پاکستان میں 06ـ2004 تک متعین رہنے والے ڈنمارک کے سفیر بینٹ ویگوتسکی نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان میں حکومت کا نہ تو سرحدوں پر کنٹرول ہے اور نہ ہی سرحدی علاقوں یا شہروں میں اس کا عمل دخل ہے۔ عوام کی بہبود کے لئے کام کرنے والا کوئی ادارہ اپنے فرائض انجام نہیں دے رہا۔ آپ کو اپنا جائز مسئلہ حل کروانے کے لئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ سیاستدان اس بدعنوانی میں برابر کے شریک ہیں اس لئے سرکاری عمال کسی فکر کے بغیر من مانی کرتے ہیں۔
پاکستان میں ڈنمارک کے ایک سابق سفیر نے پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ اس دوران ملک کی متعدد سیاسی قوتیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے اور نظام تبدیل کرنے کا عزم کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان اور اس میں بسنے والے عوام کا مستقبل مخدوش ہے۔ملک کے دانشور اور صحافی یہ لکھنے لگے ہیں کہ اب یہ ملک رہنے کے قابل نہیں ہے۔ متعدد نامور لوگ خاموشی سے ملک چھوڑ چکے ہیں۔ جو ملک میں موجود ہیں ، وہ باہر جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے یہ خبر آ چکی ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ افسروں میں سے ہر پانچواں افسر دوہری شہریت کا حامل ہے حالانکہ قواعد و ضوابط کے مطابق وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔
اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ملک کے شہری اپنے ہی وطن کی سالمیت اور مستقبل پر یقین کھو چکے ہیں۔ وہ بگڑے ہوئے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کی بجائے وہاں سے فرار کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کی مکمل سرکوبی تک فوجی کارروائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ پاک فوج مشکل حالات میں اپنے ہی علاقوں میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ اس مرحلہ پر فوج کی مکمل تائید کے علاوہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کو متعدد کام کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جا کر پارلیمنٹ کے اراکین کو فوجی ایکشن کے بارے میں اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ دونوں ایوانوں میں وزیراعظم نے لکھی ہوئی ایک ہی تقریر پڑھ کر سنائی۔ اس طرح وہ یہ تاثر مستحکم کرنے کا سبب بنے ہیں کہ ان کا دل فوجی ایکشن کی حمایت نہیں کر رہا۔
پاک افواج ایک ایسے دشمن کے خلاف برسر پیکار ہیں ، جو اسی ملک کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں یا وہاں پر مقیم رہے ہیں مگر انہوں نے قومی وقار اور شہری زندگیوں کو نشانہ بنانے کا عزم کیا ہوا تھا۔ اس مرحلہ پر حکومت اور سیاسی جماعتوں کو اس فوجی ایکشن کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے۔سینیٹ میں وزیراعظم کے خطاب کے بعد اپوزیشن ارکان نے فوجی کارروائی کی حمایت کی لیکن سکیورٹی پالیسی اور دیگر معاملات کو لے کر حکومت پر تنقید بھی کی گئی۔ ہمارے خیال میں اس وقت ایسے پالیسی معاملات پر تنقید کرنے کی بجائے اب ملک میں ایک ہمہ گیر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
صرف اسی صورت میں عام لوگوں تک یہ پیغام پہنچ سکے گا کہ اس قوم کی قیادت اس عفریت کے خلاف جنگ میں مکمل طور سے متفق ہے، جس کے ہاتھوں 50 ہزار سے زائد شہری اور فوجی گزشتہ ایک دہائی کے دوران جاں بحق ہو چکے ہیں۔اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف فوری طور پر قوم سے خطاب کریں اور اس فوجی آپریشن کے خدوخال ، مقاصد اور ضرورت کے بارے میں عام لوگوں کے دلوں میں ابھرنے والے شبہات کو ختم کریں۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو بھی خود کو محض لفظی حمایت تک محدود نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس اہم قومی سوال پر رائے عامہ کو مطمئن کرنے کے لئے حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے۔ اس بارے میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ پاک فوج اس وقت اس ملک اور قوم کے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
Afghanistan
اس میں حاصل ہونے والی کامیابی سب کی فتح ہو گی اور اس ایکشن سے قائم ہونے والے امن سے اس ملک کا ہر شہری استفادہ کرے گا۔ اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ملک بھر کے شہریوں کو اس جدوجہد میں حصہ دار بنانے کے لئے اقدام کئے جائیں۔ افغانستان کی حکومت پر بھی یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے طور پر افغانستان کی طرف بھاگنے والے انتہا پسندوں پر کڑی نظر رکھے۔ افواج پاکستان نے پاک افغان بارڈر کو سیل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس حوالے سے افغان حکومت کو بھی اپنا رول ادا کرنا ہو گا۔پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اسلام آباد میں پاک فوج کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے۔
ضرب عضب ” کا مقصد تمام دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کو ختم کرنا ہے تا کہ ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلائی جائے۔ اب حکومت پر لازم ہے کہ وہ یہ اہداف حاصل ہونے سے پہلے کسی بھی عذر کی بنا پر فوجی آپریشن ختم کرنے یا محدود کرنے کی بات نہ کرے بلکہ فوج کو اس اہم مشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے پوری آزادی فراہم کرے۔پاک فوج کا یہ مشن صرف پاکستانی عوام کی حفاظت کا مقصد ہی پورا نہیں کرے گا بلکہ اس فوجی کارروائی میں ایسے تمام اڈوں اور ٹھکانوں کا خاتمہ بھی ہو گا جو دہشت گردی اور انتہا پسندی برآمد کرنے کا سبب بنے ہوئے تھے۔
یہاں پر قائم تربیت گاہوں سے نکلنے والے گمراہ نوجوان شام اور عراق میں بھی جنگ آزمائی کے لئے روانہ کئے گئے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی اور تیاریاں بھی ان ہی علاقوں اور یہاں قائم مراکز میں ہوتی رہی ہیں۔ اب یہ بے حد ضروری ہے کہ ایسے سارے سماج دشمن عناصر سے پاک سرزمین کو حقیقی معنوں میں پاک کر دیا جائے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو بھی پاک فوج کے اس اہم مشن کی اہمیت اور قدر و قیمت کو سمجھنا چاہئے۔
نیٹو افواج کے انخلاء سے قبل پاک فوج کا یہ اہم مشن دراصل افغانستان میں پائیدار امن اور جمہوریت کے فروغ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس لئے اب بداعتمادی اور الزام تراشی کی فضا کو ختم کرتے ہوئے نیٹو ممالک کو پاکستانی افواج اور حکومت کا سفارتی اور فوجی طور پر ساتھ دینا چاہئے۔ صرف اسی طرح افغانستان اور اس سے ملحقہ خطوں کو شدت پسندوں سے مکمل طور پر پاک کیا جا سکتا ہے۔
یہی حال سیاسی رہنماں کا بھی ہے۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے ملک کے کئی درجن سیاستدانوں کو بیرون ملک اپنی املاک ظاہر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس حکمنامہ پر عملدرآمد کے بارے میں تو کچھ کہنا ممکن نہیں ہے لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے سیاستدان جس قدر جوش و خروش سے ملک میں برسر اقتدار آنے کے لئے کوششیں کرتے ہیں، اتنی ہی یا اس سے بھی زیادہ جدوجہد وہ بیرون ملک اپنے کاروبار جمانے اور آشیانے بسانے میں صرف کرتے ہیں۔ اس وقت نہ صرف صف اول کے سیاست دان بلکہ دوسری اور تیسری صف کے بیشتر سیاستدان بھی ملک کے باہر کسی نہ کسی طرح اپنے پاوں جمائے ہوئے ہیں۔
طاہر القادری کی قیادت میں ایک انقلاب کے دعووں کے علاوہ تحریک انصاف اپنے طور پر ملک بھر میں بڑے بڑے جلسوں کے ذریعے مہم جوئی کر رہی ہے۔ بظاہر یہ پارٹی خیبر پختونخوا میں حکومت قائم کئے ہوئے اور قومی اسمبلی میں بھی اس کے 30 سے زائد ارکان ہیں۔ لیکن اس کی ساری کوششیں لوگوں کو اکسانے اور جلسوں میں لا کر موجودہ حکومت کے خلاف غم و غصہ کو بڑھانے میں صرف ہو رہی ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ یہ جدوجہد انتخابی نظام کی بہتری کے لئے کی جا رہی ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ صرف 4 حلقوں میں ووٹوں کی ازسر نو گنتی کروا لی جائے۔ لیکن شاید وہ واقعی یہ سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں کہ ان کی جدوجہد صرف جمہوریت کی ناکامی پر منتج ہو گی۔ اس طرح پاکستان کے باقی رہنے اور مسائل پر قابو پانے کی آخری امید بھی ختم ہو سکتی ہے۔
کراچی سانحہ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت اگر پوری طرح بے خبر نہیں تو بے بس ضرور ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ اس میں شامل لوگ خود ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وزیراعظم پورے برصغیر میں غربت کے خاتمہ اور امن کے قیام کی بڑی بڑی باتیں کرنے کے باوجود ہر وقت اس خوف میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو کیوں کر فوجی بغاوت سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس خوف کے باوجود ان میں اہم سیاسی فیصلے کرنے کی ہمت مفقود ہے۔ان حالات میں ادارے، سیاست دان اور حکومتیں ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ ان میں کسی کو یہ احساس نہیں ہے کہ ان کی ان حرکتوں سے وہ اسی ملک کو داو پر لگا رہے ہیں۔
جس پر حکمرانی کے خواب میں وہ ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے صرف فوج اور حکومت کو ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں، عدالتوں اور میڈیا کو بھی اپنے طرز عمل پر غور کرنا ہو گا۔ سب کو اپنی اپنی انا پر کچھ سمجھوتہ کرتے ہوئے اس ملک کی بہتری اور اس میں آباد بے بس عوام کی بہبود کے نقطہ نظر سے سوچنا ہو گا ۔ جن کے بل بوتے پر ان کی یہ شان قائم ہے۔