سیاسی جماعتیں اور نیا پاکستان

Elections

Elections

انتخابات ختم ہوئے ، نئی حکومتیں مرکز اور صوبوں میں معرضِ وجود میں آ گئیں اور اب نواز لیگ ہی نہیں بلکہ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کا بھی کڑا امتحان شروع ہو گیا۔ قبل از انتخاب نواز لیگ اور تحریکِ انصاف نے بلند بانگ وعدے اور دعوے کیے البتہ پیپلز پارٹی کا سارا زور بھٹو اور بینظیر کی نوحہ خوانی پر رہا لیکن پتھر دل قوم ذرا بھی نہیں پگھلی اور انتخابات میں اُس کا وہ دھڑن تختہ کیا کہ اب اُس کے ہاں سچ مُچ کی صفِ ماتم بچھی ہے۔ اب شاید پیپلز پارٹی کو سمجھ آ چکی ہو گی کہ، بھٹو کارڈ، استعمال نہیں ہو گا اور قوم اتنی بھی بیوقوف نہیں کہ عشروں تک بھٹو اور بینظیر کی قبروں کو ووٹ دیتی رہے۔

میاں برادران کو انتخابات میں خوب پزیرائی ملی اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب کے چہرے پر جمی تفکرات سے لبریز گھمبیر خاموشی کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ مسائل کا دیو جو مُنہ کھولے سب کچھ نگلنے کو تیار بیٹھا ہے جس سے نجات کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے نہ سجھائی۔ لوڈ شیڈنگ، کرپشن، مہنگائی، خودکُش اور ڈرون حملے ایسے مسائل ہیں جن سے فوری طور پر چھٹکارہ ممکن نہیں اور قوم مزید وقت دینے کو تیار نہیں۔ اِس وقت حکومت کا سب سے زیادہ زور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے یا کم از کم اُس میں معقول حد تک کمی پر ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر لوڈشیڈنگ پر قابو پا بھی لیا جائے تو کیا راوی عیش ہی عیش لکھنا شروع کر دے گا؟۔

کیا بجلی آنے سے ڈرون حملے بند ہو جائیں گے یا کرپشن کے مگر مچھ قابو میں آ جائیں گے؟۔ یقیناََ ایسا کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے میاں برادران یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی کرنا ہے جنگی بنیادوں پہ کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میاں برادران اپنی تمام تر
توانایاں صرف کر کے اِن معاملات کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنے کی سعی ضرور کریں گے۔ وہ شاید بہت حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی جائیں البتہ کاسہ لیس۔نظر آ رہا ہے کہ انتخابات سے پہلے جن کا قلم میاں برادران اور نواز لیگ کے خلاف زہر اگلتا تھا اب اُس میں آہستہ آہستہ شیرینی گھُلتی چلی جا رہی ہے۔ خوشامد ایسا موذی مرض ہے جو انسان کی سُدھ بُدھ گنوا دیتا ہے اور بڑے میاں صاحب نے تو خوشامد کی کڑواہٹ کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔ اُن کی آج بھی وہی معروف، کچن کیبنٹ، اُن کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہے۔

Imran Khan

Imran Khan

جسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ قوم ایک دفعہ پھر مایوس ہی ہو گی لیکن اگر میاں برادران نے اپنے ماضی اور طویل جلاوطنی سے کچھ سبق سیکھا ہوا تو پھر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جس نئے پاکستان کے نعرے عمران خاں صاحب لگا رہے تھے وہ نیا پاکستان میاں برادران کے ہاتھوں تشکیل پائے گا۔ قوم نے اِس دفعہ سیاسی جماعتوں کو بڑا عجیب و غریب مینڈیٹ دیا ہے۔پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کرکے اُسے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو درست کر لے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ سندھ پر ایک دفعہ پھر وہی حکومت مسلط کر دی گئی ہے جسے سندھی عوام پانچ سال تک بھگتتے رہے ہیں۔ سندھیوں نے تو طوہاََ و کرہاََ بھٹو اور بینظیر سے محبت کا حق ادا کر دیا لیکن جنابِ زرداری نے اُن پر پھر وہی پرانے لوگ مسلط کر دیئے۔ اب ستمبر کے بعد جب وہ عملی سیاست میں آئیں گے تو پتہ چلے گا کہ زرداری صاحب نے پچھلے پانچ سالوں سے یہ کوئی سبق سیکھا ہے یا نہیں؟۔

عمران خاں صاحب زیادہ سے زیادہ مرکز میں اپنی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ہی بن سکتے ہیں کیونکہ عددی اعتبار سے قائدِ حزبِ اختلاف پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ بنیں گے خاں صاحب نہیں۔ اگر انہوں نے کسی سے بنا کر رکھی ہوتی تو شاید اِس بار ایم کیو ایم اُن کا ساتھ دیتی لیکن اُنہیں تو دو تہائی اکثریت کا اتنا یقین تھا کہ وہ کبھی ایک بال سے تین وکٹیں گراتے اور کبھی اپنے بلّے سے دوسروں کی، پھینٹی، لگاتے نظر آتے۔ یہی زعم اُنہیں
تنہا پرواز کی طرف لے گیا جبکہ اُن کی پارٹی کا یہ حال تھا کہ
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
بھان متی نے کُنبہ جوڑا
اِس کنبے کے کچھ پنچھی تو ٹکٹ نہ ملنے پر پھُر ہو گئے، کچھ انتخابات کے بعد کھسک لیے اور کچھ کھسکنے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔خورشید محمود قصوری الیکشن ہارنے کے بعد گھر بیٹھ رہے اور اُن کی بھاوج تحریکِ انصاف کی جذباتی ترجمان اور خواتین ونگ کی صدر فوزیہ قصوری کو اب تحریکِ انصاف میں کیڑے نظر آنے لگے ہیں۔

وجہ صرف یہ کہ اُنہیں قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست نہیں مل سکی۔اِس لیے اُنہوں نے تحریکِ انصاف سے پرواز کر جانے میں ہی عافیت جانی۔ بلوچستان کی خواتین ونگ کی صدر بھی تحریکِ انصاف کو داغِ مفارقت دے چکی ہے اوربھی بہت سے لوگ باقی ہیں جو پرواز کے لیے پَر تول رہے ہیں ۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ تحریکِ انصاف کی تیزی سے مقبولیت اور پنچھیوں کا پروانہ وار فدا ہونا کچھ غیر فطری سا محسوس ہوتا ہے لیکن ہمیں جواباََ وہ کچھ سُننا پڑتا تھا جسے احاطہء تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ محترم عطاالحق قاسمی صاحب نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ پیپلز پارٹی سندھ میں مقبول ہے، نواز لیگ پنجاب میں اور تحریکِ انصاف فیس بُک پر۔ اُن کا لکھا حرف حرف سچ ثابت ہوا لیکن تحریکِ انصاف کے جذباتی کارکنوں نے انٹر نیٹ کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اُنہیں بہت کچھ سُنا ڈالا۔

Provincial Assembly

Provincial Assembly

اب جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہو چکی ہے، وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ خیبر پختونخواہ کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک عمران خاں کی ہدایات پر عمل کرنے کی بجائے مَن مانی کریں گے۔ عمران خاں صاحب تو اسد قیصر کو وزیرِ اعلیٰ بنانا چاہتے تھے لیکن طرّار پرویز خٹک نے اُن کی ایک نہیں چلنے دی۔ وہ پہلے ہی اپنا مضبوط گروپ بنا چکے تھے جس میں اُن کے خاندان کے تقریباََ تمام بالغ افراد صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت کر اُن کے دست و بازو بَن چکے تھے۔ اِس لیے ہوا وہی جو پرویز خٹک نے چاہا۔ اب خیبر پختونخواہ کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ خٹک صاحب صوبہ سنبھال نہیں سکیں گے جِس کا براہِ راست نقصان عمران خاں صاحب کو ہو گا۔

شاید اسی لیے نواز لیگ نے ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے خیبر پختونخواہ کی حکومت تحریکِ انصاف کے سپرد کر دی اور مولانا فضل الرحمٰن کو بھی، نُکرے، لگا دیا ۔یہ مولانا صاحب بھی عجیب ہیں۔ جس طرح جَل بِن مچھلی نہیں رہ سکتی اُسی طرح مولانا صاحب بھی حکومت سے باہر نہیں رہ سکتے لیکن آفرین ہے نواز لیگ پر جس نے مولانا کی ایک نہیں چلنے دی اور اُنہیں مکھن سے بال کی طرح مرکز، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے نکال باہر کیا۔ اب مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ ہم حکومت کے اتحادی ہیں وزارتوں کا فیصلہ بعد میں کر لیں گے۔ اب دیکھیں اِس زبر دستی کے اتحادی کے کشکول میں کچھ گرتا ہے یا نہیں۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
E.Mail: prof_riffat_mazhar@hotmal.com