اسلام آباد (جیوڈیسک) پاناما کیس میں جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دئیے کہ کوئی فریق مکمل سچ سامنے نہیں لا رہا، صورتحال عجیب ہے، اصل معلومات تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟ہم اس معاملے کو کیسے سمیٹیں؟ مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا؟ مورگیج دستاویزات پر دستخط کس نے اور کس کے کہنے پر کیے؟ہم اس دلدل میں مزید دھنستے جا رہے ہیں۔
پانامالیکس کی تحقیقات سے متعلق آئینی درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت 5رکنی لارجر بنچ نے کی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا 26 سال تک یہ پیسہ بڑھتا رہا؟ کیا اس سرمایہ کاری کا دستاویزی ثبوت موجود ہے؟۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ریکارڈ نہیں رکھا گیا، ریکارڈ رکھا گیا ہوگا مگر اس وقت دستیاب نہیں ہے ،1999 میں شریف فیملی کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا تھا۔ سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے نمائندے نے حسین نواز کے نمائندے کے حوالے کیے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا محمد بن جاسم سے کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس حسین نواز کو کیسے ملے؟دوسرے قطری خط میں لکھا ہے یہ سرٹیفکیٹ ڈیلیور کیے گئے ، نہیں لکھا گیا کہ سرٹیفکیٹ حسین نواز کو دئیے، اب تو ہمیں خطوط زبانی یاد ہو گئے ہیں۔۔
سلمان اکرم راجا نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہاکہ منروا کی خدمات جنوری 2006کے بعد حاصل کی گئیں،جولائی 2006 میں شیئرز منسوخ کر کے منروا کے نام پر جاری ہوئے۔2014 میں شیئرز ٹرسٹی سروسز کو منتقل ہو گئے۔شیئرز کی منتقلی حسین نواز کی ہدایت پر کی گئی، سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہی مالکان کا پتہ ہوتا ہے۔
جسٹس گلزاراحمد نے سوال کیا کہ کہ منروا سے پہلے کون سروسز فراہم کرتا تھا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ رحمان ملک کی رپورٹ کے مطابق کوئی دوسری کمپنی یہ سروسز فراہم کرتی تھی۔ 2014میں منروا کی سروسز ختم کر دی گئی تھیں، اب یہ منروا کی صوابدید ہے کہ وہ کیا ریکارڈ دیتی ہے،کوشش کروں گا کہ زیادہ سے زیادہ ریکارڈ دے سکوں۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ایک نہ ایک دن تو ریکارڈ سامنے آنا ہی ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ حسین نواز سے کہوں گا کہ منروا سے 2006 کا ریکارڈ حاصل کریں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا؟ صورتحال عجیب ہے، اصل معلومات تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟ درخواست گزار نے دستاویزات دینے سے معذوری ظاہر کر دی ہے، آپ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے،ہم اس معاملے کو کیسے سمیٹیں؟
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ٹرائل ہو رہا ہے نہ تحقیقات کہ تفتیشی افسر دستاویزات کی تصدیق کرا کے لائے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ تمام دستاویزات حسین نواز ہی فراہم کر سکتے ہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جو ریکارڈ دستیاب ہے عدالت کو فراہم کر دیا ہے،مزید بھی جو کچھ ممکن ہوا فراہم کریں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مورگیج کی دستاویزات پر دستخط کس نے اور کس کے کہنے پر کیے؟
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میرے خیال میں حسین نواز یا مریم نواز نے ہدایات دی ہوں گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم اس دلدل میں مزید دھنستے جا رہے ہیں، نئے سے نئے مفروضے سامنے آتے جا رہے ہیں،بدقسمتی سے ہم سوال زیادہ پوچھ رہے ہیں۔کوئی فریق بھی مکمل سچ سامنے نہیں لا رہا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا تاثر دیا جا رہا ہے کہ عدالت سے سب کچھ چھپایا گیا،میاں شریف اور شیخ جاسم کے تعلقات کو نکالیں تو صرف دو دستاویزات عدالت کے سامنے نہیں۔
دوسری جانب حسین اور حسن نواز کے وکیل نے 8 عدالتی سوالوں کا جواب جمع کرادیا جس میںکہا گیا کہ موکل کی جمع کرائی گئی دستاویزات کیخلاف کو ئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا، مزید دستاویز فراہم کرنا ذمہ داری نہیں۔ کیا یہ عدالت تفتیش طلب معاملے کی تفتیش کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔کیا عدالت کسی فرد یا افراد کو ٹرائل کے بغیر سزا دے سکتی ہے۔کیا یہ عدالت نیب آرڈیننس 1999 کے تحت کرپشن کےمقدمے کا ٹرائل کرسکتی ہے۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ کیا عدالت بغیر ثبوت فراہم کیے تفتیش طلب معاملے میں کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے۔کیا یہ عدالت شریف فیملی یا وزیراعظم کی گزشتہ 45 سال سے ہونے والی مبینہ بے ضابطگی کی انکوائری کا حکم دے سکتی ہے، کیا سپریم کورٹ میں ٹرائل کرکے کسی فرد کو اپیل کے حق سے محروم رکھ سکتی ہے۔
عدالت نے سلمان اکرم راجا کو کل تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔