یہ بات قابل غور ہونی چاہئے کہ پارلیمانی نظام کے علاوہ کسی اور نظام کو لانے کی خبریں کیوں گردش کررہی ہیں اور کیوں جمہوریت کے رکھوالے اس نظام کو بچانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کیلئے کھڑے ہوگئے ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں آٹھ نامی گرامی معیشت دانوں نے وزارت خزانہ یا مشیر خزانہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ تقریباً پاکستان کی ہر حکومت خزانے کے معاملات سنبھالنے میں ابھی تک ناکام دیکھائی دیتی رہی ہے۔ آنے والی حکومت جانے والی حکومت پر معیشت کی تباہی کا ملبہ ڈھاتی رہی ہیں۔ موجودہ حکومت سے پیشتر کبھی کسی نے نہیں بتایا تھا کہ معیشت تباہی کے دھانے پر کیسے پہنچی ہے کیونکہ انہوں نے بھی وہی سب کچھ کرنا ہوتا تھا جو جانے والے کر گئے ہوتے تھے۔ مذکورہ آٹھ وزیر خزانہ میں سے شائد ایک یا دوسیاسی بنیادوں پر یہ ذمہ داری نبھاتے دیکھائی دئیے باقی تمام کا شمار اپنے اپنے فن پیشہ ور ماہر وں (ٹیکنو کریٹس) میں ہوتا ہے اور نامی گرامی معیشت دان سمجھے جاتے رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں کہ ان افراد کی قابلیت کی آج بھی دنیا معترف ہے۔لیکن کیا وجہ رہی ہوگی کے ایسے نامی گرامی لوگ بھی پاکستان کی معیشت کو سیدھا نہیں کرسکے یہاں تک کہ کوئی ایک ایسی حکمت عملی مرتب نہیں دے سکے جسے کہا جائے کہ یہ کارنامہ مشہور زمانہ وزیر یا مشیر خزانہ کی مرہونِ منت نافذ العمل ہوئی ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ تمام لوگ ملک کا خزانہ حکمرانوں کے خزانوں میں منتقل کرنے میں مصروف رہے تو شائد غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ عقل انسانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ باہر بیٹھ کر تو ایسا جمع، تقسیم، ضرب اور گھٹانے کے ہنر بتاتے ہیں کہ سننا والا کہے کہ اس سے بہتر تو معیشت کو کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا لیکن جیسے یہ موقع ملا تو ہاتھ کھڑے کر دئیے بھلا یہ کہاں کی مستقل مزاجی اور حب الوطنی ہے۔
ہمارے ملک میں تما م نظام کاغذوں میں موجود ہیں، سارے قوانین کاغذوں میں موجود ہیں، ساری حکمت عملیاں کاغذوں میں موجود ہیں، سارے عوامی فلاح کے منصوبے کاغذوں میں موجود ہیں، یہ کہنا بلکل درست نہیں کہ ہمارے ملک میں اہل لوگ نہیں ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس اہل قیادت نہیں رہی جو ان اہل لوگوں کی قابلیت سے فائدہ اٹھا سکتی۔ کیا وجہ ہے کہ یہ اہل لوگ دنیا کے ممالک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے چلے جاتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں رشوت اور بدعنوانی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔جی ہاں بلکل ایسا ہی ہے کہ ہم وسیع النظری کے فقدان کے باعث کنویں کے مینڈک بن کر رہے گئے ہیں۔ ہم نے پاکستان کا بیانیہ پاکستان بننے کے ستر سال ترتیب دیا ہے۔ آج تک جو کچھ ہوا ہے وہ سب کچھ ذاتی دیکھاوے اور ذاتی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بہترین وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کی کوششیں ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ ٹیکس چوری کرنا فخر سمجھتے ہیں، بجلی و گیس چوری کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور بڑی بات یہ ہے کہ ٹیکس، بجلی اور گیس کے اہم شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی ان چوروں کوچوری کرنے کے طریقے بتاتے ہیں جس کی مد میں ان سے منہ مانگی رقم وصول کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو جتنا اچھا ضابطے کو سمجھتا ہے وہ اتنا ہی بڑا اسکی خلاف ورزی کرنے والا واقع ہوا ہے۔ شائد ہی کوئی پاکستان میں ایسا ادارہ ہو جہاں بدعنوانی نا ہو کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ لیکن ہے ضرور۔ ہم پاکستانی کسی کو دھوکا دینا اپنی بڑائی سمجھتے ہیں اور اپنے حلقے میں بڑی شان سے اس بات تذکرہ کرتے ہیں۔ہم نے اپنی بساط سے کہیں زیادہ بڑی چادر کی توقع کر رکھی ہوتی ہے اور توقع کاپورا نا ہونا کسی دوسرے طریقے پر عملدرآمد کیلئے اکساتا ہے۔کمیٹیوں پر کمیٹیاں بنتی گئیں لیکن کبھی کسی نے اس بدعنوانی کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور کر بھی کیسے سکتا تھا وہ کیا خوب کہا ہے کسی نے کہ سمندر میں رہ کر مگر مچھ سے کون بیر لے۔ جس ملک کے وزیر اعظم اور صدر پر بدعنوانی کے الزامات ہوں اور ساتھ ہی انکے اپنے خونی رشتہ داروں کو بھی اس جرم میں شامل رکھا ہوا ہو۔ یہاں کوئی سیاست سے باہر رہنے کیلئے تیار نہیں، کوئی وزارت کا پیچھا چھوڑنا نہیں چاہتاکیونکہ یہ سب بدعنوانیوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ پروٹوکول کے عادی ہوچکے ہیں یہ ہر خرچہ سرکاری خزانے سے کرنے کے خواہشمندرہے ہیں۔ جھوٹ اتنا بولو کے سچ کا گمان ہونے لگے لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ گمان تو گمان ہی ہوتا ہے اور سچائی مٹ نہیں سکتی بناؤٹی اصولوں سے، ایک دن سامنے آکر ہی رہتی ہے۔
ہمارے حکمرانوں نے لوٹ کی حد کر رکھی تھی، مکمل جانچ پڑتا ل سے جو چیزیں سامنے آرہی ہیں وہ عملی دلیل ثابت ہورہی ہیں کہ پاکستان میں شائد ہی کوئی فرد ایسا ہو جو کسی نا کسی طرح سے بدعنوانی کے چنگل سے بچا ہوا ہو۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ قانونی طور پر بدعنوان ثابت ہونے والوں کے پیچھے پیچھے گھوم رہے ہیں وہ صرف اسلئے کہ انکی بدعنوانی سامنے آنے سے شائد رک جائے، جوکہ ممکن ہی نہیں ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو رہزن کو رہبر بنالیتے ہیں اور اپنی بے ایمانیوں کو چھپانے کیلئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ ملک کی بنیادیں کمزور کرنے والوں کیلئے حکومت کو کوئی ایسا عبرت ناک قانون بنانا چاہئے کہ آنے والے وقتوں میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی بدعنوانی سے بھی اپنے آپ کو باز رکھے۔ رہزن نما رہبروں کے چیلے ہی ہیں جو آٹے دال سے لیکر جہاں تک بس چلتا ہے بے ایمانی کے جھنڈے گاڑتے جا رہے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو طلب و رسد کا بحران پیدا کرتے ہیں اور پھر اشیاء پر اپنی مرضی کا منافع طلب کرتے ہیں اور ملک میں مہنگائی کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔
ستر سال گزر گئے،ایسا نہیں کہ پاکستان شروع سے ہی بدعنوانوں کے ہاتھوں میں ہے، البتہ ایسے لوگوں کی نظروں میں شروع سے ہی تھا جنہیں پاکستان کا وجود کھٹکتا تھا اور آج تک کھٹک رہا ہے۔ پاکستان کا ایک انتہائی پررونق دور تھا جب پاکستان نے دنیا کے مختلف ممالک کی معیشت کو سہارے دیکر انہیں مستحکم کرنے میں اپنا قلیدی کردار ادا کیا۔آج اگر کوئی پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے تو اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ پاکستان کی حیثیت سے بہت اچھی طرح سے واقف ہیں۔ پاکستان ایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی بھرپور کوشش کررہا ہے اور یہ کوشش ایک بار پھر ان لوگوں کیلئے انتہائی تکلیف کا باعث بنی ہوئی ہے جن کے آباؤ اجداد کی بدعنوانیوں کی وجہ سے پاکستان یہاں تک پہنچا ہے۔ وہ ہر گز نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو جسکے لئے وہ سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار دیکھائی دے رہے ہیں، اپنی انا کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار دیکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اب وقت کی تبدیلی نے خصوصی طور پر میڈیا کی بد حالی نے سب کچھ دیکھانے کا فیصلہ کرلیا ہے اب بدلنا ہم نے ہے۔ اب وقت ہے پاکستان مخالف طاقتوں کیخلاف ایک جان، ایک قوم ہوجانے کا اپنے اندرونی اختلافات بھلا کر پاکستان کو مضبوط کرنے کیلئے ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جو عدالت سے تصدیق شدہ مجرم کا ساتھ دینے نکل کھڑے ہوتے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو مجرم کے رہا ہونے پر ہار پھول پہناتے دیکھائی دیتے ہیں یقینا یہ لوگ سیاسی تو نہیں ہوسکتے۔ سیاسی کارکنان کا نظریہ ہوتا ہے اور وہ نظریہ ملک و قوم کے خلاف تو ہو ہی نہیں سکتا،لیکن یہاں تو صرف ایک نظریہ نظر آتا ہے اور وہ ہے بد عنوانی۔ یقین کریں پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور بدعنوانی کا تعفن زدہ نظام ہمیشہ کیلئے دفن ہوگیا تو کوئی بھیک مانگنے والا تک ہمارے ملک کی گلیوں میں دیکھائی نہیں دیگا اور زکوۃ لینے والوں کو سارا سال تلاش کرنا پڑے گا۔ بس رہزن کو رہبر نا بنائیں۔