تحریر: حبیب اللہ سلفی برائے رابطہ: 0321-4289005 وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمانی جماعتوںکا اجلاس ہوا ہے جس میں ملک بھر کی قومی سیاسی قیادت کے علاوہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے بھی شرکت کی۔ اس دوران سانحہ پشاور جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے انسداد دہشت گردی کی پالیسی کو حتمی شکل دینے کیلئے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ لاتعداد چھوٹی چھوٹی تنظیموں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔ اس صورتحال میں لولے لنگڑے فیصلوں کے بجائے مضبوط اقدامات سے ہی قوم مطمئن ہوگی اور ملک میں پائی جانے والی غیر معمولی صورتحال غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔پشاور کا واقعہ پوری دنیا کے لئے ایک المیہ ہے۔ آخر کب تک یہ لوگ قوم کے بچوں، معصوم شہریوں اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو مارتے رہیں گے۔
مجرموں کو سزا ملنے پر ہی قوم مطمئن ہوگی۔ ہم نے کمزور اقدامات اٹھائے تو قوم قبول نہیں کرے گی، پاکستان نے اس جنگ میں اب تک بھاری قیمت چکائی ہے۔ اس سے ہماری معیشت پر بھی کافی بوجھ پڑا ہے۔ انہوںنے کہاکہ دہشتگردی کینسر جیسی بیماری ہے جس کا علاج نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں ان کے خلاف سخت فیصلہ کرنا ہوں گے جو پاکستان کو جڑ سے ختم کرنا چاہتے ہیں اور جو قوم کے نونہالوں کو قتل کررہے ہیں ۔ معصوم بچوں کے قاتلوں کے دلوں میں رحم نہیں بلکہ یہ پتھر دل لوگ ہیں۔ اس سے پہلے ہم نے کبھی فیصلہ کن جنگ نہیں لڑی اور مذاکرات کے ذریعہ معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن اب ہم نے فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیاہے۔
سانحہ پشاور کو کئی دن گزر چکے ہیں لیکن پاکستان سمیت پوری مسلم امہ میں بسنے والے مسلمانوں کے دل زخموں سے چور ہیں۔ معصوم بچوں کے قتل عام پر پاکستان میں تین دن کا سوگ منایا گیا تو سعودی عرب، ترکی اور دیگر مسلم ملکوں میں بھی غم کی کیفیت رہی۔ ترکی میں سرکاری سطح پر ایک دن کا سوگ منایا گیاتو سعودی عرب میں رہائش پذیر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہاں کے عوام ہمارے ساتھ مل کر اس طرح تعزیت کا اظہار کرتے اور آنسو بہاتے رہے کہ جیسے ان کے اپنے بچے اس افسوسناک سانحہ میں شہید ہوئے ہوں۔پاک سعودی عوام کے درمیان محبت اور اخوت کے یہی وہ لازوال رشتے ہیں کہ جنہیں پوری دنیا میں نا صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ دوستی کے اس پر خلوص رشتہ کی عالمی دنیا میں مثالیں بیان کی جاتی ہیں۔
یہ دونوںملک یک جان دوقالب کی حیثیت رکھتے ہیں جس کا واضح اظہار ہر اس موقع پر دیکھنے میں آیا جب پاکستان کو زلزلہ، سیلاب یا کسی اور قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا۔ہر مشکل وقت میں سب سے پہلے سعودی عرب ہی وہ برادراسلامی ملک ہے جو ہمیشہ پاکستانیوں کی مدد کیلئے پہنچااور ساتھ نبھانے کا حق ادا کیا ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ پاک سعودی تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کا خواہشمند طبقہ سوشل میڈیا پر بے پرکی خبریں اڑا رہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اس سانحہ کی مذمت نہیں کی گئی ۔ یہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت حرکت ہے جس کا حکومتی ذمہ داران کو ضرور نوٹس لینا چاہیے اور ایسا بے بنیاد پروپیگنڈا کرکے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین غلط فہمیاںپیدا کرنے کی مذموم کوششیں کرنے والوں کا ضرور محاسبہ کرنا چاہیے۔ الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد جہاں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعودسعودی ولی عہد اورنائب وزیر اعظم و وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے صدر پاکستان ممنون حسین کے نام اپنے علیحدہ علیحدہ تعزیتی پیغام میں اس انتہائی دردناک سانحہ پر گہرے افسوس اور رنج و غم کا اظہار کیا’معصوم شہداء کے درجات کی بلندی کیلئے دعائیں کی اور ان کے والدین سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔
Sheikh Saleh bin Mohammad Talib
وہیں امام کعبہ امام کعبہ شیخ صالح بن محمد طالب نے آرمی پبلک سکول پشاورمیں دہشتگردوں کے ہاتھوں بچوں کے بہمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسلامی شریعت کی روشنی میں اسے حرام عمل قرار دیااور کہاکہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے جو ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ سکولوں پر حملوں سے اسلام کا تشخص متاثر ہوتا ہے اسلام میں بچوں کا قتل حرام ہے اور اللہ تعالیٰ بچوں کے قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔مسجد نبوی میں خطبہ کے دوران امام شیخ احمد الحذیفی نے بھی سانحہ پشاور کو غیر انسانی فعل اور انسانی تاریخ کا بدترین واقعہ قرار دیا اور کہاکہ اسلامی تاریخ میں ایسے واقعہ کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اسلام کو سچا دین ماننے والے ایسا شیطانی عمل اور دہشت گردی نہیں کر سکتے۔
جو لوگ بھی اس دل دہلا دینے والے سانحہ میںملوث ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خانہ کعبہ اورمسجد نبوی سمیت پورے سعودی عرب کی مساجد میںسانحہ پشاور کے شہداء کیلئے دعائے مغفرت اور انکے درجات کی بلندی کیلئے دعائیں مانگی گئیں۔اسی طرح پاکستان میں بھی سعودی عرب کے قائم مقام سفیر جاسم محمد الخالدی نے ذاتی طور پر وزارت خارجہ جاکر اس افسوسناک سانحہ پر سعودی حکومت اور سعودی عوام کی طرف سے گہرے دکھ اور رنج و غم کا اظہار کیا اور دہشت گردی کے اس افسوسناک سانحہ کی سخت مذمت کی۔ شیخ جاسم کا بھی کہنا تھا کہ اس سانحہ نے پاکستان و سعودی عرب سمیت پوری مسلم امہ کو انتہائی غمزدہ کر دیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح سعودی عرب میں سانحہ پشاور کا دکھ اور غم محسوس کیا گیاپاکستان کے علاوہ شاید ہی کسی اور ملک میں محسوس کیا گیا ہو۔ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام کے مابین محبتوں کے ان رشتوں کو قائم و دائم اور حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھے’ آمین۔آخر میں’ میں پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب کا ذکر ضروری سمجھتا ہوںجس میں ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے بروقت فیصلے نہ کئے تو اس کا بوجھ ملک کی تمام سیاسی قیادت پر آئے گا اس لئے ہمیں مل کر اپنے خدشات کو ختم کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم کی یہ باتیں بالکل درست ہیں ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت یکسو ہو کر دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اقدامات کرے۔ 1965ء کے بعد پاکستانی قوم میں اس طرح اتحاد ویکجہتی کاماحول دیکھنے میں آرہا ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے جرأتمندانہ اقدامات اٹھائے پاکستانی قوم کا ہر طبقہ اللہ کے فضل و کرم سے ان کی پشت پر کھڑا ہے۔
Terrorists
جیلوں میں موجود دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کا عمل بھی خوش آئند ہے’ یہ سلسلہ نا صرف جاری رہنا چاہیے بلکہ دہشت گردی کے خلاف جس فیصلہ کن جنگ کا عزم کیاجارہا ہے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے قاتلوں کو چوکوں و چوراہوںمیں سب کے سامنے پھانسی کے پھندوں پر لٹکانا چاہیے تاکہ بے گناہ مسلمانوں اور معصوم بچوں کا خون بہانے والے دہشت گرد عبرت حاصل کریں اور آئندہ کیلئے ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔