تحریر : انجنیئر افتخار چودھری پوری گلی میں سرفراز بٹ کے علاوہ میں جماعت کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ گلی میں تین جھنڈے ایک سرفراز بٹ کی چھت پر دوسرا اس کے کزن اور تیسرا میرے گھر کے اوپر باقی سارے بھٹو کے۔ لوگوں نے بچوں کے نام بھٹو پر رکھ دئے جوان انصاری کہلانے کی بجائے بھٹو کہلوائے ۔بھٹو نے غریب کو امید دلائی تھی ایک ولولہ دیا تھا کہا تھا کہ میں آپ کو روٹی کپڑا اور مکان دوں گا۔ میرے ایک ماموں تھے اللہ غریق رحمت کرے بچے ان کی آمد پر چڑھ دوڑتے تھے وہ بچوں کے لئے جیب میں ٹافیاں رکھتے تھے انہوں نے کبھی نہیں کہا میں جب پیسے والا ہوں گا تو آپ کو پاچی کی چاکلیٹ کھلائوں گا وہ گڑ کی ڈھلی سے بچوں کو خوش کر دیتے تھے یقین کیجئے ہم لوگوں کے مسائل کی بات تو کرتے ہیں لیکن انہیں کوئی گڑ کی ڈھلی نہیں دیتے ۔میرا ایک نوکر ہے جب وہ مجھے خوش کرتا ہے میں اسے سو روپیہ دیتا ہوں۔یقین کیجئے میں کوئی بڑا ٹیکنیکل آدمی نہیں ہوں پرسوں مسٹر جسٹن لی کا فون تھا کہہ رہے تھے کہ مسٹر افتخار تم نے ہنڈائی سعودیہ کو کیسے کامیاب بنایا جو اب دھڑام سے نیچے گئی ہے۔سچ پوچھیں میں نے مانوے جبارے والا کام کیا میں نے وعدے نہیں گڑ کی ڈلی دی۔اچھی پرفارمیس پر سیلری کے ساتھ سیلری اور وہ بھی نقد۔میں نے ایک خسارے میں جانے والی کمپنی کو چھہتر فی صد سے ایک سو چھ فی صد تک لے گیا۔
ابھی کوئی نہ کوئی میری کمپنی کا بندہ کمنٹ کر دے گا جو میرے چار سال جاب چھوڑنے کی بعد یاد کرتے ہیں۔اس قوم کو کوئی مانوا جبارا چاہئیے جو دے وعدے نہ کرے۔شائد اسی وجہ سے نواز شریف کامیاب ہے وہ نوازتا ہے اس کا طریقہ غلط اس لیئے کہ وہ غریب سے چھینتا ہے اور اسٹیبلیشمنٹ پر خرچ کرتا ہے اور وہ اس کے لئے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے لوگ مانگتے ہیں کہ اگر میری تنخواہ پندرہ ہزار ہے تم کتنی دو گئے اور ہمیں یہ کہنا ہی نہیں ہمیں کے پی کے میں کرنا بھی ہے۔پہلی بار کب سیاست میں آیاکہہ لیجئے کہ جس گھرانے میں آنکھ کھولی سیاسی تھا قبلہ والد صاحب ١٩٦٤ میں گجرانوالہ میں بی ڈی ممبر بنے ایوب دور میں مصالحتی کمیٹیوں کے چیئرمین بھی تھے کٹر مسلم لیگی ایوب خان کے پھول نشان کو شیروانی پر لگا کر ووٹ ڈالنے گئے تحریک پاکستان میں ایک نوجوان کی حیثیت ان کا اپنا کردار تھا شہر کے سارے مسلم لیگیوں سے دوستیاں تھیں کاظم علی شاہ علامہ عزیز انصاری غلام دستگیر خان سب سے یارانہ تھا۔ضیاء شہید کے عاشقوں میں تھے ان کے سینے میں ایک تڑپ تھی کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل ہوا ہے اسے اسلام کے سنہری اصولوں کے سائے میں ہی آگے بڑھنا ہو گا انہوں نے مقدور بھر کوشش کی ساری زندگی مسلم لیگی ہی رہے اور جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو وہ ہسپتال بھی اتفاق ہسپتال لاہور تھا۔
والد صاحب ضیاء شہید سے والہانہ لگائو رکھتے تھے ان کا کہنا تھا کہ شہید ضیاء کو اللہ اگر اور مہلت دیتا تو وہ اس ملک کی کایا پلٹ سکتے تھے۔ہم ان کے پائوں دابتے تو اپنی زندگی کے قصے خراٹوں کی آواز تک سنایا کرتے تھے مجھ میں ان کی عادت آن ٹپکی ہے اب اپنے کالموں میں اپنی نوجوان نسل تک تجربات منتقل کر دیتا ہوں۔کسی نے عمر شریف سے پوچھا حضور آپ پیدا کہاں ہوئے ہیں تو انہوں نے جواب دیا اپنے ماں باپ کے گھر اور کیا آپ کے گھر پیدا ہوا ہوں؟ یہ تو مرحوم کا مزاح تھا جو اس کالم میں لے آیا مگر میں پیدا ہوا ہزارہ کے ضلع ہری پور میں ایک گائوں ہے نلہ اس کے محلے چڑیالہ کی ڈھوک ڈھکیاں چوئیاں کے ساتھ درکوٹ سے جڑا ہوا ہے کہتے ہیں میرا پہلا چولا وہیں سے آیا گویا عباسیوں کے گائوں سے گجر نے ستر ڈھانپا یہی وجہ ہے کہ عباسیوں سے ہماری دوستیاں گہری ہیں اس بار اسی درکوٹ سے بھاری اکثریت سے بھانجہ جیتا ہے یو سی جبری میں ماجد مختار گجر پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے کامیاب ہوا ہے۔ہم ہزارہ کے لوگوں کی بد قسمتی یہ ہے ہم پیدا تو وہیں ہوتے ہیں لیکن کم ہی مائیں ایسی ہیں جن کے بچے واپس آتے ہیں ایک بار ملائیشیا گیا وہاں شہداء کی یادگار دیکھی تو بہت سے میرداد کالا خان ملے جو انگریزوں کے لئے لڑ مر گئے۔والد صاحب بھی بڑے بھائی کے ساتھ گجرانوالہ آ گئے جہاں ایک اضافی بستی جس کا نام باغبانپورہ جدید تھا وہاں رہائیش پذیر ہوئے والد صاحب میں قائدانہ صلاحیتیں تھیں جوانی میں ایک بار ہری پور کے بڑے باغ میں امیر شریعت کے جلسے سے ان کے ساتھ نکل پڑے پورے ہندوستان کا دورہ کیا یہ ایک عالم دین سے محبت کا اظہار تھا ان کی قرائت کی باتیں سنایا کرتے ہم ان کے پائوں دابتے اور وہ ہمیں قصے سنایا کرتے بیٹوں کے لئے باپ ایک دلیر شخص ہوتا ہے میں بہت چھوٹا تھا کسی نے کہا اللہ بہت بڑا ہے میرے دل میں آیا کیا اللہ واقعی سب سے بڑے ہیں۔ان کے خراٹے اس بات کی علامت تھے کہ اب آپ سو سکتے ہیں لعنت بھیجوں ان موبائلوں پر جنہوں نے اولاد کو ماں باپ سے دور کر کے رکھ دیا۔
پرائمری ادھر ایم سی پرائمری اسکول گلی سلکو مل والی میں کی۔ظاہر یہ ہمارا سٹی اسکول تھا وسائل اتنے نہ تھے کہ جی ڈی بھٹی کے اسکول میں پڑھتے۔ میٹرک عطا محمد اسلامیہ اسکول سے کیا جو شہر کا سب سے بہترین اسکول تھا۔یہی دور ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں ایشیا سبز ہے اور سرخ ہے کہ آوازیں لگنا شروع ہو گئیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن ایک اخبار کی شہ سرخی تھی کہ ادھر تم ادھر ہم۔بھٹو صاحب دلوں میں جگہ بنا چکے تھے شہر بھر میں ترنگا ہر گھر پر لگا ہوا تھا۔میں جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔عمر کوئی پندرہ سال ہو گی آئے روز اخبارات میں خبریں پڑھنے کو ملتیں ہمارے گھر نوائے وقت اور کوہستان آیا کرتے تھے باقی جماعت اسلامی کے دارلمطالعہ پر جا کر پڑھا کرتے تھے ایک بڑا سا منجا بھی وہاں ہوا کرتا تھا مدرسہ اشرف العلوم کے نیچے دارلامطالعہ تھا مرحوم سعید بھٹی وہاں بیٹھا کرتے تھے میرے ساتھ دو اور طالب علم ہوا کرتے تھے ایک سید طاہر شہباز جو اللہ کے فضل سے حکومت پاکستان کے اعلی درجے پر فائز ہیں غالبا سیکریٹری اسٹیبلیشمنٹ ہیں۔دوسرے آصف قاضی جو بعد میں ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں کہاں کر رہے ہیں اللہ ہی جانے کس ملک میں کھو گئے ہیں۔تیسرا میں۔۔۔۔۔ جب کچھ نہ بن سکا تو میرا دل بنا دیا اسکول میں سیاست ہی سیاست تھی بھٹو کا ایک کام ان دنوں مجھے بہت اچھا لگا وہ مظاہرے کیا کرتے جس کے نتیجے میں با با جمال ٹن ٹن بجا کر مجھے چھٹی دلوا دیتا بچے ایوب خان کے خلاف گندے نعرے لگاتے تو مجھے میرا ہری پور یاد آ جاتا جس کا میں بیٹا تھا اور ایوب خان بھی میں انہیں روکتا ۔ہم ان کی ماہانہ تقریر بڑے شوق سے سنا کرتے تھے چندا بیٹری سیل ایک روپے کا آتا تھا والد صاحب تقریر والے دن دو سیلوں کی قربانی دیا کرتے تھے سونی کا ٹرانسیسٹر ہمارے بیٹھک میں ہمیں خبریں سنایا کرتا تھا۔
نظام دین اور قائم دین کی باتیں فرمائیشی پروگرام اور جناب ایوب خان کی تقریر ہمارے پسندیدہ موضوعات ہوا کرتے تھے پھر جنگ ہو گئی مانوں دے بچے قیدی ہو گئے میں اکہتر کی جنگ میں قومی رضا کار بن گیا اس سے پہلے کی داستاں تو سنائی نہیں شہر بھر میں جلسے ہوتے میں جس کی تقریر سنتا اس کا ہو جاتا پہلی تقریر پاکستان جمہوری پارٹی کی سنی مقررین میں جناب نصراللہ خان خواجہ رفیق احمد ایم انور بار ایٹ لاء مولوی فرید احمد اور نورالامین کی سنی نور الامین بعد میں صدر پاکستان بنے خواجہ رفیق موجودہ سعد رفیق کے والد تھے ان مقررین میں جناب ایم حمزہ بھی تھے جو اب بہت عمر کے ہو گئے ہیں اور پی ٹی آئی میں ہیں۔مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے جناب ایم حمزہ تقریر کر رہے تھے میں نے ان کی تقریر کے دوران سٹیج پر چڑھنے کی کوشش کی میرے ہاتھ میں ایک اخباری تراشہ تھا جس پیپلز پارٹی کے وائیس چیئرمین جناب محمود علی قصوری کی بیٹی کی شادی کی خبر تھی جس میں ان کے بہت زیادہ جہیز کا ذکر تھا۔مجھے چڑھنے میں دقت ہو رہی تھی تراشہ دانتوں میں اور میں اوپر چڑھنے کی کوشش میں انہوں نے جب دیکھا کہ بچہ ہے آگے بڑھ کر اوپر اٹھا لیا کہنے لگے کیا بات ہے میں نے کہا آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ غریبوں کے نام پر ووٹ مانگنے والے خود کس طرح اپنی بیٹیوں کی شادی کرتے ہیں ایم حمزہ بلا کے مقرر تھے انہوں نے وہ گیلا تراشہ غور سے دیکھا اور مجھے کہا بیٹا اب تم ہی پڑھ کر سنائو میں نے وہ خبر پڑھ دی یہ گجرانوالہ کا شیرانوالہ باغ تھا سال تھا ١٩٧٠ اور مقرر تھا یہ خاکسار۔نور الامین صاحب نے مجھے اپنے پاس بلا لیا بلکہ مولوی فرید اور اپنے درمیان جگہ دے دی۔یہ ریکارڈ ہے کہ میں پندرہ سال کی عمر میں صدر پاکستان (ہونے والے) کے درمیان بیٹھنے کا شرف حاصل ہو چکا تھا دوسرے مولوی فرید تھے جو بنگلہ دیش کی تحریک میں شہید کر دئے گئے مکتی باہنی کے غنڈوں نے ان کے کمرے میں گھسنے کے بعد کہا کہ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگائو انہوں نے کہا یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا اور پھر نیزے کی انھیوں نے ان کے جسم کو چیر پھاڑ کے رکھ دیا یہ لوگ تھے پاکستانی ایسی ہی کہانیاں تحریک پاکستان میں بھی ہیں۔
سر ہوئے قلم قلماں کٹیاں عزت دی ٹہنی نالوں عذرا بانو سلمی کٹیاں فیر ایئے جا کے موقع بنیا پاکستان کوئی سوکھا بنیا؟
میں آج بھی اپنی تقریروں میں یہ اشعار بولتا ہوں تو کئی آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں۔ اسکول میں پا جی رشید جماعت اسلامی کے تھے وہ ہمیں اسلام کے بارے میں بڑی کتابیں دیا کرتے میں نے شہر کی لائیبریاں کھنگا ڈالیں مجھے جو جیب خرچ ملتا میں کتاب کرائے پر لے آتا عالی کی سر گزشت محمود پر کیا گزری رسالہ تعلیم و تربیت سب ہی پڑھ ڈالے ہمارے گھر اخبار جہاں نہیں آتا تھا تایا جان کے پاس آتا تھا میں مہینوں بعد جاتا ایک توڑے میں ڈال کر لے آتا میں ایک پڑھنے والی سونڈی تھا جہاں سے کتاب ملی پڑھ ڈالی انکا کی سر گزشت سمر قند و بخارا پر کیا گزری۔میں یوکرائن گیا روسی ریاست کو دیکھا مجھے سمر قند و بخارا کے دن یاد آ گئے۔جس نے پڑھا نہیں وہ بولے اور لکھے گا کیا؟پڑھئے فراز سے ایک بار کہا کہ سر بچے پڑھتے نہیں کہنے لگے بس ان کے سرہانے کتاب رکھ دیا کرو۔
میں نے سوشلزم کو جماعت اسلامی کی آنکھ سے دیکھا مجھے ضیاء دور میں روس یاد تھا میں کبھی بھی لیفٹ کے ساتھ نہ کھڑا ہو سکا۔جماعت میرے اندر ہے جماعتئے مجھ پر تنقید کرتے ہیں تو مجھے وہ دن یاد آ جاتے ہیں کہ جب ہم جمیعت میں تھے لیکن نواب زادہ نصراللہ کی تقریر بھی کمال کی تھی ان کی تقریر اور تحریر کا مقابلہ کم لوگ کر سکتے ہیں ایک سید صابر جعفری بھی اس جلسے میں تھے وہ ماٹھے مقرر تھے ان کی تقریر کے دوران تاج و تحت ختم نبوت کے نعرے لگ گئے۔اس پر میرے ساتھ سے نوابزادہ اٹھے اور جا کر ایک خوبصورت شعر سے مجمع ٹھنڈہ یخ کر دیا۔کہا رپٹ لکھا دی رقیبوں نے جا جا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں نوابزادہ صاحب تھوڑا سا ہکلاتے بھی مگر جب شروع ہو جاتے تو لفظ ان کی زبان کے پائوں دھوتے تھے۔میںنے اپنی زندگی میں شورش کاشمیری اور نوابزادہ جیسے مقرر کم ہی دیکھے ہیں ایک رفیق باجوہ آئے تھے جلد کھو گئے ان کے کھونے کی وجہ بعد میں بتائوں گا۔شورش کو پڑھیں اور دیکھیں کہ آزادی کے متوالوں پر کیا گزری۔پس دیوار زنداں سونے میں تول کر خرید لیجئے۔
میں کوئی جلسہ نہ چھوڑتا تھا زیادہ جلسے شیرانوالہ باغ میں ہوا کرتے کچھ گھنٹہ گھر چوک میں بھی ہوتے تھے۔ایک روز جماعت اسلامی کا جلسہ ہوا جو نظم و ضبط وہاں دیکھا ساری زندگی ترس گیا ہوں اس تنظیمی جلسے کو مولانا تقریر کر رہے تھے جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو چرند پرند خاموش۔جب وہ تشریف لائے تو ان کے ارد گرد ڈیموکریٹک یوتھ فورس کے جوان تھے تگڑے جوان، جو ان کو گھیرا ڈال کر سٹیج تک لائے مولانا نے کرسی پر بیٹھ کر تقریر کی میں اسکول میں پا جی رشید کا طالب علم تھا یہاں سید کو سنا ان کا ہو کر رہ گیا۔اگلے دن میں نے اپنی چھت کے اوپر جماعت اسلامی کا جھنڈہ لگا دیا گلی میں کوئی دیوار لکھنے نہیں دیتا تھا میں چودھری اسلم کی تحریر دیوار پر لکھوائی۔ پوری گلی میں سرفراز بٹ کے علاوہ میں جماعت کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔پوری گلی میں تین جھنڈے ایک سرفراز بٹ کی چھت پر دوسرا یونس بٹ اور تیسرا میرے گھر کے اوپر باقی سارے بھٹو کے۔بھٹو نے غریب کو امید دلائی تھی ایک انسینٹو دیا تھا کہا تھا کہ میں آپ کو روٹی کپڑا اور مکان دوں گا۔یقین کیجئے ہم لوگوں کے مسائل کی بات تو کرتے ہیں لیکن انہیں کوئی انسینٹو نہیں دیتے لوگ مانگتے ہیں کہ اگر میری تنخواہ پندرہ ہزار ہے تم کتنی دو گئے اور ہمیں یہ کہنا ہی نہیں ہمیں کے پی کے میں کرنا بھی ہے۔