وطنِ عزیز کے صوبہ خیبر پختون خواہ کی سر زمین کو دنیاے علم و تحقیق اور شعر و ادب میں ایک منفرد ،نمایاں اور ممتاز مقام ،شہرت و اہمیت حاصل ہے ۔ فکرو دانش سے معمور و مزین اس زرخیز و شاداب خطہ نے نہ صر ف پشتوزبان و ادب کی کئی قد آور ،نابغہ روزگار و مدبر شخصیات پیدا کیں بل کہ اُردو زبان کے بہت سے نامور مفکرین ، جیّد شعراء ،جلیل القدر نقاد اور بلند پایہ اکابرین ِادب کی جنم بھومی ہو نے کا اعزاز بھی اس دھرتی کو حاصل ہے ۔ اس ضمن میں خوشحال خان خٹک ،رحمٰن بابا ،غنی خان ،احمد ندیم قاسمی ،احمد فراز، امیر حمزہ خان شنواری ،اجمل خٹک ،دوست محمد خان کامل مومند و قلندر مومند و غیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔اسی فہرست میں جو کسی طرح بھی مکمل نہیں،ایک ناقابل فرامو ش اسم ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کا بھی ہے ۔ ڈاکٹر اباسین یوسف زئی پشتو اور اُردو ادب کی معروف شخصیت ہیں۔ادب کی مختلف اصناف میں اُن کی تخلیقات تشنگانِ علم کے لیے سیرابی کا فریضہ انجام دے رہی ہے ۔پشتو ادب کے روایتی امین ، ڈاکٹر اباسین کا اصل نام “مسلم شاہ “ہے ۔
وہ 19فروری 1964ء کو خیبر پختون خواہ کے ضلع دیر پائین کے مضافاتی علاقہ “خان پور “میں ملک برادر خان کے ہاں پیدا ہو ئے ۔ ابتدائی تعلیم آبائی گائوں میں حاصل کی ۔1980ء میں انھوں نے خان پو ر ہی کے ایک ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ایف اے 1982ء میں اسلامیہ کالج ،بی اے 1984ء میں اسلامیہ کالج پشاور سے کیا ۔ ایل ایل بی 1987ء میں لاء کالج آف پشاوریونیورسٹی سے کیا جبکہ پشتو میں ماسٹر کی ڈگری انھوں نے 1989ء میں پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی ۔2016ء میںاُن کے مقالہ “امیر حمزہ شنواری کی شاعر ی میں قومیت کا تصور ” پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی گئی۔ ڈاکٹر اباسین یوسف زئی نے 1993ء میں اپنی مادرِ علمی اسلامیہ کالج پشاور (جوکہ اب یونیورسٹی بن چکی ہے )سے بطور لیکچرر اپنے کیر ئیر کا آغاز کیا ۔ تدریسی خدمات کا یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے ۔ اب وہ شعبہ پشتو، اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے چئیر مین ہیں ۔تعلم و تدریس کے علاوہ پشتو اور اُردو زبان میں شاعری ،تحقیق و تنقید ،کالم نگاری، ریڈیو اورٹی وی پر ادبی پروگراموں کی میزبانی ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کی علمی سرگرمیوں اور ادبی جدوجہد کاعملی میدان ہے۔
علم و ادب کی ترویج و فروغ ان کی زندگی کا واحد نصب العین ہے ۔ وہ ایک ان تھک، متحرک استاد اورخوبصورت شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ دانشور ،معاملہ فہم ،منکسرالمزاج اور راست گفتار شخص ہیں ۔ خوش گفتار اور صاحبِ ذوق بھی ہیں ۔قدرت نے انھیں کمال کا حافظہ عطا کر رکھا ہے۔پشتو اور اردو زبان کے بہت سے اشعار انھیں ازبر ہیں او ر موقع محل کی مناسبت سے شعر سنانا بھی اُن کی ایک منفرد خوبی ہے ۔ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کے بقول “ان کے والد کی ادب کے ساتھ گہری وابستگی اور والہانہ لگائو نے انھیں شعر و ادب کی طرف راغب کیا۔”ماہنامہ پشتو “جسے پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی شائع کر تی تھی ان کے والد کے نام پر ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ ان کے پاس بھیجا جاتا تھا،میں بھی اس کا مطالعہ کرتا تھا ۔ اس مجلے نے میر ے ادبی ذوق اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا تو نصابی کُتب میں شامل مختلف شعراء کے کلام کو بہت ذوق سے پڑھا کرتا تھااو راپنے ہم جماعت دوستوں کے ساتھ مل کر غزلوں اور مختلف نظموں کی پیروڈی کرنا بھی میرا محبوب مشغلہ تھا ۔ شاعری میں باقاعدہ طورپر اصلاح کسی سے نہیں لی ۔ساتویں جماعت میں جب پہنچا تو شعر کہنا شروع کیے ۔ بعد میں پشتو زبان کے معرو ف او ر مقبو ل شاعر قلند رمومند کی (پشتو )ادبی تنظیم “دساھو لیکونکیومرکہ”(سُچے لکھاریوں کی بیٹھک ) میں ،مَیں خاصا متحرک رہا اور اس تنظیم کے زیر اہتمام ہو نے والی ادبی تقریبوں اور مشاعروں میں شریک ہوتا تھا۔ اس ادبی پلیٹ فارم سے مجھے اپنے سینئر اور ہم عصر ادباء اور شعراء سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا”۔
پشتو زبان و ادب میں ڈاکٹر اباسین یو سف زئی کا مقام اور حیثیت مسلمہ ہے ۔ وہ عصر حاضر کے منتخب اور نمائندہ پشتون ادباء اور شعرا ء کی صفِ اول کی شخصیات میں شمار ہو تے ہیں ۔
پشتو کے معروف شاعر اور دانشور عاقل آفریدی ان کی شاعری اور فنی صلاحیتوں کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں “اباسین یوسف زئی کی شاعری میں سب سے نمایاں رنگ محبت کا ہے۔ محبت انسانیت کی معراج ہے او ر یہ محبت اور معراج اباسین کی غزل کی معراج ہے ۔ اباسین یوسف زئی کے لیے “حمزہ بابا “کی یہ بات سب سے بڑی حیثیت اور سند ہے کہ “اباسین(پشتو)غزل کا استاد شاعر ہے”۔
ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کا شاعری میںاصل میدان تو پشتو زبان ہے لیکن وہ اردو زبان میں بھی بہت خوبصور ت اشعار کہتے ہیں ۔
ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کا شعری مزاج اُن کے تخلیقی شعور کے ترفع ، فکری بالیدگی اور گہری شاعرانہ بصیرت کا نمایاں مظہر ہے ۔ بلاشبہ ان کے اشعار میں تاثیر کا وہ گداز ہے جو زیست کو توانائی دیتا ہے ۔
یقیناََ یہ بھی ان کی تخلیقی ہنر کاری اور فنی دسترس کی نظیر ہے کہ قدرے عام بات کو بھی ان کے اسلوب کی خوبی ایک نئے آہنگ اور تاثیر سے روشناس کرتی ہے ۔
ان کا ادبی سفر 44برس کو محیط ہے ۔ حکومت پاکستا ن انھیں ان کی علمی و ادبی خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارگردگی عطا کر چکی ہے۔ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کی ایک انقلابی نظم “احتجاج “کے عنوان سے ہے۔اس نظم کو معروف پشتو گلوکارہارون باچانے گایا۔یہ نظم ،خیبر پختون خواہ کے علاوہ جہاں ،جہاں پشتو ،سنی اور بو لی جاتی ہے وہاں بے حد مقبولیت حاصل ہے ۔ہارون باچا کے علاوہ پشتو کے نامور گلوکاروں جن میں گل پانڑہ ،کرن خان ،نغمہ ،اسلم سالک ،استاد شاہ ولی ،قمر گلہ وغیرہ نے بھی ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کے لکھے ہوئے گیتوں،نظموں،غز لوںاورکلا م کو ترنم کی آوازمیں ڈھالا ہے۔پاکستان کے پختون گلوکاروں کے علاوہ افغانستان کے مختلف نامور گلوکاروں نے بھی ان کے گیت اور غزلیں گائی ہیں،جنھیں بے حد پزیرائی ملی ۔ 2018ء میں افغان حکومت نے ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کوپشتو اد ب کی خدمات پر صدرارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارگردگی سے نوازا۔ ڈاکٹر اباسین یوسف زئی پشتو اور اردو زبان وادب میں ایک درجن کے قریب کتابیں تخلیق کر چکے ہیں ،جن میں پشتو شاعری ،نثر، اردو نثرو تراجم شامل ہیں۔
ان کا پہلا پشتو شعری مجموعہ “غورزنگونہ”(امواج مست)1994ء میں پہلی بار شائع ہوا او بربے پناہ مقبولیت کی بنا پر، اب تک اس کے10 ایڈشن شائع ہو چکے ہیں۔ دوسرا شعری مجموعہ”الوت”(اُڑان)2004ء میں شائع ہوا ، جس کے 5ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔(مذکورہ دونوں شعری مجموعے پشتو شاعری کے میدان میں رائج اکثر ادبی اعزازات حاصل کر چکے ہیں )ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کا تیسرا شعری مجموعہ “مرام”(مشن)2016ء میں شائع ہوا ۔ ان کی دیگر معروف کتب میں-1 “روح نامہ” 2002ء (پشتو ترجمہ ) -2زیتون بانو ،شخصیت اور فن 2008ء (اردو،تحقیق و تنقید) اکادمی ادبیات پاکستان نے اس کتاب کو شائع کیا-3 خطباتِ امام خطاب 2010(پشتو ترجمہ)-4سڈاکوزپرے یر 2012ئ(پشتو ترجمہ)-5 انڈر سٹینڈنگ فاٹا 2012ء (پشتو ترجمہ)-6 دپختونخوابانی2016ء -7پختون حمزہ 2018ء شامل ہیں۔
ممتاز پختون ادیب، اندیش شمس القمر، ڈاکٹر اباسین یو سف زئی کی شاعری کو خوبصورت الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہو ئے لکھتے ہیں “اباسین نا صرف جواں زندہ جذبوں، ولولوں اور ارمانوں کا بے دار ،زیرک اور حساس شاعر ہے بل کہ ساتھ ساتھ وہ اپنی مادری زبان کا عالم بھی ہے۔پشتو کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟پشتونوں پر کیا گزرتی ہے؟ان سوالات کے جواب سے وہ اور ان کافن غافل نہیں۔ہم دیکھتے ہیں انھو ں نے پنے مشاہدے کے سارے تماشے ،اپنے تخیل کے خوبصور ت رنگ ،بیان اور اظہار کے تمام ہنر اور اپنی گہری اورپختہ فکر کے پھول ہر لحاظ سے پشتو کو پیش کیے ہیں۔ڈاکٹر اباسین نے اپنی شاعری میں پر کشش الفاظ کے چنائو سے لے کر تراکیب کے ایک جدید رنگ و ترنگ کے ساتھ ایک نئے انداز میںاپنے خیال و فکر کے موتی پروئے ہیں”۔ ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کے پشتو زبان میںلکھے گئے ان خوبصورت مقبولِ خاص و عام اشعار کے ساتھ اختتام: