پارلیمانی سال اور عوامی نمائندے

National Assembly

National Assembly

پارلیمانی کیلنڈر کا ایک سال تو مکمل ہو گیا مگر قومی اسمبلی کے موجودہ ایوان نمائندگان کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ اس سال 48 پرائیویٹ ممبرز بل پیش ہوئے جن میں سے 3 سینیٹ نے ارسال کئے تھے۔ پارلیمانی ریکارڈ کے مطابق حکومت نے آرڈیننس سمیت 22 بل ایوان میں پیش کئے جن میں آرڈیننس کی تعداد 14اور بلز کی تعداد 8 تھی۔ اسمبلی نے 7 آرڈیننس اور 4 بلز کی منظوری دی، جن میں تحفظ پاکستان آرڈیننس، گیس اور بجلی چوری سے متعلق آرڈیننس، انسداد دہشت گردی سے متعلق دو آرڈیننس شامل ہیں، اس سال پارلیمنٹ کوئی نیا ایکٹ نہیں بنا سکی جبکہ سینیٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل آرڈیننس مسترد کر دیا۔

اس وقت دس مختلف بلز قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹیوں میں زیر غور ہیں۔کوٹہ سسٹم میں 20سال کی توسیع کے لئے شاہ محمود قریشی کی آئینی ترمیم بھی کمیٹی میں زیر غورہے۔ اسمبلی نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ کی مذمت اور یو ٹیوب کھولنے کے حق میں قرارداد سمیت 53 قراردادیں منظور کیں۔ گزشتہ اسمبلی کے پہلے سال کے ساتھ رواں اسمبلی کا تقابل کیا جائے تو وزیرا عظم کی حاضری مایوس کن رہی اور حلف اٹھانے کے بعد اس سال وہ صرف سات مرتبہ ایوان میں آئے۔ کابینہ کے بیشتر ارکان کی حاضری کا ریکارڈ بھی متاثر کن نہیں اہم وزراء ، خاص طور پر اسحق ڈار کی حاضری بہت مایوس کن رہی۔ حکومت کی جانب سے صرف چوہدری نثار علی خان بیشتر وقت ایوان میں مشکل سوالات کا جواب دینے اور حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے موجود رہے۔ تبدیلی کے نام پر ایوان میں پہنچنے و الے عمران خان نے بھی قومی اسمبلی کو زیادہ اہمیت نہیں دی وہ صرف 12 مرتبہ ایوان میں آئے اور اپنی بات کر کے واپس جاتے رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی 11 اور مولانافضل الرحمٰن 15مرتبہ ایوان میں شریک ہوئے۔ مرکزی قائدین میں خورشید شاہ کی کارکردگی سب سے بہتر رہی ،وہ 75 دن حاضر ہوئے ،ان کے بعد شاہ محمود قریشی کی حاضری کا ریکارڈ بہت اچھا رہا۔

شیخ رشید بھی 42 دن ایوان میں حاضر ہوئے۔ 206 سے زائد ارکان کی حمایت رکھنے و الی حکومت کو مسلسل کورم کا مسئلہ درپیش رہا ، گزشتہ دو اجلاس پارلیمانی نظام کو لاحق خطرات پر بحث میں خرچ ہوئے جبکہ پچھلی اسمبلی میں یہ بحث پہلے سال میں نہیں ہوئی تھی۔واضح رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 54 کے تحت قومی اسمبلی کے لئے ایک پارلیمانی سال میں 90 کے بجائے 120 دن اجلاس ہونا ضروری ہے۔ رواں قومی اسمبلی پاکستان کی تاریخ کی 13ویں اسمبلی ہے جس نے اپنے پہلے پارلیمانی سال میں 11 اجلاس منعقد کئے جبکہ سیشن کے 131 دن مکمل کئے گئے۔پنجاب اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال بھی مکمل ہو گیا،33قوانین منظور کئے گئے،48قراردادیںمنظور کی گئیں،اس سال4ممبران نااہل،3کا نوٹیفکیشن کینسل ایکنے استعفیٰ دیا جبکہ ایک کی رکنیت معطل کی گئی۔اس پہلے پارلیمانی سال میںممبران کو148جبکہ اسمبلی ملازمین کو212روز کاٹی اے ڈی اے دیا گیا، اور اس مد میں صرف آلاؤنسز کی مد میں29کروڑ46لاکھ روپے دئے گئے،ہوسٹل میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اجلاسوں کے دوران20لاکھ روپے ممبران کی رہائش گاہوں کی مد میں پرائیویٹ طور پر خرچ کئے گئے، ٹنخواہوں کے علاوہ کل اخراجات35کروڑ70لاکھ روپے برداشت کرنا پڑے،اس دوران ڈپٹی سپیکر کی تیز رفتاری سے قانون سازی کا ریکارڈ بھی سامنے آیااپوزیشن کی طرف سے بھی اپنے تحفظات پر کھل کر ایوان کے اند ر احتجاج کیا گیا ۔ اس دوران پنجاب اسمبلی کے آٹھ اجلاس بلائے گئے،ان 8اجلاسوں میں حکومت کی طرف سے37بل متعارف کرائے گئے،کل 33 بل منظور کئے گئے جن میں قابل ذکر لوکل گرنمنٹ بل، نواز شریف ایگری کلچرل یونیورسٹی آف ملتان،خواجہ فرید یونیورسٹی آف رحیم یار خان بل قابل ذکر ہیں بھی شامل ہے4 بل متعلقہ قائمہ کمیٹیز کے سپرد ہیں۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اس سال پرائیویٹ صرف ایک ہی بل ایوان میں پیش کیا گیا یہ مانع کیف شیشہ کے حوالے سے تھا جسے ن لیگ کے رکن اسمبلی چوہدری شہباز نے پیش کیاتھا۔ ان 8اجلاس میں کل 100 دن اجلاس ہوا، اوران 8اجلاسوں کے آلاؤنسزممبران کو 148 ایام کے 15 کروڑ 38 لاکھ اسمبلی ملازمین کو 13 کروڑ 78 لاکھ روپے صرف آلاؤنسز ی مد میں دئے گئے،اجلاس کے دوران ممبران کی رہائش کے لئے ہوسٹلکاانر ظام نہ ہونے کی صورت میں پرائیویٹ ہوٹلز میں رہائش کی مد میں تقریباْ 20 لاکھ روپے ادا کئے گئے۔ پہلے پارلیمانی سال میں 33 تحاریک استحقاق کو قابل پذیرائی سمجھا گیا ان میں سے23کو کمیٹی کے سپرد کیا گیا، 157 قراردادیں قابل پذیرائی سمجھی گئیں 48 منظورت کی گئیں ، 1245 سوالوں 52 توجہ دلاؤ نوٹسز کے جوابات دئے گئے۔9مرتبہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اوان میں آئے،اس پارلیمانی سال کے دوران4ممبران اسمبلی افتخار احمد خان،خواجہ اسلام،سردار خان محمد خان اور سردار یر بادشاہ خان قیصرانی کو نااہل قراردیا گیا،3ممبران کرنل(ر) شجاعت احمد خان،ثمینہ خاور حیات اور شعیب شاہ کا الیکشن کمیشن کی طرف سے نوٹیفیکشن کینسل کیا گیا، ایک رکن اسمبلی جیدہ خالد نے استعفیٰ دیا اور ایک رکن اسمبلی راجہ شوکت عزیز کی رکنیت معطل جبکہ ن لیگ کے ایک رکن اسمبلی چوہدری طارق باجوہ جو کہ جنرل الیکشن میں جیتے تھے ابھی تک ان کا الیکشن کمیشن کی طرف سے بوجہ حکم امتناعی نوٹیفکیشن نہیں ہوسکا۔اس سال اجلاسوںکل17مرتبہ کورم کی نشاندہی کی گئی،5مرتبہ کورم کی وجہ سے اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔

اجلاسوں کے دوران خاص طور پر آخری اجلاس میں اپوزیشن کی طرف سے احتجاج کاپورا حق دیاگیا اوراس دوران اپوزیشن کی طرف سے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر بھی سپیکر کی جانب پھینکی گئیں، اور اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اپوزیشن کی ایوان میں باقاعدہ سیٹیاں بجائیں،اس دوران مقصود احمدملک بطور سیکرٹری اسمبلی ریٹائرڈ ہوئے جبکہ آفتاب احمد جوئیہ دوران اسمبلی اجلاس دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیے اور ان کی جگہ رائے ممتاز بابر کو بطور سیکرٹری اسمبلی تعینات کیا گیا۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ آج کا دن ان کی زندگی کا انتہائی پْرمسرت دن باعث اعزاز ہے، جمہوریت کے فروغ میں پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرتی ہے، پارلیمانی سال پوراہونے پر وہ اراکین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ہم نیتجربات اور مشاہدات سے سبق سیکھا ہے کہ جمہوریت محاز آرائی،کشید گی ،تنقید برائے تنقید اور انتقام کا نام نہیں، جمہوریت اداروں کی مضبوطی کا نام ہے، جمہوریت کی روح مفاہمت، درگزراور باہمی تعاون سے عبارت ہے ، گزشتہ ایک برس کی کارکردگی دیکھی جائے تو بجا طور پر خوش گوار منظر دکھائی دیتا ہے جس کے لئے ارکان پارلیمان داد و تحسین کے مستحق ہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ معاشی استحکام کے بغیر ترقی ممکن نہیں، اس سلسلے میں موجودہ حکومت کی کوششیں نتیجہ خیز دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اوربھارت کی نئی سیاسی قیادت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔

India

India

وزیر اعظم نواز شریف کے بھارت کے دورے کی پوری دنیا متعرف ہے،انکا دورہ بھارت تاریخی رہا، ہم بھارت کیساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ کیلیے ہر وقت تیار ہیں، لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر ہونا چاہیئے۔ ایران کیساتھ صدیوں پرانے تعلقات مستحکم بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ضرور پورا ہو گا۔ عالمی برادری جانتی ہے کہ پاک چین دوستی صرف روایتی سفارتی بندھن نہیں بلکہ دونوں ملک ایک جان اور دو قالب ہیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیتناظر میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

تحریر: اسرار ملک