پاکستان میں 1947ء سے 2013ء تک انقلاب کا سفر

Inflation

Inflation

پاکستان میں مہنگائی، بیروزگاری،انسانی حقوق جسے مسائل کی ماری 20 کروڑ پاکستانی قوم کی قسمت کا فیصلہ چندخاندانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اوران خاندانوں کا پاکستان کے سرکاری غیرسرکاری وسائل قبضہ بھی ہے۔ بتایا جاتا ہے۔ کہ 1947 سے لے کر 1948 تک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ابھارت نے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔

اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ 1948ء میں جناح صاحب کی اچانک وفات ہو گئی۔ ان کے بعد حکومت لیاقت علی خان کے ہاتھ میں آئی۔ 1951 میں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ 1951ء سے 1958ء تک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔ 1956ء میں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔

اس کے با وجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا۔پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیم جنرل ایوب کے دور آمریت میں بنائے گے۔ ایوب دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکن مشرقی پاکستان دور ہوتا گیا۔ 1963 میں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا۔ مگر مشرقی پاکستان کے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ ایوب خان عوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علیحدہ تو ہو گئے لیکن جاتے جاتے انہوں نے حکومت اپنے فوجی پیش رو جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دی۔ 1971 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود فوجی حکمران یحییٰ خان نے اقتدار کی منتقلی کی بجائیے مشرقی پاکستان میں فوجی اپریشن کو ترجیح دی۔

بھارت نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکار دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہوگیا اور مشرقی پاکستان ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔1972 سے لے کر 1977 تک پاکستان میں پی پی پی کی حکومت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم رہے۔ اس دور میں وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اس دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں 1977 میں دوبارہ مارشل لاء لگ گیا۔ 1977 تا 1988 مارشل لاء کا تھا۔

اس دور میں پاکستان کے حکمران جنرل ضیا الحق تھے۔ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے 1988 میں ضیاء الحق نے برطرف کر دیاـ 1988ء میں صدر مملکت کا طیارہ گر گیا اور ضیاء الحق کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سے جمہوریت کا آغاز ہو گیا۔1988 میں انتخابات ہوئے اور بینظیر بھٹو کی قیادت میں پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1990 میں نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ 1993 میں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔نئے صدر فاروق لغاری تھے۔

پھر انتخابات 1993 میں ہوئے اور ان میں دوبارہ پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ صدر فاروق احمد لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔ 1997 میں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1999 میں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

صدر مملکت پرویز مشرف بنے اور 2001 میں ہونے والے انتخابات کے بعد وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بنے۔ 2004 میں وقت کے جنرل پرویزمشرف نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا . مختصر عرصہ کے لیے چوہدری شجاعت حسین نے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سرانجام دیں اور شوکت عزیز کے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔ شوکت عزیز قومی اسمبلی کی مدت 15 نومبر 2007ء کو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16 نومبر 2007ء کو سینٹ کے چیئرمین میاں محمد سومرو نے عبوری وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔

فروری 2008ء میں الیکشن کے بعد پی پی پی پی نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کیا جنہوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون 2012 کو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف نئے وزیر اعظم بنے۔ مئی 2013 میں عام انتحابات ہوئے جس میں پاکستان مسلم لیگ ن ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔نوازشریف پاکستان کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔

پاکستان میں سیاستدانوں ،بیوروکریسی اور دیگر بااثرطبقات کی کرپشن کو ہمارے قومی مزاج کا حصہ سمجھ کرقبول کرلیا گیاہے۔یہی وجہ ہے کہ اب جتنی چاہے کرپشن ،بدعنوانیاں اور بے ضابطگیاں کرلی جائے ،کرنے والے ڈرتے نہیں اور اس کا نوٹس لینے والوں پر جوں کی نہیں رینگتی۔کرپشن اور بدعنوانی کے حمام میں نیچے سے لے کر اوپر تک سب ننگے ہوچکے ہیں۔

صرف پاکستان کے ایک سیاسی خاندان کا ذکر کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ پاکستانی قوم کے رہنمائوں اورمحب وطن سیاستدانوں کا اصلی چہرہ کیاہے۔ 1980ء سے لیکر 2013ء تک مختلف ذرائع سے شائع ہونے خبروں اور کتابوں سے پتہ چلتا ہے۔ صرف ایک خاندان نے پاکستان قوم کے 4 سو ارب روپے پرڈاکے ڈالے ہیں۔ اورابھی بھی اقتدارکی کوشش جاری ہیں۔شائع ہونے والی رپورٹ کچھ منظرعام سے عائب کردی گئیں اور کچھ پرمارکیٹ میں فروخت ہونے پر پابندی لگادی گئی۔یہ حقیقت ہے اور بزرگوں کے بقول سچ کبھی چھوپتانہیں۔

بحوالہ(2009 ء میں شائع ہونے والی رائے اسد خان کھرل صاحب کتاب”چورہدیوں کی چوریاں”انٹیلی جنس پبلشرز25/Cلوئرمال لاہور نے پرنٹ کروایا) چورہدی خاندان پر ہر دورمیں کرپشن، بدعنوانیوں، ناجائز اختیارت کے استعمال، قرضے ہڑپ کرنے ،ٹیکس چوری اور دیگر مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن عوام اس بات پر حیران ہیں کہ اتنے الزامات کے باجودوہ اب تک باعزت آزادکیوں پھررہے ہیں؟گزشتہ دور حکومت میں ان پر سب سے بھیانک الزام لگاوہ عمران فاروق کو ملک سے فرارکروانے کا تھا۔ اس کے پیچھے کیا محرکات تھے یہ بات بہت لمبی کہانی ہے۔

چوہدری خاندان پر برسوں پہلے لگنے والے الزامات آج بھی جواب طلب ہیں کہ وہ مہاجر ہے یا مقامی؟ اگرمقامی ہیں توپاکستان بننے کے بعد اس نے مہاجرین کو لاہور،گجرات اور سیالکوٹ اور کن کن متروکہ عمارتوں پر قبضہ کیااور یہ قبضہ کب چھوڑا؟یہ صورت حال بھی وضاحت طلب ہے کہ 1980ء سے پہلے چوہدری خاندان کا انکم ٹیکس کے محکمے میں کوئی پتہ نہیں تھا جبکہ 1970ء سے پہلے تعلیم سے فراغت کے بعد وہ کروڑوں روپے کی جائیداد کے مالک اورمتعددلمیٹڈ کمپنیوں کے منجنگ ڈائریکر اور ڈائریکٹرزتھے۔ صرف 1980ء میں ان کے نام سے متعلق انکم ٹیکس سے محکمے کو علم ہوا۔1970ء سے لے 1980ء تک اور بعد ازاں کروڑوں روپے ٹیکس چوری اور دیگر ذرائع کی مدمیں ہڑپ کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔

بحوالہ (2003 مئی کوشائع ہونے والی مقبول ارشد صاحب کی کتاب ”سیاسی لیٹرے”جس سیونتھ سکائی پبلی کیشنر (لاہور)نے پرنٹ کیا) کیااس بات پر یقین کریں گے کہ قائداعظم کی مسلم لیگ کے حقیقی وارث سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالہٰی نے سیاسی مفادات حاصل کرنے کیلئے اعلیٰ افسروں کی ملی بھگت سے 500سے زیادمن پسندریٹائرڈ افسروں کو غیرقانونی طورپربھرتی کیا اور انہیں محکمہ مال،پولیس،تعلیم،بلدیات،اینٹی کرپشن اور دیگر انتظامی محکموں تعینات کردیا۔جی ہاں ایساہی ہواہے اور یہ سب کچھ چوہدری پرویزالہٰی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ہواہے۔

اس پہلے کے ان افرادکے بارے میں کچھ بتایاجائے اور اہم باتیں قارئین کو بتادی جائیں۔یہ بے ضابطگیاں کبھی سامنے نہ آتیں اگر مسلم لیگ(ن)کے راہنما صدیق الفاروق اس بارے میں حقائق سامنے نہ لاتے۔صدیق الفاروق کے مطابق محکمہ مال کے جن من پسند افسروں کو ملازمت میں غیر قانونی توسیع دی گئی ہے یا انہیں غیرقانونی طوررپردوبارہ بھرتی کیا گیا ہے ان میں بعض پراپرٹی کے کاروباربالخصوص قبضہ شدہ زمینوں خیریدوفروخت کے ذریع اربوں روپے ماہانہ بٹوررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتدار کی جنگ لڑانے والاانسانی حقوق کا مطالعہ کرلیناچاہئے۔ورنہ انقلاب توآئے کا موسم برسات کی طرح جوسب کو بہالے جائے گا۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر:غلام مرتضیٰ باجوہ