اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اہم قومی معاملات پر قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا آغاز ہو گیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا 30 نکاتی ایجنڈا بھی جاری ہو چکا ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد قومی ترانہ پڑھا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے جیسے ہی مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کو بلز پیش کرنے کی اجازت دی تو اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ کیا گیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔
مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین بل پر آپ سے بات کرنا چاہتی ہے لہذا اس بل کو مؤخر کر دیا جائے۔ بابر اعوان کی استدعا پر اسپیکر اسد قیصر نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل مؤخر کر دیا۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ بار بھی رات کے 10 بجے مشترکہ اجلاس بلانے کا اعلان کیا گیا، وہ اجلاس مؤخر کر دیا گیا، مجھے آپ کا خط موصول ہوا، ہم نے پوری توجہ سے آپ کے خط پر غور کیا اور اس کا مکمل جواب آپ کو دیا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا اپوزیشن ارکان کو داد دیتا ہوں کہ وہ حکومتی دباؤ میں نہیں آئے، حکومت اور اتحادی بلز کو بلڈوزکرانا چاہتے ہیں، حکومت کے اتحادی انکاری تھے تو اجلاس کو مؤخر کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے ایوان اور 22 کروڑ عوام دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں، یہ سلیکٹڈ حکومت اب عوام کے پاس ووٹ کے لیے نہیں جا سکتی کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ عوام ان کو ووٹ نہیں دیں گے، مشین کے ذریعے یہ سلیکٹڈ حکومت اپنی معیاد کو طول دینا چاہتی ہے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس خراب ہو گیا جس کے نتیجے میں دھاندلی زدہ حکومت وجود میں آئی، اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا مطلب ہے ’ایول اینڈ وشیس مشین‘ ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے لیے وزیراعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر اراکین ایوان میں موجود ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قائد حزب نے کہا کہ حکومت کالا قانون مسلط کرنا چاہتی ہے تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کوئی کالا قانون مسلط نہیں کرنا چاہتے بلکہ ماضی کی کالک کو دھونا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کا دن ایک تاریخی دن ہے کیونکہ 1970 کے بعد سے آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے سب پر سوالات اٹھائے گئے، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے بھی انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے، اب سمت درست کرنے کا وقت آ گیا ہے تاکہ ایسی قانون سازی ہو کہ جس سے شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے اس قانون سازی کے حوالے سے کسی قسم کی عجلت سے کام نہیں لیا بلکہ قانون سازی کے لیے تمام پروسیجرز کو اپنایا اور اجلاس مؤکر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے کچھ معزز ممبران کے خدشات تھے جنہیں دور کرنے کے لیے انہوں نے وقت مانگا اور ہم نے وقت دیا، جب ہمارے معزز ممبران دلائل سے قائل ہوئے تو آج ہو ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں۔
وزیر خارجہ کا قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے ای وی ایم کو دیے گئے نام پر ردعمل میں کہنا تھا کہ آپ نے ای وی ایم کو جو نام دیا وہ آپ کا حق ہے لیکن یہ ایول اینڈ وشیس مشین نہیں بلکہ ایول ڈیزائرز کو دفن کرنے کے لیے لائی جا رہی ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس آمد پر صحافیوں نے شہبا ز شریف سے سوال کیا کہ کیا حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے یا شکست دیں گے؟ شہباز شریف کا جواب میں کہنا تھا کہ ہمارے پاس اپنی تعداد پوری ہے، جو اللہ کو منظور ہوگا وہی ہوگا، مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن اپنا جواب دے گی۔
پارلیمنٹ میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی جبکہ شہباز شریف نے گرم جوشی سے بلاول بھٹو کا استقبال کیا۔
ملاقات میں مولانا اسعد محمود، یوسف رضا گیلانی، شیری رحمان اور دیگر بھی موجود تھے۔
نمبرز پورے ہیں، سارا ایجنڈا منظور کروائیں گے: چیف وہپ پی ٹی آئی دوسری جانب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل حکومتی اتحادیوں کا اجلاس بھی ہو رہا ہے، اجلاس سے قبل تمام اراکین کے موبائل فون باہر جمع کیے جا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیف وہپ عامر ڈوگر کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے نمبرز پورے ہیں،حکومت آج سارا ایجنڈا منظور کروائے گی، اتحاد اور اتفاق آج آپ کو ایوان میں نظر آئے گا۔
حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال، اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق اور انتخابی اصلاحات سمیت کئی اہم بل منظوری کے لیے پیش کرے گی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کی کوشش میں حکومت کامیاب ہو گی یا اپوزیشن؟ آج دونوں کا کڑا امتحان ہو گا۔
مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کا کہنا ہے کہ اتحادی ہمارے ساتھ ہیں اور ہمارے حق میں ووٹ دیں گے، قانون عوامی مفاد کے لیے ہے کسی کو فائدہ دینے کے لیے نہیں۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کا دروازہ آج بھی کھلا رکھیں گے، اپوزیشن کو عقلمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن کے نمبرز پورے ہیں، اپوزیشن کے علاوہ تحریک انصاف کے اراکین بھی ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔