اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ضرور ہے لیکن تقسیم یا دھڑے بندی نہیں ہے۔
کلر سیداں میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ میرےنزدیک مال و دولت نہیں کردارکی وقعت ہوتی ہے، میں نے مناسب سمجھا وزارت میں نہیں بیٹھوں گا، عہدے اور حکومتیں آنی جانی چیزیں ہیں، کوشش کرتا ہوں ایسا کام نہ کروں جو کوئی میرے کردار پر انگلی اٹھا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی کے کسی شخص کوسپریم کورٹ کے فیصلے کی تضحیک نہیں کرنی چاہیے، عدلیہ کے فیصلے سے اختلاف اوراپیل کی اجازت ہے، تضحیک کی نہیں، تنقید ضرور کریں لیکن تضحیک کریں گے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا نواز شریف کو سپریم کورٹ سے انصاف نہیں لینا؟
سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ میں اختلاف رائے ضرور ہے لیکن کوئی تقسیم نہیں، تجریہ کار پارٹی میں اختلاف رائے کو بہت بڑا بحران بنا کر پیش کرتے ہیں لیکن پارٹی میں کوئی فارورڈ بلاک یا دھڑے بندی نہیں البتہ اختلاف رائے جمہوریت کی بنیاد ہے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ جو بھی پالیسی بنے گی وہ (ن) لیگ اور ملک کے بہترین مفاد کے لیے بنے گی، مخالفین دیکھتے رہیں گے کہ (ن) لیگ اگلے الیکشن میں متفق اتحاد اور اتفاق کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
ایک سوال کے جواب میں سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہوں گا کہ پاک امریکا تعلقات میں بہتری آئی، البتہ وقتی طور پر کچھ ٹھہراؤ ضرور آیا ہے اور یہ ٹھہراؤ کینڈین فیملی کے بازیاب ہونے سے نہیں آیا، کینڈین فیملی کے بازیاب ہونے پر تعریفوں کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے اس سے بہت بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔
چوہدری نثار نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قوم، حکومت، پارلیمنٹ اور دیگر اداروں نے یکمشت ہوکر پیغام دیا کہ ہم سے عزت سے بات کروں اور عزت لو، ہم مزید پاکستان کی جگ ہنسائی قبول نہیں کریں گے، یہ وہ پیغام تھا جس سے پاک امریکا تعلقات میں ٹھہراؤ آیا، اب حکومت کا فرض ہے اس اتحاد و اتفاق پر قائم رہے، پارلیمنٹ اور تمام ادارے ساتھ دیں، آپ اتحاد کا مظاہرہ کریں گے تو یقین ہے ملک کے خلاف عزائم اپنی موت خود مر جائیں گے۔
(ن) لیگ کے رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کا بھارت سے دوستیاں بڑھانا اچھا نہیں لگتا جس کا اظہار کرتا ہوں، مودی کے دور حکومت میں پاکستان کو بھارت سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، جس شخص کا ایجنڈ اسلام اور پاکستان دشمنی ہو اس سے خیر کی توقع کیے جانا ہی اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ میانمار میں ہزاروں مسلمانوں کے گھر جلائے جارہے ہیں، ان کو نیست و نابود کیا جارہا ہو اور عین اس موقع پر دنیا جہاں مذمت کررہی ہے وہاں ایک بھارت کا وزیراعظم یکجہتی کا اظہار کرنے میانمار پہنچا تو اس سے اور بڑا اظہار کیا ہوسکتا ہےکہ ایسے شخص سے خیر کی توقع رکھی جاسکتی ہے، میں نے نہ پہلے رکھی نہ اب رکھتا ہوں، ہمیں کسی سے لڑنا نہیں لیکن اپنی قوت اور بازو پر یقین ہونا چاہیے۔
سابق وزیر داخلہ نے سینئر صحافی احمد نورانی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جس نے یہ حملہ کیا وہ یہ سمجھنے سے عاری ہےکہ ایسے حملوں سے آوازیں دبتی نہیں زیادہ متحرک ہوکر بولتی ہیں، یہ حملہ ایک شخص پر نہیں بلکہ آزای اظہار رائے پر حملہ ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ میڈیا کے لوگوں کو مکمل تحفظ دیا جائے بلکہ اس واقعے کی تہہ تک پہنچ کر ان لوگوں کو پورے ملک کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔