تحریر : ڈاکٹر خالد حسین پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی پوری توجہ پانامہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے پر ہے، وہ ہر فورم اور فرد تک رسائی کیلئے سرگرداں ہیں جہاںسے انہیں شریف فیملی کے خلاف کچھ ملنے کی توقع ہو،3 تاریخ کو بھی کچھ ڈاکو منٹس عمران خان کی طرف سے عدالت میں جمع کروائے گئے ان کا دعوٰی ہے کہ شریف فیملی کیلئے کوئی راہ باقی نہیں جہاں سے وہ فرار ہو سکیں۔کیس لٹکانے کی حکومتی پالیسی بھی ناکام رہی حکومت کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ خان بیٹھنے والا نہیں،وہ ان کے تصور سے بھی بڑھ کر پانامہ کیس کے پیچھے پڑ گیا اور اسے کسی بھی فورم پر ٹھنڈا پڑنے نہیں دیاجس کی واضح مثال حکومتی وکلا ء کی پوری ٹیم تبدیل ہونا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے دوسرا محاذ عمران خان نے پورے ملک کے طوفانی دوروں کا شیڈول دے کر کھول دیا ہے لیکن اس محاذ سے پہلے انہوں نے کراچی میںملک کے تیسرے شوکت خانم ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھ کر اس بات کو سچ ثابت کردیا کہ عوام کے دکھ درد کا سانجھی بننے کیلئے حکومت ہونا یا بڑا عہدہ ہونا لازمی نہیں بلکہ درد دل ہونا کافی ہے۔عمران کے سندھ کی طرف بڑھتے قدموں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی بوکھلا کر رکھ دیاہے کیونکہ بہت سے سیاستدان تحریک انصاف میں اپنا مستقبل دیکھ رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس تحریر کی اشاعت تک سندھ سے کسی بڑے نام کا اعلان بھی ہو جائے۔
یہ صورتحال یقینا پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے پریشان کن ہے بلاول بھٹو کا بار بار دسمبر کے آخر میں حکومت مخالف تحریک کے اعلانات کو آخر کیا ہوا ؟ وہ کیوں ہوا ہو گئے ؟ زرداری کے آتے ہی سب کچھ بدل گیا۔ کیا پیپلز پارٹی اس قابل ہے کہ وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو بلکہ عوامی رائے ہے کہ دونوں پارٹیوں کی بچت اسی میں ہے کہ ایک دوسرے کی حمایت کریں اور ہوا بھی ویسے ہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا 120 درجہ ڈگری زاویہ کا لہجہ یکدم 30ڈگری زاویہ پر آن پہنچا۔ خان کی بڑے عوامی مسائل کی طرف توجہ نے انہیں پارٹی امور سے تقریبا لا تعلق کر کے رکھ دیا ہے اور ان کی طرف سے تعینات کئے جانے والے پنجا ب کے صدور اپنی اپنی لابیاں بنانے اور دوستوں کو عہدے بانٹنے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کا ز کو انتہائی نقصان پہنچ رہا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ لوگ بھی عمران خان کی طرح اپنے اپنے علاقوں میں عمران خان بن کر استحصالی قوتوں کے خلاف ڈٹ جاتے تو یقینا انقلاب برپا ہو جاتا۔ لیکن بجائے استحصالی اور ابن الوقت قوتوں کے خلاف محاذ بنایا جاتا ان صدور نے انہی قوتوں کو ضلعی سطح سے لیکر ٹائون سطح تک آل ان آل کرنا شروع کر دیا ہے جس سے پارٹی بجائے مضبوط ہونے کے تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ جب عمران خان حکومت کے خلاف محاذ سے فارغ ہو کر پارٹی امور کی طرح بڑھیں گے تو انہیں میر جعفروںکو پارٹی سے نکالنے کے لئے کافی وقت درکار ہو گا اور ایسے میں پاکستان مسلم لیگ پھر فائدہ اٹھاتے ہوئے کامیابی کے ہما پر سوار ہو جائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ نے اپنے کافی سارے نمک خواروں کو تحریک انصاف میں پھیلا دیا ہے جن کا کام ہی اپنے لوگوں کو اعلی ٰ اور فیصلہ ساز عہدوں پر تعینات کروانا ہے تاکہ تحریک انصاف کو اندر ہی سے ختم کر دیا جائے اور اس پر بڑی تیزی سے کام جاری بھی ہے تعینات کئے جانے والے صدور جانے انجانے میں ان لوگوں کے ہاتھوں خود بھی لٹ رہے ہیں اور پارٹی کے حصے بخرے بھی کر رہے ہیں، ویسٹ پنجاب کے صدر چوہدری محمد اشفاق بھی سادہ لوحی میں کمال رکھتے ہیں اپنے ہاتھ سے سینچے ضلعی پودے کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسے فیصلے کئے جا رہے ہیں کہ پارٹی ورکرز سر پیٹنے پر مجبور ہیں ضلع اوکاڑہ کو پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کا قلعہ کہا جاتا تھا جبکہ آج کل پاکستان مسلم لیگ ن کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ چوہدری محمد اشفاق کی طرف سے کئے جانے والے فیصلے پاکستان تحریک انصاف کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو رہے ہیں ان کی طرف سے جن لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں ان میں سب کے سب ن لیگ اور منظور وٹو دھڑے کے افراد شامل ہیں جبکہ ورکرز کو سرے سے ہی نکرے لگا دیا گیاہے۔
PTI
چوہدری طارق ارشاد کو ضلعی صدر پاکستان تحریک انصاف نامزد کیا گیا تو اسی وقت ورکرز سمجھ گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف ضلع اوکاڑہ سے آئوٹ ہو گئی ہے چوہدری طارق ارشاد کو اتنی اہم ذمہ داری صرف اور صرف اس لئے سونپی گئی کہ وہ چوہدری محمد اشفاق اور فیض اللہ کمو کا کی انتہائی قربت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ان کی تعیناتی سے ورکرز نے خاموشی اختیار کر لی چھ ماہ سے زائد عرصہ بیت جانے کے باجود چوہدری طارق ارشاد ضلع اوکاڑہ کی کسی ایک تحصیل کا بھی دورہ نہیں کر سکے اور نہ ہی ان کے علم میں ہے کہ کونسی تحصیل میں پارٹی کی کیا پوزیشن ہے ۔ ورکرز نے کافی دفعہ اپنے تحفظات سے چوہدری محمد اشفاق صدر ویسٹ پنجاب کو آگا ہ کیا کہ خدا را آنکھیں کھولیں ہمارے اوپر ان لوگوں کو مسلط نہ کریں جن لو گوں کے خلاف ہم نے پارٹی کاز کی سربلندی کیلئے جدو جہد کی۔لیکن کسی کی نہ سنی گئی۔حد تو یہ ہے کہ ضلعی صدر چوہدری طارق ارشاد کو ہی حرف آخر سمجھتے ہوئے تحصیل دیپال پور کے تمام عہدوں کے نوٹیفیکیشن تھما دیئے گئے کہ جائو جسے چاہو نواز دو۔تحصیل دیپالپور کے صدر کیلئے انہوں نے جاوید مہار کو چنا ۔یہ وہ مہار صاحب ہیں جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات کے بعد ضمنی الیکشن میں پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی بجائے ن لیگ کو سپورٹ کیا۔ صرف یہی نہیں اب ضلع کی چیئرمین شپ کیلئے اپنی ذاتی کونسل سے پی ٹی آئی کے منتخب چیئرمین کا ووٹ بھی ن لیگ کی جھولی میں گرنے سے نہ بچا سکے۔منتخب چیئرمین موصوف کے حقیقی رشتہ دار ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے مبینہ طور پر ضلعی چیئرمین کیلئے ووٹ پی ٹی آئی چیئرمینوں نے اپنی قیادت کے اشارہ پر ن لیگ کو بھاری مفادات کے حصول کے بعد دیئے۔
پیر صمصام شاہ بخاری کے مقابلے میں گلزار سبطین مضبوط امیدوار ہیں اور اپنے حلقہ سے جیت بھی سکتے ہیں جبکہ یہاں پربھی چوہدری اشفاق کی نظر کرم پیر صاحب پر ہی ٹھہری، رائو سکندر اقبال کی فیملی نے ساری زندگی پیپلز پارٹی کیلئے وقف کر دی جب تحریک انصاف میں آئے تو انہیں بھی نکر ے لگا دیا گیا۔ اشرف سوہنا کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ورکرز کی رائے کو اہمیت دیتا ہے اس لئے وہ بھی گڈبک میں جگہ حاصل نہیں کر پائے۔ ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ تحصیل دیپالپور میں اپنا ایک وسیع نیٹ ورک اور ووٹ بنک رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ضلی صدر چوہدری طارق ارشاد انہیں بھی دبائو میں رکھتے ہوئے تحصیل صدر میاں جاوید مہار کو ہی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ علاقہ میں ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو۔حقیت یہ ہے کہ تحصیل دیپال پور میں اگر ن لیگ کے رائو اجمل اور پیپلز پارٹی کے میاں منظور احمد وٹو کو کوئی پینل ٹف ٹائم دے سکتا ہے تو وہ ہے ملک غلام نبی کھوکھر اور پروفیسر ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ۔ لیکن ٹف ٹائم جائے پہاڑ میں ، پارٹی کاز جائے پہاڑ میں یہاں تو شخصیات کو پروموٹ کیا جا رہا ہے ۔ کوئی سنتا ہی نہیں ورکرز دل برداشتہ ہیں چوہدری اشفاق کا کہنا ہے کہ ضلعی صدر چوہدری طارق ارشاد سے رابطہ کریں ۔میرا ایک سوال ہے کیا مشاورت سے فیصلے اچھے ہوتے ہیں یا ذاتی سوچ سے؟۔
Pakistan
آخر کیوں آپ ورکرز کی آراء کو اہمیت نہیں دیتے ؟ فرد واحد کو سند قبولیت کیوں دے رہے ہیں؟ اگر آپ فیصلہ سازی کی قوت سے محروم ہیں تو خدارا گھر جائیں ۔ برسوں بعد پاکستان کو ایک ایسا لیڈر عمران خان کی صورت میں ملا ہے جس کے دل میں قوم کا درد ہے جو ملک کی نائو کو پار لگانا چاہتا ہے جو ڈاکوئوں لٹیروں کو نکیل ڈالنا چاہتا ہے جس نے وقت کے حکمرانوں سے ٹکر لے رکھی ہے جوہمارے آج اور ہمارے بچوں کے مستقبل کی جنگ لڑ رہا ہے جس نے ہمارے لئے اپنا گھر تباہ کر لیا۔ جس نے آپ پر اعتماد کرتے ہوئے انتہائی ذمہ دارانہ عہدہ آپ کو مکمل اختیارات کے ساتھ تفویض کیا لیکن آپ کیا کر رہے ہیں ؟صرف یہی کہ تحریک انصاف کے لبادے میں چھپے پیپلز پارٹی ، ن لیگ کے ورکرز کو آگے لا کر اپنے حقیقی ورکرز کو دور کر رہے ہیں عمران خان نے تو ن لیگ کو ووٹ دینے والوں چیئرمینوں کے خلاف کاروائی کا حکم دیا ہے جبکہ آپ ہمارے ضلع میں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نواز رہے ہیں اب بھی وقت ہے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں ۔ضلع اوکاڑہ کی تحصیلوں کا وزٹ کریں، اصل صورتحال آپ اور فیض اللہ کمو کا کے سامنے واضح ہو جائے گی کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے سے کبھی بھی بہتری نہیں آتی جب تک آپ میدان عمل میں آکر نہیں دیکھتے۔ ورکرز کو عزت دیں کیونکہ انہیں کی وجہ سے آپ کی عزت ہے۔پلیز پارٹی کاز کی سربلندی کیلئے آگے بڑھیں نہ کہ شخصیات کیلئے۔
تحریر : ڈاکٹر خالد حسین صدر پریس کلب حویلی لکھا(ضلع اوکاڑہ) khalidokr@gmail,com .