تحریر : محمد اشفاق راجا چیئرمین سینٹ میاں محمد رضا ربانی نے کہا ہے کہ جب تمام ادارے بشمول فوج پارلیمنٹ کے تابع ہیں تو پھر سول ملٹری تعلقات پر سوال کیوں اٹھائے جاتے ہیں’ ہمیں اشرافیہ کے پھیلائے اس تاثر کو زائل کرنا ہے’ پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات کیلئے اٹھنا ہوگا۔ گزشتہ روز دولت مشترکہ کی پارلیمانی ایسوسی ایشن کے تحت ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ نے کہا کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاست دان فوج کیخلاف نہیں’ ہر دور میں کسی نہ کسی حیثیت سے پارلیمنٹ کو پانچ چیلنجز کا سامنا رہا ہے’ ان میں سول ملٹری تعلقات’ پارلیمنٹ اور حکومت کے مابین مسئلہ’ پارلیمنٹ اور عدلیہ اور پارلیمنٹ کے دونوں ہاوسز کے مابین مسائل شامل ہیں جبکہ پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات کے حوالے سے حکومتوں سے مسائل اور مشکلات کا سامنا رہا ہے’ کوئی اختیار منتقل کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات میں سیاسی کے ساتھ مالیاتی اور معاشی معاملات بھی کارفرما ہیں۔ پاکستان میں بار بار مارشل لاء لگنے کی وجہ سے ناکام جمہوریت کا تاثر پیدا ہوا جبکہ اشرافیہ چاہتی ہے کہ جمہوریت کے بارے میں ایسا تاثر برقرار رہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پارلیمنٹ اب بھی اپنے اختیارات کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔
اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ صرف ڈیبیٹنگ کلب ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین’ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ریاست کو نہیں چلایا جاسکتا۔ جمہوریت بجلی کی طرح نہیں کہ سوئچ آن کریں اور روشنی ہو جائے۔ انہوں نے اس امر کا بھی اظہار کیا کہ احتساب کا قانون امتیازی نہیں ہو سکتا’ یہ قانون صرف سیاست دانوں کیلئے مخصوص نہیں ہو سکتا۔ہمارے آئین کے تحت اس وقت ملک میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے جس میں بلاشبہ عوام کے منتخب نمائندہ فورم پارلمینٹ کو دوسرے آئینی اداروں پر بالادستی حاصل ہے۔ آئین میں ریاست کے ستونوں مقننہ’ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات متعین ہیں اور ان میں مقننہ (پارلیمنٹ) کو اس لئے بالادستی حاصل ہے کہ اسے آئین میں ردوبدل اور آئین سازی کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے جبکہ دوسرے ادارے مقننہ کے وضع کئے گئے قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔
موجودہ آئین ایک منتخب جمہوری حکومت کے ماتحت 1973ء میں وضع ہوا جبکہ اس سے قبل 1956ء کے آئین میں پارلیمانی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی گئی تاہم یہ نظام دو سال سے زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا اور جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کے اقتدار کی بساط الٹا کر اکتوبر 1958ء میں ملک پر پہلا مارشل لاء مسلط کر دیا۔ اسکے بعد صدارتی طرز حکومت پر مبنی 1962ء کا آئین بھی جنرل ایوب خان نے اپنے دور اقتدار میں وضع کیا جو درحقیقت مارشل لائہی کا تسلسل تھا اور اسے آئینی کور دیا گیا تھا۔ ایوب خان نے 1969ء میں اپنے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک سے زچ ہو کر اقتدار سے علیحدگی کا فیصلہ کیا مگر اقتدار کی منتقلی کیلئے انتخابات کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے مارشل لاء کے تسلسل کی خاطر اقتدار دوسرے جرنیلی آمر یحییٰ خان کے سپرد کردیا جس میں پارلیمنٹ کا وجود ہی ختم ہو گیا اور ایوب خان کی طرح یحییٰ خان کی انتظامیہ بھی پورے سسٹم پر غالب آگئی جبکہ عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت اسی تنخواہ پر جرنیلوں کے ساتھ کام کرنا قبول کیا۔ اس وقت تک عدلیہ جرنیلی آمریتوں کو آئینی کور اور تحفظ بھی فراہم کرتی رہی۔
Yahya Khan
جرنیلی آمر یحییٰ خان کے دور اقتدار میں سقوط ڈھاکہ کی شکل میں قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا’ اور پھر باقیماندہ پاکستان میں 71ء کے انتخابات کے مینڈیٹ کی بنیاد پر ہی ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سونپ دیا گیا جنہوں نے اپنے آمرانہ رویوں کے باوجود تعمیری کام قوم کو 73ء کے متفقہ آئین کا تحفہ دے کر کیا۔ اس آئین میں ہی وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی گئی تاہم جولائی 1977ء میں وفاقی حکومت اور آئین پاکستان تیسرے جرنیلی آمر ضیاء الحق کے ہاتھوں تاراج ہوا جنہوں نے مسلسل گیارہ سال تک بلاشرکت غیرے جرنیلی آمر کی حیثیت سے اقتدار کے مزے چکھے تاوقیکہ انہیں فضائی حادثہ درپیش آیا۔ انہوں نے اپنے یکاوتنہاء اقتدار کی خاطر آئین کو بھی فضا میں تحلیل کر دیا اور یہ بڑ بھی ماری کہ آئین تو محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جسے وہ جب چاہیں پھاڑ کر پھینک دیں۔ عدلیہ نے ضیاء آمریت کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت تحفظ فراہم کیا جبکہ متفقہ آئین کا ملک کو تحفہ دینے والی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد خان کے قتل کے ایک پرانے مقدمے میں الجھا دیا گیا جنہوں نے مرتے دم تک جمہوریت اور جمہوری اقدار کی وکالت کی اور پھر ضیاء الحق نے اپنی سہولت کیلئے 1985ء کا عبوری آئین وضع کیا جس میں پارلیمانی جمہوری نظام کی پخ لگائی اور اسکے ماتحت اپنی من مرضی کے غیرجماعتی انتخابات کرائے اور پھر 85ء کی اسمبلی سے اپنی ذات میں صوابدیدی آئینی اختیارات مرتکز کراکے 73ء کا آئین بحال کیا۔
اس طرح یہ آئین انکے صدارتی صوابدیدی اختیارات کے تابع ہوگیا جنہیں بروئے کار لا کر انہوں نے اپنی ہی لائی گئی غیرجماعتی اسمبلی کا گلا گھونٹا چنانچہ ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام بحال ہونے کے باوجود ملک اور سسٹم پر صدر کا صوابدیدی آئینی اختیار مسلط رہا جسے بروئے کار لا کر جنرل ضیاء کے جانشیں غلام اسحاق خان نے بھی دوبار صوابدیدی آئینی اختیار استعمال کرکے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتیں الٹائیں جبکہ بے نظیر بھٹو کے اقتدار کی دوسری ٹرم بھی انکے منتخب کردہ صدر فاروق بھائی کے ہاتھوں اسی صوابدیدی آئینی اختیار کی بھینٹ چڑھی۔ پھر نوازشریف نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں پارلیمنٹ میں اپنی بھاری اکثریت کے بل بوتے پر پارلیمانی جمہوری نظام کو صدارتی صوابدیدی آئینی اختیار کے شکنجے سے آئین میں ترمیم کرکے نجات دلائی مگر اسکے بعد وہ مشرف کی جرنیلی آمریت کے ہتھے چڑھ گئے اور اس طرح وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام ایک بار پھر پٹڑی سے اتر گیا جسے ٹریک پر چڑھانے کی راہ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جرنیلی آمریت کیخلاف سول سوسائٹی کی تحریک کے ذریعے ہموار کی۔
اس تناظر میں چیئرمین سینٹ نے پارلیمنٹ کے کردار کے حوالے سے جن تلخ حقائق کی جھلک دکھائی ہے وہ بدقسمتی سے ہماری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ پارلیمانی جمہوری نظام جرنیلی آمریت کے شکنجے سے نکلنے کے 9 سال گزرنے کے باوجود جرنیلی آمریت کے خوف میں ڈگمگاتا نظر آتا رہا ہے۔ اس میں یقیناً پارلیمانی جمہوری نظام سے وابستہ حکمرانوں کی اپنی کمزوریوں کا بھی عمل دخل ہے کہ انہوں نے جرنیلی آمریت کے مقابل پارلیمنٹ اور پارلیمانی جمہوری نظام پر عوام کیلئے مسائل کے پہاڑ کھڑے کرکے اور قومی وسائل کی لوٹ مار میں کوئی کسر نہ چھوڑ کر عوام کا اعتماد مستحکم ہی نہیں ہونے دیا۔
Parliament
جمہوری حکمرانوں کی ان کمزوریوں سے ہی جرنیلی آمریت کے راستے ہموار کرنیوالے غیرجمہوری عناصر کو جمہوری نظام کیخلاف پراپیگنڈا کا موقع ملتا رہا ہے چنانچہ انہوں نے پیپلزپارٹی کے سابق اور مسلم لیگ (ن) کے موجودہ جمہوری اقتدار کیخلاف سازشیں پروان چڑھانے اور عسکری قیادتوں کا ”ہر درد کی دوا” والا تاثر اجاگر کرنے کیلئے جمہوریت مخالف پراپیگنڈا میں کوئی کسر نہ چھوڑی جبکہ اس پراپیگنڈا کے دبا? میں آئی زرداری حکومت آرمی چیف جنرل کیانی کو دوسری ٹرم کیلئے توسیع دینے پر مجبور ہوئی جس کا سابق صدر آصف زرداری آج بھی اعتراف کررہے ہیں۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ جنرل کیانی کے جانشیں جنرل راحیل شریف نے ایک خالص پیشہ ور جرنیل کی حیثیت سے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پہچانا اور خود کو ان آئینی ذمہ داریوں کے ہی تابع رکھا۔ اگرچہ انکے دور میں جمہوریت کو ڈی ٹریک کرانے کی سازشیں انتہاء تک پہنچیں اور ان سازشوں کے کپتان عمران خان نے اپنی دھرنا تحریک اور پھر اسلام آباد بند کرو تحریک کے دوران فوج کی سرپرستی حاصل ہونے کا تاثر دینے کی ہر ممکن کوشش کی مگر جنرل راحیل شریف نے ایسی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے ہی اپنے منصب کی ٹرم پوری ہونے سے 9 ماہ قبل ہی اس منصب پر توسیع نہ لینے کا اعلان کردیا اور پھر اس اعلان پر کاربند رہ کر بھی دکھایا۔
گزشتہ روز اس حوالے سے وزیراعظم ہاوس میں آرمی چیف کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ کا اہتمام ہوا تو اس سے جمہوریت کے مستحکم ہونے کا ٹھوس پیغام بھی قوم کو ملا۔ جنرل راحیل شریف نے اس تقریب میں جہاں پیشہ ور جرنیل کی حیثیت سے بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا مسکت جواب دے کر قوم کے حوصلے بلند کئے وہیں انہوں نے آئین پاکستان کے تحت وفاقی جمہوری پارلیمانی نظام کے پائیدار ہونے کے پیغام پر مبنی تحفہ بھی قوم کی جھولی میں ڈالا۔ چنانچہ آج ہماری ماضی کی تاریخ کے تناظر میں آئینی اداروں کے باہم مل کر چلنے کی ایک صحت مند روایت بھی قائم ہوگئی ہے۔ چیئرمین سینٹ نے اس حوالے سے پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے جن ممکنہ اقدامات کا تذکرہ کیا ہے ان پر عمل پیرا ہو کر ہی آئین اور اسکے ماتحت قائم پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب شرمندہ¿ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرانے کا کریڈٹ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی جاتا ہے تاہم اب پارلیمانی جمہوری نظام کو عوام کیلئے قابل قبول بنانے کی ساری ذمہ داری قومی سیاسی قائدین اورحکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے پارلیمنٹیرین حضرات پر عائد ہوتی ہے۔ وہ اگر پالیسی سازی کے معاملات اور عوام کے مسائل کے حل کیلئے پارلیمنٹ کو خود ہی فوقیت نہیں دینگے اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک ہونا بھی اپنی شان کے منافی سمجھیں گے تو جرنیلی شب خونی اور اسے آئینی کور دینے والے عدالتی نظریہ ضرورت کے پھر زندہ ہونے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ پارلیمنٹ کا بھرم بہرصورت اس سے وابستہ قوم کے منتخب نمائندوں نے ہی قائم کرنا اور نبھانا ہے۔