تحریر : محمد صدیق پرہار گھر کو بیرونی دشمن سے کوئی خطرہ ہو، باہرسے کوئی دشمن حملہ آورہوجائے تو اندرونی اختلافات کی کوئی اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ خاندانی اور گھریلو دشمنیاں معطل ہوجایاکرتی ہیں۔اسی طرح جب ملک پر بیرونی جارحیت کاخطرہ ہوتو سیاسی اختلافات بھی اپنی افادیت کھودیتے ہیں۔ہماری سیاسی قیادت نے ایک بارنہیںمتعددبارمل بیٹھ کریہ ثبوت دیا ہے کہ ان کے اندرونی سیاسی اختلافات چاہے جوبھی ہوں وہ ملک کی سالمیت اوربقاء کیلئے یک جان دوقالب ہیں۔ملک پرجب بھی کڑاوقت آیا ہماری سیاسی قیادت نے متفق ومتحدہوکرقومی دانشمندی کاثبوت دیا۔جس طرح آرمی پبلک سکول پشاورپرحملے کے بعد اوراب بھارت کی دھمکیوں کے بعد سیاسی قیادت نے متفقہ فیصلے کئے ہیں۔دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کااتحادی بننے سے پہلے اسی طرح سیاسی قیادت کومل بیٹھنے کاموقع فراہم کیاجاتا اس کے بعد متفقہ طورپر دہشت گردی کیخلاف جنگ میںا تحادی بننے یانہ بننے بارے متفقہ فیصلہ کیاجاتا تو ملک کوان حالات سے دوچارنہ ہوناپڑتا۔ جن حالات سے اسے اس جنگ میں امریکہ کااتحادی بننے کے بعدگزرناپڑرہا ہے۔کنٹرول لائن کی صورت حال اورمقبوضہ کشمیرمیںبھارتی مظالم کے تناظرمیں وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت ایوان وزیراعظم میںمنعقدہ پارلیمانی جماعتوںکے قائدین کے اجلاس میں جاری کئے گئے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تین صفحات پرمشتمل اس اعلامیے میں بھارت کیخلاف برسرپیکارافواج پاکستان کوخراج تحسین پیش کیاگیا۔قوم بھی افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ اعلامئے میںکہاگیا ہے کہ کشمیرکواٹوٹ انگ کہنے کابھارتی دعویٰ مستردکرتے ہیں۔اعلامئے میںمقبوضہ کشمیرکی صورتحال کوتشویش ناک قراردیتے ہوئے کہاگیاکہ بھارتی فوج نے حالیہ دنوںمیںا یک سودس کشمیریوںکوشہیدکیاجبکہ پیلٹ گن استعمال کرتے ہوئے سات سوسے زائدکشمیریوںکوبصارت سے محروم کیاگیا۔ کشمیریوںکاقتل عام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔بے گناہ کشمیریوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہیں۔پاکستان کے عام، حکومت، سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیرپرمتحدہیں۔کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔اعلامئے میں کہاگیا ہے کہ کشمیرسے توجہ ہٹانے کیلئے نہ صرف دہشت گردی کے الزامات بلکہ بھارت کی جانب سے سرجیکل سٹرائیک کابے بنیاددعویٰ بھی مستردکرتے ہیں۔بھارتی دعویٰ کشمیریوںپرمظالم سے عالمی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔کشمیریوںکی سیاسی، اخلاقی اورسفارتی حمایت جاری رکھی جائے گی۔اعلامئے میں کہاگیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پربلااشتعال بھارتی جارحیت امن وسلامتی کیلئے خطرہ ہے۔
اعلامئے میں کہاگیا ہے کہ پانی کوبطورہتھیاراستعمال کرنے کے بھارتی عزائم کی مذمت کرتے ہیں۔اگربھارت نے پاکستان کاپانی روکا توجنگ تصورکیاجائے گااوراس جارحیت کابھرپورجواب دیاجائے گا۔اعلامئے میںکہاگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں کالے قوانی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ اعلامئے میںبلوچستان میں بھارتی مداخلت کی بھی مذمت کی گئی ہے اورکہاگیاہے کہ بھارت کامذاکرات اورسارک کانفرنس میںنہ آناافسوس ناک ہے۔ اجلاس میںپارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی دوبارہ قائم کرنے کافیصلہ کیاگیا۔تمام جماعتوںنے مسئلہ کشمیرپرحکومتی موقف کی حمایت کی۔اجلاس میںسیاسی جماعتوں کے قائدین نے فیصلہ کیاکہ دنیاکے مختلف ممالک میں وفودبھیجے جائیں جوکشمیرمیںبھارتی مظالم سے ان ممالک کوآگاہ کریں ( وفودبھیجنے کامشورہ تو بہت اچھا ہے دنیا کو بھارتی بربریت سے آگاہ کرناچاہیے تاہم وفودبھیجنے سے پہلے یہ بھی دیکھناہوگاکہ وزیراعظم نوازشریف اسی کام کیلئے اپنے خصوصی نمائندے پہلے ہی مقررکرچکے ہیں ۔ ان میںسے اب تک کتنے نمائندوںنے بیرون ملک جاکر وہاں کی حکومتوں اورعوام کوبھارت کے مظالم سے آگاہ کیا ہے۔ہم نے نہ توکہیں پڑھا ہے اورنہ ہی سنا ہے کہ کوئی نمائندہ بیرون ملک گیا ہواوراس نے بھارتی بربریت سے وہاں کی حکومت اورعوام کوآگاہ کیا ہو۔
Political Parties
بہترہوتاکہ پارلیمانی جماعتوں کے اس اہم اجلاس میںان نمائندوں کی کارکردگی بھی پیش کی جاتی)یہ وفودبھیجے جائیں توان کوٹاسک بھی دیاجائے ۔مناسب وقت دے کرکہا جائے کہ وہ اپنے طے شدہ ممالک میں جاکر وہاں کی حکومتوں اورعوام کوبھارت کے ظلم وستم سے آگاہ کرکے اس کی رپورٹ مقررہ تاریخ تک سپیکرقومی اسمبلی کے پاس جمع کرائیں۔اجلاس میںکہاگیاکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کوبھی وادی کشمیرمیںبھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںسے آگاہ کیاجائے۔اقوام متحدہ سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ اپناوفدکشمیربھیجے جووہاں زمینی حقائق کاجائزہ لے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ آج کااجلاس انتہائی اہم ہے کہ کیونکہ اس سے ملکی سیاسی قیادت کی جانب سے واضح پیغام جائے گا۔یہ بات خوش آئندہے کہ کشمیرکے معاملے پرقومی متحدہے۔ان کاکہناتھا کہ برہان وانی کی شہادت کے بعدمسئلہ کشمیرفلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔وقت آگیا ہے کہ اقوام عالم مسئلہ کشمیرکے حل میںاپناکرداراداکرے۔پاکستان کی سلامتی اورتحفظ پرسمجھوتہ نہیںکیا جا سکتا ۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پرعالمی راہنمائوںسے ہونے والی ملاقاتوں اوراس دوران زیربحث آنے والے معاملات پربھی شرکاء کواعتماد میں لیا۔
اس موقع پرپارلیمانی راہنمائوںنے حکومت کومسئلہ کشمیراوربھارتی جارحیت کیخلاف اپنی مکمل حمایت کایقین دلاتے ہوئے کہا کہ بھارت کی اشتعال انگیزی پورے خطے کے امن کیلئے خطرہ ہے۔بھارتی جارحیت کیخلاف حکومت اورمسلح افواج کے ساتھ ہیں۔بلاول بھٹوزرداری نے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت اختلافات کے باوجودمسئلہ کشمیراوربھارتی جارحیت سمیت کئی معاملات پرحکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔موجودہ حالات میںپاک بھارت تعلقات ٹرننگ پوائنٹ ہے۔انہوںنے کہا کہ مسئلہ کشمیرکے حوالے سے پیپلزپارٹی کاموقف ہمیشہ سے واضح ہے کہ اس مسئلے کاکوئی فوجی حل نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیرکوکشمیری عوام کی امنگوںکے عین مطابق حل ہوناچاہیے۔متحدپاکستان بھارتی جارحیت کابھرپورمقابلہ کرسکتاہے۔قومی سلامتی کے معاملات پرمقاصدمل کرکام کرنے سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔پاکستان بھارتی جارحیت کابھرپورجواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔انہوںنے وزیراعظم کومخاطب کرکے کہا کہ جناب وزیراعظم آپ اورمیں آج کے معاملے پرہم آہنگی سے بات کرسکتے ہیں۔اہم ترین ملکی معاملے پرآپ نے بلایاآپ کاشکریہ۔
شاہ محمودقریشی کاکہناتھا کہ آج کے اجلاس سے بھارت اورعالمی برادری کویہ واضح پیغام گیا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیرکے بارے میں اپنے موقف پرمتحدہیں۔انہوںنے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف کی فہم وفراست اورحب الوطنی پرپورایقین ہے۔قومی مفاداورقومی یکجہتی کامظاہرہ کرتے ہوئے ساتھ دیں گے۔بھارت جانتا ہے کہ مسئلہ کشمیرکاکوئی حل نہیں اس کے باوجودجارحیت کی جارہی ہے۔ہمیںمتحدہوکرآوازبلندکرنی ہوگی۔غلام احمدبلورنے کہا کہ جنزرل اسمبلی میںوزیراعظم کی تقریر سے مسئلہ کشمیرکوسفارتی محاذپرنئی زندگی ملی ہے۔دیگرسیاسی قائدین نے بھی اپنے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے اجلاس کی اہمیت کواجاگرکیامسئلہ کشمیر اور بھارتی جارحیت معاملے پرحکومت کواپنے اپنے تعاون کایقین دلایا۔ اجلاس میں بھارت کی طرف سے پاکستان کاپانی روکنے کواعلان جنگ کے مترادف قراردیا گیا ہے۔
Mangla Dam
بھارت پاکستان کاپانی پہلے بھی کئی بارروک چکا ہے۔ وہ پاکستان کے حصے کے دریائوںپرڈیم اور ہائیڈرو پاورپراجیکٹ بھی بنارہا ہے۔نہ صرف وہ پاکستان کاپانی روکتارہتا ہے بلکہ وہ پاکستان میں بھی آبی ذخیرہ کالاباغ ڈیم نہیں بننے دے رہا۔جس طرح سیاسی قیادت نے نیشنل ایکشن پلان اوراب مسئلہ کشمیراوربھارتی جارحیت کیخلاف متحدہوکر سیاسی بصیرت کاثبوت دیا ہے اسی طرح ملک کی سیاسی قیادت کوکالاباغ سمیت آبی ذخائرتعمیرکرنے کے سلسلہ میں بھی اسی سیاسی بصیرت کامظاہرہ کرکے بھارت کی پاکستان کوپانی سے محروم کرنے کی سازش بھی ناکام بنادینی چاہیے۔ عمران خان نے اس اجلاس میں شرکت نہ کرکے اچھانہیںکیا۔ اعجازالحق کہتے ہیں کہ عمران کااے پی سی میں شرکت نہ کرناافسوس ناک ہے۔شیخ رشیدکووزیراعظم نے نہیں بلایا، انہیں بھی بلاناچاہیے تھا وہ کہتے ہیں کہ مجھے نہ بلاناوزیراعظم کی کم ظرفی ہے۔مسئلہ کشمیراوربھارتی جارحیت کے تناظرمیں وزیراعظم نوازشریف کاپارلیمانی جماعتوںکے قائدین کااجلاس بلانا اورچندایک سیاستدانوں کے سواتمام سیاسی قیادت کا اس اجلاس میں شرکت کرنااس بات کاواضح ثبوت ہے کہ ملکی معاملات کے اہم فیصلے اب فردواحدکی طرف سے نہیںہوتے بلکہ قومی اتفاق رائے اورباہمی مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔
اب اس اجلاس کوبھی اجلاس تک ہی محدودنہ رکھاجائے اس میںجوفیصلے کئے گئے ہیں ان پرعمل کرنے کاسلسلہ بھی شروع ہوجاناچاہیے۔ موسم میں تبدیلی کے بعدہوناتویہ چاہیے تھا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ میںکمی کرکے عوام کوریلیف دیاجاتا الٹااس میںا ضافہ کردیاگیا ہے۔حکومت کی طرف سے اس غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ میں اضافہ کانوٹس لینے کے بجائے اس کی کھلی اجازت دینا اس بات کاثبوت ہے کہ موجودہ حکومت کوعوام کی مشکلات کاکوئی احساس نہیں ہے۔وزارت پانی وبجلی کاکہناہے کہ بجلی کی پیداواراورسپلائی کرنے والے ادارے ضرورت کے مطابق غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کرسکتے ہیں۔وزارت پانی وبجلی کے مطابق گرمی کی شدت میں اضافہ سے شارٹ فال میںا ضافہ ہواہے۔شہری علاقوںمیں چھ اوردیہاتی علاقوںمیں آٹھ گھنٹے کی معمول کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔
وزارت پانی وبجلی کالوڈشیڈنگ شیڈول کے مطابق چھ اورآٹھ گھنٹے کرنے کادعویٰ اپنی جگہ شہری اوردیہی علاقوںمیں اس سے بھی کہیںز یادہ لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ہمارے شہرلیہ میں ساری ساری رات بجلی نہیںہوتی دن کے اوقات میں کئی کئی گھنٹوںکی لوڈشیڈنگ اس کے علاوہ ہے۔وزارت پانی وبجلی کاکہناہے کہ ڈسکوزلوڈمنیجمنٹ کے مطابق غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کرسکتی ہے۔وزارت پانی وبجلی نے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کرنے کی اجازت توصرف ڈسکوزکودی ہے جبکہ تمام ڈسٹری بیوٹراداروںنے سمجھ لیا ہے کہ یہ اجازت ان کیلئے بھی ہے کیونکہ لوڈشیڈنگ تودیگرڈسٹری بیوٹراداروں کے علاقوںمیں بھی ہورہی ہے۔ترجمان نے کہا کہ آئی پی پیزاورجنکوزکے چھ پاورپلانٹ بندہونے سے بھی شارٹ فال میںاضافہ ہواہے۔
Protest Against Load Shedding
کئی شہروںمیں بجلی کی بندش کادورانیہ اٹھارہ گھنٹے سے تجاوزکرگیاجس کے باعث گھروںا ورمساجدمیںپانی نایاب ہوگیا ہے۔شہری پانی کی بوندبوندکوترس گئے بجلی کے آنے جانے کاکوئی وقت مقررنہیں۔بجلی تین تین گھنٹے مسلسل یا زائد وقت بندرہتی ہے۔بمشکل نصف گھنٹہ یاایک گھنٹے کیلئے بجلی آتی ہے پھرچلی جاتی ہے۔وولٹیج کی کمی اورٹرپنگ نے صورت حال مزیدخراب کردی ہے۔وولٹیج کی کمی کایہ حال ہے کہ پنکھا اور کمپیوٹر دونوں بیک وقت نہیں چلائے جاسکتے ان میں سے کسی ایک کوبندرکھناپڑتا ہے۔چھوٹی صنعتیں بنداورکاروبارٹھپ ہونے سے مزدوربیروزگارہورہے ہیں۔ملتان اوردیگرشہروں سے مشترکہ خبر ہے کہ موسم میں تبدیلی کے باوجودبجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔لائن لاسز چھپانے کیلئے میپکواہلکارشیڈول سے زیادہ بہانوںبہانوںسے بجلی بندرکھنے لگے ۔مختلف شہروںمیں عوام نے سڑکوںپرآکرلوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج کیا۔بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ گیس کی لوڈشیڈنگ بھی ابھی سے کی جارہی ہے۔ حالانکہ بجلی اورگیس کی لوڈشیڈنگ موسم کے لحاظ سے ایک ساتھ نہیں کی جاسکتی۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ گرمیوںمیں ہوتوبات سمجھ میں آتی ہے کہ گرمیوںمیں اضافہ کی وجہ سے اس کے استعمال میں اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ گیس کی لوڈشیڈنگ سردیوںمیں کی جائے توکوئی عجیب بات نہیںہوتی کہ سردیوں گیس کااستعمال بھی بڑھ جاتا ہے اورگیس سردی کی وجہ سے منجمدبھی ہوجاتی ہے۔
اس وقت جوبجلی اورگیس کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ موسم کے لحاظ سے نہ توبجلی کی لوڈشیڈنگ کاوقت ہے اورنہ ہی گیس کی لوڈشیڈنگ کا۔نہ تواتنی زیادہ گرمیاں ہیں کہ لوگ اے سی کازیادہ استعمال کررہے ہوں اورنہ ہی ابھی سردیاں آئی ہیں کہ لوگوںنے گیس ہیٹرجلاناشروع کردیے ہوں۔اخبارمیں شائع ہونے والی ایک خبرکے مطابق شہری علاقوں میں رات ٩ بجے کے بعداوردن میںکسی بھی وقت بجلی بندکردی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے کھانے پکانامشکل ہوگیا ہے خواتین، دفتری ملازمین اورطلبہ شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ایک شہری چنددن پہلے کہہ رہاتھا کہ ان بجلی والوں کے کام دیکھوصبح کے وقت ہرکسی نے تیارہوکرناشتہ کرکے اپنے اپنے کام پراورطلبہ وطالبات نے سکول جاناہوتا ہے ۔ خواتین کوناشتہ تیارکرنا ہوتا ہے بجلی بھی صبح کے وقت نہیںہوتی۔کئی قومی اخباروںمیں یہ خبربھی شائع ہوئی ہے کہ حکومت نے آئی پی پیزکو ادائیگی نہیں کی اسی لیے بجلی کی پیداواری کمپنیوںنے بجلی کی پیداواربندکردی ہے۔
سابقہ حکومت سے بھی یہی شکایت تھی کہ عوام سے توبل وصول کرلیاجاتا ہے عدم ادائیگی کی صورت میں میٹراتارلیاجاتا ہے۔موجودہ حکومت نے بھی اسی شکایت کاپھرسے موقع دے دیا ہے اب بھی عوام سے توبل وصول کرلیاجاتا ہے۔بل ادانہ کرنے صورت میںکنکشن کاٹنے کی دھمکیاںبھی بلوں پرلکھی ہوتی ہیں۔سابقہ حکومت کوبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ لے ڈوبی تھی موجودہ حکومت بھی شایدیہی چاہتی ہے کہ جس طرح گزشتہ انتخابات میں عوام نے لوڈشیڈنگ کاغصہ اس وقت کی برسراقتدارپارٹی پرنکالاتھا اسی طرح عوام لوڈشیڈنگ کاغصہ موجودہ برسراقتدارسیاسی پارٹی پربھی نکالیں۔پاورپلانٹس بندہوگئے ہیںیاآئی پی پیزکوادائیگی نہیںکی گئی تواس میں عوام کاکیاقصورہے کہ اسے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دوچارکیاجارہا ہے۔وزیراعظم کوپاورپلانٹس کی بندش، آئی پی پیزکوعدم ادائیگی اوراضافی لوڈشیڈنگ کانوٹس لیتے ہوئے پاورچلانے، آئی پی پیزکوادائیگیاںکرنے اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ختم کرنے کی ہدایت دے کرسختی سے رپورٹ طلب کرنی چاہیے۔