تحریر: مبشر ڈاہر گھوڑا سم دار پستانیہ نسل کا جانور ہے۔ ارتقائی لحاظ کے قدیم النسل ہے اور 4000 ء قبل مسیح سے انسانوں کے تربیت و استعمال میں ہے۔گھوڑا افزائش، نسل، فنی و حربی استعمال اور دورانِ حیات مراحل کے اعتبار سینہایت دلچسپ جانور ہے۔ خیر اب تو گھوڑوں کی افزائش، نسل، تاریخ، تاریخی و جنگی اہمیت، رنگ، اور دیگر خوبیوں پر ان گنت کتابیں لکھی جا چکی ہیں حال ہیں پورے سو ورق پر مشتمل کتاب لکھی گئی ہے کہ ” گھوڑا کیسے دوڑتا ہے” جس کو اسواقِ ذوق و ادب میں کافی پزیرائی حاصل ہو رہی ہے۔
علاقائی لحاظ سے گھوڑوں کی کئی مشہور قسمیں ہیں، جیسے عربی النسل، یونانی النسل، ہندی النسل، ترکی النسل امریکی النسل اسی طرح مزاج کے اعتبار سے بھی گھوڑوں کی چند قسمیں ہیں، جیسے جابر المزاج، مانوس المزاج، اصیل المزاج،منکسر المزاج، شریف المزاج، اور اسی طرح سیاسی اعتبار سے بھی گھوڑوں کو چند قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے جیسے شاہی گھوڑے،سلطانی گھوڑے، رحمانی گھوڑے،عمرانی گھوڑے،بکاؤ گھوڑے، بھوس بھرے گھوڑے۔ اصلی گھوڑے،نقلی گھوڑے، چھانگا مانگا کے گھوڑے، بلاول ہاؤس کے گھوڑے، شرفاء کی کھرلی کے گھوڑے۔ شرفاء کی کھرلی سے یاد آیا کہ یہ شریف خاندانوں میں تو گھوڑوں کا کاروبار شاید صدیوں سے چلا رہا ہے، کچھ شرفاء نے تو ستر اسی کی دہائی میں بھی شاید گھوڑوں کا کاروبار قطر اور دبئی سے ہی شروع کیا تھا اور انگلستان اور نجانے کہاں کہاں پہنچا دیا،اس اتنے لمبے چوڑے بین الاقوامی کاروبار کاتفصیلی جائزہ لینا تو درکنار اس کی صرف خلاصہ آرائی کے لیے حال ہی میں” سیان پتی بازار” کے بڑے بڑے دماغوں نے مل کرکوئی آٹھ نو ماہ اس منصوبے پر کام کیا ہے لیکن وہ تمام بڑے دماغ اس بین الاقوامی کاروبار کی محض خلاصہ آرائی میں ناکام و نامراد ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
وہی شرفاء آج کل پاکستان کے سب سے بڑے اصطبلوں اور کھرلیوں کے مالک بن چکے ہیں،شرفاء نے کاروبار تو سارے ہی کر دیکھے ہیں پر جو ترقی شرفاء نے گھوڑوں کے کاروبار میں کی ہے اورجو منزلیں اور رفعتیں حاصل کی ہیں وہ تو یقینا انسانیت کی تاریخ میں بھی کسی گھڑ بان نے پہلے کبھی حاصل نہیں کی،اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ گھوڑے خواہ اصطبل کے ہوں، خواہ ریس کورس کے، خواہ میدان جنگ کے ہوں اور خواہ کھرلی کے، شرفاء سے بڑھ کر ان کی پہچان کسی اور غیرِ شرفاء کو تو ہو ہی نہیں ہوسکتی،پہلے پہل تو شرفاء نے گھوڑوں کی خرید و فروخت آبادی سے کہیں دور چھانگا مانگا میں شروع کی تھی لیکن اب توشب و روزان کے محلوں اور ڈرائنگ روموں میں گھوڑوں کی خرید فروخت زوروں پر رہتی ہے۔
خیر ہم بات کر رہے تھے گھوڑوں کی،اب تو گھوڑوں کی خرید وفروخت وطنِ عزیز میں ایک خاص صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔سب سے اعلی نسل کے گھوڑے پاکستان میں وہی سمجھے جاتے ہیں جنہیں سعودی عرب کے شاہی خاندان یا پھر اس سے اوپر امریکی باشندگان ِ کرم کی طرف سے مہرِ تصدیق ثبت کی گئی ہو، پھر ایسے گھوڑے کب دوسرے گھوڑوں کو منہ لگاتے ہیں،ایسے گھوڑوں کے ریسنگ ٹریک بھی مخصوص ہوتے ہیں۔ کبھی وہ موٹروے کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں اور کبھی وہ جنگلے لگا کر ان کے بیچ و بیچ دوڑتے نظر آتے ہیں۔کبھی پانامہ کے جزیروں میں ان کی جھلک ملتی ہے تو کبھی استنبول و نیویارک کی سڑکوں پر ان کے سموں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
وطن عزیز میں پچھلے چار پانچ سال سے گھوڑوں کی مارکیٹ میں کافی مندی دکھائی دے رہی تھی۔ اب کچھ عالمی خریداروں کی موجودگی اور سیزن کی آمد آمد کی وجہ سے ان اصلی نسلی گھوڑوں کی قیمتیں اگلے تھوڑے وقت میں کافی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ خاص طور پر وہ گھوڑے جن کے قیمتیں امریکی ڈالروں، سعودی ریالوں اور قطری دیناروں میں لگیں گی۔ پرانے وقتوں میں تو گھوڑوں کی عمر، قد، کاٹھ، رنگ، نسل، اور تخم دیکھ کر قیمت لگائی جاتی تھی، اب کے حالیہ برسوں میں گھوڑوں کی نہ تو نسل دیکھی جاتی ہے، نہ تخم و رنگ دیکھاجاتا ہے۔ بدلتے زمانوں کے ساتھ ساتھ اب تو صرف گھوڑوں کی ہنہنا ہٹ دیکھی جاتی ہے اور ان کی آنکھ کی شرم دیکھ کران کی بولی لگائی جاتی ہے۔ جس کی ہنہناہٹ میں حلاوت اور آنکھ میں شرم نام کی خوبی تھوڑی زیادہ ہو تو پھر صاف ظاہر ہے اس کا مول تو۔ ۔۔۔۔۔ جب کسی گھوڑے کی قیمت صحیح سے نہ پڑے تو وہ ہنہنانے سے بھونکنے والا گھوڑا بن جاتا ہے۔ایسے مصدوم گھوڑوں کو پاگل گھوڑا کہا جاتا ہے۔مجھے اس پر اس اعتراض یہ ہے کہ مورکھ گھوڑا تو سمجھ آتا ہے پر یہ پاگل گھوڑا کیا ہوتا ہے۔ گھوڑوں کی ایک نادر قسم ایسی بھی وطن عزیز میں ملتی ہے جن کو لوگ پرچیاں” لگا گر”، پرچیاں ”گرا کر”، اور پرچیاں” ڈال کر” لاتے ہیں۔دراصل عوام بہت غریب ہیاپنے ذاتی و خصوصی گھوڑے ان کی پہنچ سے کافی دور ہوتے ہیں ہاں البتہ عوام الناس مل جل کر ” پرچیاں ” ڈال کر کسی ایک گھوڑے کومنتخب کرتے ہیں یہ ہمارے طرف سے ریس ٹریک میں اترے گا اور ہمارے علاقے کی نمائندگی کرے گا اور ہمارا نام روشن کرے گا کہ واہ فلاں علاقے کے لوگوں نے کیا گھوڑا بھیجا ہے پر ان کا گھوڑاتو ریسنگ ٹریک میں اترنے سے پہلے ہی کسی اور شریف النفس سے مانوس ہو کر اس کے اسطبل کے چھولوں کلچوں پر لگ جاتا ہے۔
خیر معاف کیجیے گا، کلچوں والی تھوڑی سی مبالغہ آرائی ہی ہوئی ہے ہم سے۔ اصل میں گھوڑا بے چارہ اپنے انتخابی میدانِ عمل میں تھک ہی اتنا جاتا ہے کہ اسے اب ریس کورس میں ریس کی بجائے ریس کورس کی ٹھنڈی، خمار زدہ، ہواؤں سیزیادہ شغف ہونے لگتا ہے۔ امراء و رئیساء کی تھپکیوں کا مزہ زیادہ آنے لگتا ہے،دیگر علاقائی گھوڑوں کیساتھ مل کربین الاقوامی شوقین شیخوں اور گوروں کی تھاپ پر ناچنے میں بڑا مزہ آنے لگتا ہے۔ عوام الناس اور اہل علاقہ کی ریس تو بھول ہی جاتا ہے۔عوام الناس تو بس اس کی آنیاں جانیاں ہی تکتے رہتے ہیں۔ خیر چار پانچ سال تو ایسے ہی گزر جاتے ہیں۔چارپانچ سال کے بعد اب پھر گھوڑے اپنے اپنے علاقوں میں واپس جاتے ہیں تاکہ ایک بار پھر علاقائی توثیق حاصل کی کوشش میں لگ جاتا ہے تاکہ پھر کسی طرح سیریس کورس کی خمار ذدہ ،نشیلی، ہواؤں کے مزے لوٹنے کی راہیں ہموار کی جائیں۔
اس دفعہ تومارکیٹ میں چند عمرانی گھوڑے بھی اتارے جا رہے ہیں جن کے خوبیاں تو بڑی بڑھا چڑھا کر بیان کی جا رہی ہیں نایاب نسل،نوجوان عمر،دستِ غیر سے عدم مانوسیت،رنگ کی بے مثل عمدگی، لگام و زین نہایت قبلہ پسند، کہنے کو تو یہ ساری باتیں ملیں گی لیکن ذرا قریب سے دیکھیں تو وہی پرانے گھوڑوں کی تھوڑی تھوڑی لگامیں اور زینیں بدلی جا رہی ہیں اورانہیں تھوڑا رنگ روغن کی پھوار مار کر مارکیٹ میں دستیاب گھوڑوں سے بہتر اور موثر بتایا جا رہا ہے۔اس ”قحط الحصانی” کے دور میں دکھائی یہی دے رہا ہے کہ عمرانی گھوڑے میدان تو مار ہی لیں گے، پر کیا میدان ِ عمل میں یہ بھی پرانی ڈگر چھوڑ کر ریس کورس میں دوڑ پڑیں گے اور اپنے شہ سوار کو درست ثابت کریں یا پھر ہمیں اب بھی نامرادی سے اس نئے شہ سوار کے بارے میں یہی کہنا پڑے گا کہ گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میں۔۔۔۔