اس کرہِ ارض پر انسان کی آمد کے ساتھ ہی بہت سے مختلف سیاسی نظاموں کا تجربہ کیا گیا جن کی غرض و غا ئت فقط اتنی تھی کہ انسان باہم مل جل کر رہیں اور اپنے لئے بہتر ضابطوں کاانتخا ب کر یں۔قبائلی نظام سے شروع ہونے والا سلسلہ شہنشائیت، خلافت ،ملوکیت،سوشلزم کیمونزم اور جمہوریت کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا ۔مہم جوئی،اسلحے اور تلوار کے زور پر حکومتوں کا قیام بھی کئی صدیوں تک انسان کا چلن رہا۔سپہ سالاروں اور جرنیلوں نے اپنی عسکری قوت سے د نیا کو اپنا مطیع بنایا اور اپنی حاکمیت کاجھندا گاڑ ے رکھا۔اس میں کسی خاص مذہب یا نسل یا قبیلے کا ذکر نہیں ہے بلکہ مہم جوئی پچھلی کئی صدیوں میں ساری دنیا کا تھی۔
جسے قبولیت کی سند ھاصل تھی۔جس کے پاس قوت تھی حکمرانی کا اختیار بھی اسی کے پاس تھا ۔شمشیر ابنِ شمشیر کا اصول ہر جگہ کارفرما نظر آتا تھا اور دنیا شہ زوروں کے سامنے سر نگوں تھی اور حکمرانی کا حق صرف انہی کو حا صل تھا۔تاریخِ عالم میں اگر شمشیر زنی کا ورق پھاڑ دیا جائے توانسانی تاریخ تہی دامنی کا شکار ہو جائے کیونکہ دنیا کے سارے نامور لوگ کسی نہ کسی انداز میں قوتِ شمشیر سے ہی ابھرے تھے ۔انقلابِ فرانس کے بعد بیسویں صدی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں جمہوری قدروں نے اپنا تشخص قائم کیا اور دنیا میں ووٹ کی قوت کو ایک ایسی نئی فکر سے روشناس کروایا جس میں انھیں حکمرانوں کو چننے کا اختیار تفویض ہوا۔یہ ایک بالکل نئی فکر تھی جسے سب نے پذیرائی سے نوازا کیونکہ اس میں پر امن انتقالِ اقتدار کا جوہر پوشیدہ ہے۔
عوامی رائے کا احترام مقدم ہے ۔جمہوری قدروں کو پوری دنیا نے ایک ایسی جنتِ گم گشتہ سے موسوم کیا جس میں انھیں اپنے خوابوں کی تعبیر مل سکتی ہے اور وہ اپنا اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں ۔انسان بنیادی طور پر امن پسند ہے اور وہ خو ن خرابے اور قتل وغا رت گری کو پسند نہیں کرتا۔وہ اس دھرتی میں اپنے پیاروں کے ساتھ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے اور کوئی ایسا نظام جو انھیں امن کی ضمانت دیتا ہے وہ اس پر لبیک کہتے ہیں ۔ان کی نظر میں جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں امن کی روح کارفرما ہے لہذا جمہوریت کے تصور نے ہر سو اپنا سکہ جما لیا اور وہ تمام ممالک جہاں پر عوامی رائے شجرِ ممنوعہ کا درجہ رکھتی تھی اس نے بھی جمہوریت کو گلے لگا لیا۔،۔
میری ذاتی رائے کہ دنیا کا کوئی بھی نظام چاہے وہ جتنا بھی خوبصور ت ہو اس میں اگر جوابدہی کا تصور نہیں ہے تو وہ نظام کسی بھی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا۔حضرت علی کا یہ قول کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی اس کی بہترین مثال ہے۔سوال کسی بھی نظام کی افادیت کا نہیں بلکہ اس سوچ کا ہے جو کسی بھی نظام کی روح ہوتی ہے اور اس نظام کو رائج کرنے میں مضبوط بنیادیں فراہم کرتی ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد اس نظام سے ہی ممکن ہے جو عدل و ا نصا ف پر قائم ہوتا ہے اور جس میں قانون کا اطلاق بلا رنگ و نسل اور بلا تفریق ہر ایک پر اپنی پوری قوت کے ساتھ نافذ ہو جاتا ہے۔ایسے نظام میں امیر و غریب ، کمزو رو طاقت ور میں فرق کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جاتا بلکہ اس میں ہر انسان کو اس کے جرم کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔
جزا و سزا کا یہی قانون قوموں کو حیاتِ نو عطا کرتا ہے اور وہ شاہراہِ ترقی پر اس تیزی سے دوڑتی ہیں کہ ہم عصر اقوام ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو جاتی ہیں ۔ سوشلزم میں اگر یہ روح موجود ہو گی تو وہ کامیابیوں سے ہمکنار ہو گا،ملوکیت میں بھی اگر عدل و ا نصاف کا دور دورہ ہو گا تو وہ بھی آ ئیہ رحمت تصور ہو گا۔ چین کا سوشلزم ہمارے سامنے ہے جو اس وقت پوری دنیا میں ترقی کی علامت بنا ہوا ہے ۔ کیا اس کے ہاں جمہوریت ہے؟ اگر جوان نفی میں ہے تو پھر وہ کونسا ایسا گوہر ہے جس پر ان کی ترقی کی پر شکوہ عمارت قائم ہے؟
اس سوال کا سادہ ترین جواب یہ ہے کہ ان کے ہاں قانون کی حکمرانی ہے اور اس میں جرم کی سزا کسی انسان کے معاشرتی رتبے کو مدِ نظر رکھ کر نہیں دی جاتی بلکہ جرم کی نوعیت کے مطابق دی جاتی ہے ۔آقائے دوجہاں ۖکی حدیث ہے ( کہ تم سے پہلی قومیں اسی لئے تباہ وبرباد ہوئیں کہ جب ان کا کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تھا تو وہ چھوٹ جاتا تھا اور جب کوئی کمزور آدمی جرم کرتا تھا تو اس پر قانون کا اطلاق کر دیا جاتا تھا)لہذا ثا بت ہوا کہ قوموں کی حیات و ممات کا دارو مدار عدل و انصاف کے اس قانون میں پوشیدہ ہے جسے کوئی بھی قوم اختیار کر لیتی ہے۔
یورپ نے جوابدہی کا یہ نظام اپنے ہاں رائج کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے یورپ ترقی کی منازل طے کرنے لگا۔ مجھے ان کی معاشرتی اور اخلاقی رویوں پر شدید تحفطات ہیں لیکن ان کے جوابدہی کے سنہرے اصول نے ان کی معاشرتی کمزوریوں کو وقتی طور پر ڈ ھانپ رکھا ہے۔ان اخلاق سوز قوانین کی موجودگی میں یورپی اقوام کی ہلاکت یقینی ہے لیکن جمہوری قدروں پر یقین او جوابدہی کے تصور نے انھیں فی الحال اس ہلاکت سے محفوظ بنا رکھا ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ انھیں ان رویوں سے ایک دن تباہ ہو کر رہنا ہے کیونکہ تاریخ کا یہ دوٹوک فیصلہ ہے کہ اس طرح کی روش کا نتیجہ تباہی ہی ہوا کرتا ہے۔جسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔
European Countries
یورپی ممالک میں ایک روائت ہے کہ ان کے ہاں جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو اس شعبہ کا وزیر مستعفی ہو جاتا ہے ۔اگر کسی مسئلے میں سربراہِ مملکت ملوث پایا جاتا ہے تو وہ بھی مستعفی ہو جاتاہے تا کہ تفتیشی عمل شفاف انداز میں آگے بڑھے۔جماعتوں کے اندر بھی یہ روائت بڑی قوی ہے کہ اگر کوئی وزیرِ اعظم عوامی امنگوں کے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو اسے پارٹی ممبران مستعفی ہونے پر مجبور کرتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے ان کی جمہوریت پٹری سے نہیں اترتی لیکن ہمارے ہاں اگر ماڈل ٹا ئون میں ١٤ افراد کی ہلا کتوں پر حکمرانوں سے استعفی طلب کیا جاتا ہے تو وہ شور ڈ ال دیتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ در پیش ہوجا ئیگا ۔ان کی نظر میں جمہوریت ان کے ذاتی اقتدار کا نام ہوتاہے۔
اقتدار قائم ہے تو جمہوریت قائم ہے اور اگر اقتدار قائم نہیں تو جمہوریت خطروں کی زد میںہے۔انگلستان کی وزیرِ اعظم مار گریٹ تھیچر کے خلاف ان کے بعض اقدامات کی وجہ سے جماعت کے اندر سے بغا وت ہوئی اور انھیں مستعفی ہونا پڑا ۔یہی حا ل وزیرِ اعظم ٹو نی بلئیر کے ساتھ بھی ہوا۔انھیں عراق میں کیمیکل ہتھیا روں کے معا ملے میں جھوٹ بولنے اور عراق پر حملے کی وجہ سے پارٹی کے اندر سے بغاو ت کا سامنا کرنا پڑا ور مستعفی ہونا پڑا ۔امریکی صدر رچرڈ ڈ نکسن سے کون واقف نہیں ہے؟ انھوں نے ١٩٧٢ کے صدارتی انتخا بات میں دھاندلی کا منصوبہ بنایا اور غیر قانونی طریقے سے مخالف جماعت کے راز حا صل کرنے کی کوشش کی۔ان کے اس منصوبے کو واٹر گیٹ سکینڈل کانام دیا گیاتھا۔ان کے خلاف انکوائری ہوئی اور انھیں صدارت سے مستعفی ہونا پڑا۔
دنیا کی سپر پاور کے صدر کو مستعفی ہونا پڑا کیونکہ اس نے انتخا بات میں دھاندلی کا ارتکاب کیا تھا۔ان کے نائب صدر جیرالڈ فورڈ عبوری دور کیلئے صدارت پر فائز ہو گئے ۔ ١٩٧٦ میں صدا رتی انتخا بات ہوئے تومخا لف جماعت کے امیدوار جمی کارٹر صدارتی انتخابات جیت گئے ۔کسی نے یہ نہیں کہا کہ میرے مستعفی ہونے سے جمہوریت خطرے میں پڑ جائیگی۔آئین مستعفی ہونے کی اجازت دیتا ہے لہذا جب بھی بحرا ن شید یدہو جائے تو پھر مستعفی ہونے سے ہی ٹلتا ہے۔ ١٩٧٧ کی قومی اتحاد کی تحریک میں اس بات پر سمجھوتا ہوا تھا کہ نئے عبوری سیٹ اپ کی سربراہی میں دوبارہ انتخابات منعقد ہوں گئے ۔ اگر ذولفقار علی بھٹو اس بات پر اڑجاتے کہ میں نے تو دھاندلی نہیں کروائی لہذا نئے انتخابات کا سوال ہی نہیں اٹھتااور اس طرح عبوری سیٹ اپ پر کبھی معاہدہ کبھی بھی طے نہ پاتا، لیکن ذولفقار علی بھٹو نے بحران کو حل کرنے کیلئے عوامی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ عوامی عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں ہی ہوگا۔
لیکن پیشتر اس کے کہ یہ معاہدہ رو بعمل ہوتا جنرل ضیا ا لحق نے شب خو ن مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور یوں یہ معاہدہ کبھی بھی نافذ نہ ہو سکا۔ملک اس وقت بھی شدیدبحران کی زد میں ہے لیکن پارلیمنٹ ممبران میاں محمد نواز شریف کو استعفی نہ دینے پر اکسا رہے ہیں کیونکہ ان کے اپنے مفادات وابستہ ہیں جو انھیں اس راہ پر آنے سے روک رہے ہیں ۔کوئی جتنا جی چاہے زور لگا لے اس بحران کا حل صرف عوام کی عدالت کے پاس ہے لہذا میاں محمد نواز شریف نئے انتخا بات کا اعلان کر کے گیند عوامی عدالت کے کورٹ میں پھینک دیں۔۔