دعوت ایک غیر معمولی عمل ہے جس کو آج کچھ نا سمجھ لوگوں نے معمولی اور اسان سمجھ لیا ہے جبکہ دعوت ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ دعوت ایک خدائی فرمان اور انبیائی عمل ہے جو اس فریضہ کو انجام دینے والوں کے اندر ایمانی، روحانی اور عرفانی جذبہ چاہتا ہے، اخلاص چاہتا ہے، ہمدردی چاہتاہے اور غرباپروری چاہتا ہے۔ اس کے بغیر نہ تو دعوت کا حق ادا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی دعوت کی اس روحانی تاثیر اور ایمانی اثر کو برقرار رکھا جا سکتا ہے جو دعوت کا اصل مقصد ہے۔ اس عمل کے لیے اللہ تبارک و تعالی ہمیشہ سے اپنے محبوب بندوں کا انتخاب فرماتا رہا ہے، جنھوں نے اپنے اس دعوتی عمل سے ملک و سماج اور انسانی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا ہے۔ حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام کی پیدائش سے ہی اس انقلابی عمل کا رواج پڑ چکا تھا جس کا سلسلہ مختلف انبیا و مرسلین علیہم الصلاة و التسلیم سے ہوتا ہوا، اللہ ج کے برگزیدہ اور نیک بندوں تک پہنچا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دعوت کے اندر اس قدر انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت ہے تو موجودہ زمانے میں اس کا مظاہرہ کیوں نہیں ہو پار ہا ہے اور مسلمانوں پر اس دعوت کا کچھ اثر کیوں نہیں ہوتا، جبکہ آج بھی اس دعوت کا عمل جاری ہے؟ اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ آج کل دعوت، دعوت محض بن کررہ گئی ہے اور اس کے اندر کی روحانی تاثیر کو نکال کر باہر کر دیا گیا ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ دعوت دینے والے تو ہیں مگران کے دلوں میں وہ جذبہ، وہ اخلاص اور وہ یقین نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔ ان کے اندرعلم ہے تو عمل نہیں اور عمل ہے تو علم نہیں۔ نہ تو وہ دعوت کے مزاج سے واقف ہیں اور نہ ہی جن کو وہ دعوت دے رہے ہیں ان کے حال سے آگاہ ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ پہلے اپنے آپ کو منوائیں، اپنی باتوں کو منوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ الغرض ان کے کہنے اور کرنے میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ سیدھے لفظوں میں کہا جائے تو وہ حق و صداقت کی تبلیغ کم اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کا پرچار زیادہ کرتے ہیں۔
چنانچہ سب سے پہلے دعوت کا مزاج اور اس کی ذمے داری کو سمجھنا ہوگا تبھی جا کر دعوت سے انقلابی عمل لیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں اور اس کے لیے کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کو نگاہوں میں رکھنا ہی کافی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خاتم الانبیائ، سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی محبوب و مقبول نہیں، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی عابد و زاہد ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ انسانیت کا ہمدرد و غمگسا رہے۔ پھر کیا وجہ تھی کہ خداوند قدوس نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرماتے ہی دعوت کا حکم نہ فرمایا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کامل چالیس سال تک انسانی معاشرے میں زندگی گذار لیا، تب جاکر حکم دیا کہ اے محبوب! اب انسانوں کو اپنی رسالت اور ایک خدا کی دعوت دیجئے۔
Muhammad PBUH
ذرا سا غور فرمائیں تو یہ بات بالکل صاف ہو جائے گی کہ خالق کائنات نے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور ذات کو عربوں کے درمیان منوایا۔ ان کے اخلاق حسنہ، عفت و پاک دامنی اور امین و صادق ہونے کی گواہی دلوائی۔ ہر چھوٹے بڑے کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ومحبت کا سکہ بٹھایا اور پھر جب اپنے اور بیگانوں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جہت بشری سے تسلیم کرلیا تو حکم خداوندی ہوا کہ اب دعوت وتبلیغ کا عمل شروع کیا جائے۔ لہٰذا عرب قوم کے اندر جو ایمانی، سماجی اور اخلاقی انقلاب پیدا ہوا، اس کے پیچھے اسی دعوت کا مکمل عمل دخل تھا جس نے ایک جنگجو اور لڑاکا قوم کو امن وآشتی کا پیامبر بنا کر دم لیا اوردنیا نے دیکھا کہ ایک وحشی قوم جس کو انسانیت کے خانے میں معمولی جگہ بھی بڑی مشکل سے دی جاتی تھی،اس نے پوری انسانیت کی مسیحائی کا فریضہ انجام دیا۔
پھر جب اسلام کا زمانہ آیا اور دعوت کا دامن وسیع ہونے لگا تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہر چہار جانب بھیجنا شروع کیا اور حق و صداقت کی دعوت عام سے عام ترہونے لگی لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کو دعوتی عمل کے لیے تربیت دی۔ انھیں دعوت کے ہر طور و طریقے سے آگاہ فرمایا، اب وہ چاہے زبان مبارک سے ہو یا عمل صالح کے ذریعے۔ پھرصحابہ کرام میں سے ان ہی نفوس قدسیہ کا انتخاب فرمایا جودعوت کے لیے زیادہ موزوں ثابت ہوسکتے تھے، جو نہ صرف علم و عمل کے سمندر تھے، بلکہ عام سے عام انسانوں کو سمجھانے کی عمدہ صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ بالخصوص جن علاقوں اور جن ملکوں میں اصحاب کرام رضی اللہ عنہم بھیجے جاتے، تو اس بات کا ضرور خیال رکھا جاتا تھا کہ وہ ان علاقے کی بودوباش، عوامی بول چال اور تہذیب وتمدن سے آگاہ ہوں، تا کہ دعوت کے فریضے کو کامل طور سے انجام دیا جاسکے۔ اکثر تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس علاقے سے تعلق رکھتے تھے انھیں اسی علاقے میں دعوت و تبلیغ پر بحال فرما دیا کرتے تھے۔
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں بھی یہی طریقہ رائج رہا کہ یہ حضرات ہر پل اور ہر لمحہ دعوتی فرائض انجام دیتے رہے۔ خانگی زندگی ہو چاہے معاشرتی زندگی، کسی بھی وقت غافل نہیں رہے۔ پھر تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اس عمل کو آگے بڑھایا اور سیاست سے لے کر معاشرت تک تمام شعبوں میں دعوت کا پرچم بلند کرنے سے یک سرمو بھی انحراف نہیں کیا، بلکہ کچھ نیک بندے تو دنیاوی معاملات میں مشغول رہے اور بڑی خوبی سے دعوتی فریضہ بھی ادا کرتے رہے۔
خود امام اعظم رضی اللہ عنہ نے تجارت کے بہانے دعوت کا جو آفاقی فریضہ ادا کیا ہے، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی آیا جب صوفیائے کرام رحمةاللہ تعالیٰ علیہم کی جماعت نے دعوت کے فریضے کو بحسن و خوبی انجام دینا شروع کیا اور اس کے ذریعے انسانوں کے دل ودماغ میں ایمانی، روحانی اورہمدردی کا انمول جذبہ پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ ان کے اس عمل سے انسانوں کا تاریک دل اوربے یقینی کا شکار دماغ مذہب کے لیے مضبوط تر ہوا۔
صوفیا ئے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے معمولات سے واضح ہوتا ہے کہ ان برگزیدہ بندوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں دعوت کی روشنی بکھیرنے کا کام کیا ہے اور حسن معاملات کی ترغیب دی ہے۔ کچھ اللہ والوں نے عوام میں گھل مل کر اس فریضہ کو پورا کیا ہے، تو کچھ برزگوں نے حکومت میں گھس کر حکمرانوں کو حق وصداقت کی دعوت دی ہے اور اپنے حسن عمل سے انھیں رعایا کی حق تلفی اور ان کے خون ناحق سے باز رکھا ہے، یہاں تک کہ کچھ نیک بندوں نے تو افواج میں شامل ہو کر بھی دعوت کا بے مثال نمونہ پیش کیا ہے۔ اس سے جہاں دعوت کی عظمت کا احساس ہوتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کا عمل محض مدرسے، مساجد اور مذہبی اداروں میں رہ کر ہی نہیں پورا ہو سکتا ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں رہ کر بھی اس کو بخوبی پورا کیا جا سکتا ہے۔ چاہے اسکول کا آفس ہو، چاہے فیکٹری کا دفتر، ایوان عدالت ہو یا ایوان پارلیمنٹ، بازار کی دوکان ہو یاگائوں محلے کا کھیت کھلیان، شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی ہو یا پھر دیہات کی الھڑ زندگی، ہر جگہ اور ہر ماحول میں دعوت کی روحانی خوشبو پھیلائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ دعوت کی روحانیت سے داعی کا دل سرشار ہو، ہمہ گیر پیغام سے اس کا دماغ لبریز ہو، ”بَلّغْوا عَنّی وَلَوایة?ََ”کے جذبے سے اس کا قلب پرجوش ہو، اور اس کی زندگی ”لم تقولون مالا تفعلون۔”کی عملی تفسیر ہو۔
بالخصوص آج اس مطلبی اور خود غرض دنیا میں،جب ہر طرف انسانیت سسک رہی ہے۔ مروت و ہمدردی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اخلاقی بے راہ روی اور بے حیائی حد سے بڑھ گئی ہے۔ حلال و حرام کی ہر تمیز مٹتی جا رہی ہے، ایسے میں دعوت کی ضرورت شدید ہو جاتی ہے۔ اس لیے اولاََ تو یہ بات ذہن میں رکھنی ہو گی کہ دعوت کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔ پھر اس فریضے کو بہتر طور پر ادا کرنے کے لیے اسے اپنے اندر وہ صالح فکر، پاکیزہ خیالات اور اخلاص و للہیت والا جذبہ پیدا کرنا ہو گا جو انبیا و مرسلین، صدیقین و صالحین اور اولیائے کاملین کی صحبت میں رہ کر حاصل ہوتا ہے۔
انبیا و مرسلین کا سلسلہ تو موقوف ہو چکا ہے۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین کا زمانہ بھی اب نہیں رہا لیکن اولیا ئے کرام اور صوفیائے عظام کے روحانی اور عرفانی فیض کا دریا آج بھی رواں ہے اورتا قیامت جاری رہے گا۔ پس ا?ج کاہر وہ جوان جو زندگی کے موڑپر اچھے برے حالات سے ہمیشہ دوچار ہوتا رہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسی نیک وبرگزیدہ شخصیات اور درویش صفت نفوس قدسیہ کی صحبت اختیار کرے، کیونکہ ان بزرگوں کی روحانی صحبت میں بیٹھنے سے نہ صرف دل کی گندگیاں دور ہو جاتی ہیں اور نفس کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، بلکہ عام زندگی سے لے کر کاروباری لین دین میں بھی ایمانداری اورسچائی کی تحریک ملتی ہے۔ اس طرح دعوت کا جو آفاقی تصور انبیا و مرسلین، سلف صالحین اور اولیائے کاملین نے دیا ہے، اسے کافی حد تک زندگی کے تمام شعبوں میں یش کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ دعوتی عمل آج بھی اس بدعنوان ملک و سماج میں حقانی، ایمانی، اخلاقی اور اصلاحی انقلاب کا ایک پیش خیمہ ثابت ہو گا۔