تحریر : پروفیسر رفعت مظہر سچ تویہی ہے کہ ہم سنجیدہ کالم لکھ لکھ کرتھک بلکہ ”ہَپھ”چکے اوریہ بھی عین حقیقت کہ خشک کالم ہم سے لکھے جاتے ہیںنہ پڑھے ۔کتنے خوبصورت تھے وہ دِن جب دھرنوںکا موسم تھا اورہم اپنے کالموںمیں کبھی کپتان صاحب اورکبھی علامہ قادری کے بارے میںطرح طرح کی موشگافیاںکرتے رہتے تھے۔ قادری صاحب ”کینیڈا” کے ہورہے اورکپتان صاحب جوڈیشل کمیشن کے ۔شنیدہے کہ اب آزادی کنٹینر لاہور کی سڑکوںپر رواںدواں ہوگا ۔اگرایسا ہوگیا توہماری پانچوںگھی میںلیکن فی الحال توروکھے پھیکے کالموںپر ہی گزاراکرنا پڑے گاکیونکہ اب نہ توشیخ رشیدکی مارو ،مَرجاؤ ،جلاؤ، گھراؤ جیسی بڑھکیں سنائی دیتی ہیں نہ الطاف بھائی کے ”گنڈاسے”کی چمک ۔شیخ صاحب اپنی حسرتوںپہ آنسوبہاتے لال حویلی کے ہورہے اورالطاف بھائی کی للکار ،پھنکار ،چہکاراور مہکار سب ”کراچی آپریشن”کی نظرہو گئی ۔اِس کے باوجودبھی الطاف بھائی کہتے ہیں ”ہاتھی مراسوالاکھ کا”۔پہلے توالطاف بھائی ہردوسرے دن متحدہ کی قیادت چھوڑنے جیسا ”مخول”کرتے رہتے تھے
لیکن جب اُنہوںنے دیکھاکہ لوگ توسنجیدہ ہی ہوگئے اورفضاؤں میں”مائنس وَن”فارمولے کی سرگوشیاں بھی سنائی دینے لگیںتو اُنہوںنے ایک تازہ بہ تازہ ”کھڑاک”کرتے ہوئے کہہ دیاکہ ”نہ تو کبھی ایم کیوایم کی قیادت چھوڑنے کی بات کروںگا اورنہ ہی جیتے جی چھوڑوں گا”۔ ویسے آفرین ہے الطاف بھائی پر کہ مشکلات میںگھرے ہونے کے باوجودوہ تاحال تازہ دَم ہیںاسی لیے تواُنہوںنے گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العبادکو گورنری چھوڑنے کاحکم صادرفرما دیاہے۔ اُدھرماضی کے دو کرداربھی ہمارے کالموںکا پیٹ بھرتے رہتے تھے لیکن اب وہ بھی مفقود الخبر۔ اللہ سلامت رکھے ہمارے پہلوان راجہ ریاض فیصل آبادکے ہورہے اوررانا ثناء اللہ کوسانحہ ماڈل ٹاؤن ”ڈکار”گیا۔
رانا ثناء اللہ توپھر بھی کبھی کبھی جھلک دکھلا جاتے ہیںلیکن جب سے پیپلزپارٹی ”آؤٹ” ہوئی ہے راجہ ریاض بھی سدھارگئے ۔ اب نہ پیپلزپارٹی کادَور لوٹے ،نہ راجہ صاحب ”اِن” ہوں۔یوںتو آجکل میاںبرادران کی ”جے جے کار”ہو رہی ہے لیکن میاںنواز شریف صاحب کی شگفتہ بیانی جلاوطنی کے الاؤ میںجَل چکی ۔اب تواُنہوںنے اپنے اردگرد بھی پرویزرشید اورمصدق ملک جیسے لوگوںکا ایساہجوم اکٹھاکرلیا ہے جوسیاستدان کم اور ”لکھنوی مزاج” زیادہ لگتے ہیں۔اُن کی اسی ”لکھنویت”کی بناپر تحریکِ انصاف اُنہیں پورے ایک سوچھبیس دنوںتک ”پھڑکاتی”رہی اوریہ ”ٹک ٹک دیدم ،دَم نہ کشیدم”کی عملی تصویربنے رہے۔
Shahbaz Sharif
خادمِ اعلیٰ کاپچھلا پانچ سالہ دِوربڑا ہنگامہ خیزتھا ۔اُن کی ہلتی ہوئی انگشتِ شہادت بڑے بڑوںکا ”پِتّاپانی” کردیتی ۔اُنہوںنے سڑکوںپہ گھسیٹنے کے وعدے توبہت کیے لیکن ”وہ وعدہ ہی کیاجو وفاہوگیا ”۔آجکل وہ بھی ”ٹھنڈے ٹھار” ہوکر اکثربیرونی دَوروںپر ہی رہتے ہیں۔جب سے مولاناقادری ”پرلوک”سدھارے ،چودھری برادران بھی ”ٹھنڈے ٹھار”ہوکر گھربیٹھ رہے ۔اب اُن کی طرف سے کوئی نرم خبرآتی ہے نہ گرم ۔بلاول زرداری اگر ذوالفقارمرزا کا”تڑکا” قبول کرلیتے توشاید کچھ بات بَن جاتی اورہمارے کالم بھی راہ پاجاتے لیکن بلاول نے بھی ”انکل” ذوالفقارمرزا کاساتھ نہیںدیا۔جب یہ صورتِ حال ہوتو بھلا کوئی لکھے بھی توکیا لکھے لیکن ہم نے بھی ایک راہ نکال لی ہے ۔پہلے توہم اپنالکھا کالم بھی نہیںپڑھتے تھے لیکن اب دن میںکئی کئی کالم ”چَٹ” کرجاتے ہیں ،مقصد صرف یہ کہ کوئی محترم کالم نگارکوئی نہ کوئی ایسی بات لکھ جائے کہ ہمیںبات سے بات نکالنے میںآسانی ہو ،جیسے ایک محترم لکھاری نے بھائی عطاء الحق قاسمی کی شان میںایسا کالم لکھاکہ ”اوازار”طبیعت ہشاش بشاش ہوتی چلی گئی۔
اُنہوںنے قاسمی صاحب کے بارے میںلکھا ”آپ اردومزاح نگاری کی دنیاکے صدربھی ،وزیرِاعظم بھی اورگورنربھی ۔کیایہ کم ہے کہ آپ نے مال ودولت کے ذخائرجمع نہیںکیے ،تمام عمر قلم کی حرمت کاخیال رکھا ،کبھی کسی کودھوکہ نہیںدیا اورجس کوسچ سمجھا ،وہی لکھا”۔ اِس تعریف وتوصیف کے بعدموصوف نے اپنے کالم کی تان جن جملوںپر توڑی ،اُنہیںپڑھ کرطبیعت ”ڈبل اوازار” ہوگئی ۔موصوف نے لکھا ”میںآپ کے اُس نون لیگی سچ کاپاسبان نہیںبن سکتاجس میںجگہ جگہ جھوٹ کے پیوندلگے ہوئے ہیں ۔الحمدُ للہ آپ کی آنکھیں دیکھنے کی اہلیت رکھتی ہیں ۔ابھی وقت ہے ،ذراغورکیجئے ”۔محترم لکھاری کے اِن آخری جملوںکو پڑھ کرمجھے وہ گھساپٹا لطیفہ یادآگیا کہ ایک وزیربا تدبیرپاگل خانے کا معائنہ کرنے گیا وہاںاُسے ایک ایسا پاگل بھی ملاجو اعلیٰ تعلیم یافتہ اورعقیل وفہیم لگتاتھا اُس نے وزیرصاحب کے ساتھ بڑی خوبصورت اورمتاثرکُن گفتگوکی ۔وزیرنے اُس سے پوچھاکہ وہ پاگل خانے کیسے چلاآیا؟۔ اُس نے جواب دیاکہ وہ پاگل ہرگز نہیں ،دراصل اُس کے رشتہ داروںنے اُس کی جائیدادہتھیانے کے لیے اُسے پاگل ثابت کرکے پاگل خانے بھیج دیا۔
وزیرنے کہا” میں ابھی تمہاری رہائی کا حکم جاری کرواتا ہوں”۔ جب وزیرواپس جانے کے لیے مُڑا توپاگل نے اُس کی کمرپر زورسے لات رسیدکرتے ہوئے کہا ”بھولنانہیں”۔وزیرنے مسکراکے کہا ”اب توبالکل نہیںبھولوںگا”محترم لکھاری نے بھی شایدکچھ ایساہی کیا،پہلے تعریف وتوصیف اورپھر ۔۔لیکن شایدیہ سب کچھ”بغضِ معاویہ” کے تحت ہوا۔میاںنواز شریف کی تقاریراگر کچھ لوگوںکے کانوںمیں رَس گھولتی ہیں توکچھ کے کانوںمیں پگھلاہوا سیسہ بھی انڈیلتی ہیں ۔معصوم عن الخطاکوئی بھی نہیں ،شریف برادران نہ کوئی اورلیکن اگر بغض وعداوت کی عینک اتارکر دیکھاجائے توقاسمی صاحب کے سچ میںجھوٹ کی پیوندکاری کہیںنظر نہیںآئے گی۔
Nawaz Sharif
کیایہ غلط ہے کہ نوازلیگ کے حکومت سنبھالنے سے پہلے 10 ہزارارب روپے سے زائدمعیشت کانقصان ہوچکا تھا ،امریکی جنگ میں6 ہزارارب روپے جھونکے جاچکے تھے اور 7 ہزارفوجی جوانوںکے علاوہ 50 ہزار شہری شہیدہو چکے تھے ۔کراچی خونم خون تھااورملکی خزانے میںصرف 6 ارب ڈالر۔ کیایہ غلط ہے کہ اب قومی خزانے میںساڑھے سترہ ارب ڈالرسے زائد کے اثاثے ہیں ،دہشت گردی کاتقریباََ خاتمہ ہوچکا اورکراچی میںبھتہ خور،ٹارگٹ کلرزاپنے عبرت ناک انجام کو پہنچتے چلے جارہے ہیں۔ کیایہ بھی غلط ہے کہ رحیم یارخاںمیں قائدِاعظم سولرپلانٹ 100 میگاواٹ بجلی پیداکرنے کے لیے تیارہے جودو سال میں1000 میگاواٹ تک پہنچ جائے گی ،مظفرگڑھ میں ترکی کے تعاون سے 100بستروںکے ہسپتال کاافتتاح ہوچکا،
ساہیوال میںکول پاورپلانٹ کی بنیادرکھی جاچکی ،رجوعہ چنیوٹ میںسونے ،تانبے اورلوہے کے اربوںڈالرزکے ذخائرکی تلاش شروع ہوچکی ِاورپٹرول کی قیمتوںمیں حیرت انگیزکمی ہوچکی ۔ کیایہ بھی غلط ہے کہ چین کے46 ارب ڈالرز کے منصوبوںپر دستخط کرنے کے بعدبین الاقوامی سرمایہ کاروںکا اعتمادبحال ہوچکااورمعیشت کی ڈوبتی کشتی کو سہارامِل چکا ۔کہاجاتا ہے کہ” لوگ خودکشیاں کررہے ہیںلیکن یہ لاہورکو پیرس بنارہے ہیں”۔عرض ہے کہ چین نے بلٹ ٹرین ،ایکسپریس ہائی وے اوربلند وبالا عمارتیںکھڑی کرکے چینیوںکو عظیم قوم بنادیا لیکن اب بھی وہاں 75 فیصد افرادکی فی کس آمدنی 5 ڈالریومیہ سے کم ہے۔
بھارت میں80 کروڑافراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسرکر رہے ہیں ،کروڑوںفُٹ پاتھوںپر سوتے ہیں ،پھربھی وہاں 400 ارب روپے سے ایکسپریس ہائی وے بنائی جارہی ہے ۔خیبرپختونخوا اورسندھ کی حکومتوںکے حلق ”جنگلابَس سروس”کا شورمچاتے مچاتے خشک ہوگئے لیکن اب وہ بھی اسی راہ پرچل نکلے ۔ کیامیرے محترم لکھاری اسے ترقی ٔمعکوس کہیںگے ۔دست بستہ عرض ہے کہ ”ابھی توپارٹی شروع ہوئی ہے ”۔یہ توصرف 18 ماہ کی کارکردگی ہے ،آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا۔