل کرے گا پھر اسمبلی میں آئے گا تو شاید ہمیں ایک مہذب لوگوں کی اسمبلی دیکھنے کو مل جاتی۔ پانچ ماہ کی اس گریجویٹ قومی اسمبلی کے سات اجلاس منعقد ہوئے جو روایتی ہلڑبازی، الزامات اور دنگافساد کی نذر ہو گئے۔ 2003ء میں ہونے والے ان سات قومی اجلاسوں میں قوم کے ساڑھے سات کروڑ روپے خرچ ہوئے جو صرف ان مقدس پارلیمنٹیرین کے اندر کی آگ بجھانے، صدر مشرف کو تسلیم نہ کرنے اور قوم کی خواہشات پر پانی پھیرنے کے کام آئے۔ اسی طرح ہر سال اس کی عیاشیوں اور ان اجلاسوں پر قوم کے اربوں روپے اُڑا دیئے جاتے ہیں۔ یہی روپیہ اگر قوم کی صحت اور تعلیم پر خرچ کیا جائے تو نہ صرف قوم کا تقدس بحال ہو جائے بلکہ ملک بھی مقدس سرزمین کہلانے کے لائق بن جائے۔