تحریر : مسز جمشید خاکوانی آج ایک تصویر دیکھی آرمی چیف جنرل قمر جاید باجوہ کی پشتون قبائلی عمائدین کے ہاتھوں میں ہاتھ لیے جن کے چہرے پر مسرت تھے ایک سچی مسکراہٹ چیف کے چہرے پر روشنی کی طرح پھیلی ہوئی ہے بد خواہ اس تصویر پر بھی اپنے دل کا غبار نکال رہے ہیں لیکن یہ تصویر اس جھوٹے پراپیگنڈے کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے جو شد و مد سے اس تاثر کو پختہ کرنے میں مصروف ہیں کہ پشتون فوج کے خلاف کھڑے ہیں جو پہلے بلوچستان میں برسوں تک ڈرامہ رچایا گیا اب وہاں سے منہ کالا ہونے کے بعد ایک نیا فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سلسلے میں مجھے ایک بلوچ کا خط بھی ملا تھا جو اس نے مسنگ پرسنز کے حوالے سے سازش سے پردہ اٹھایا تھا بکائو میڈیا ایک عرصے تک مسنگ پرسنز اور ماورا ئے عدالت قتل کے الزام فوج پر ڈال کر اپنا چورن بیچتا رہا جس وقت اس بلوچ نے مجھے خط لکھا تب وہ حالات تھے کہ کوئی اس سازش کے خلاف بات سننے کو بھی تیار نہیں تھا لیکن میں نے پھر بھی اس پر کالم لکھا جو سچ ٹی وی نے چھاپا افسوس طلعت حسین صاحب جب شریفوں کے لڑ لگے تو وہ سچ چھاپنے والی سائٹ ہی بند کر دی گئی اس بلوچ نے لکھا تھا میری اور میرے جیسے سینکڑوں بلوچوں کی زندگیا مسنگ پرسن بن کر پہاڑون میں چھپے گذر گئیں کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی اگر پہاڑوں سے اتر کر زندگی کے دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو مار کر اس کی لاش مسخ کر دی جاتی ہے اور ہمیں کہا جاتا ہے اس کا پراپیگنڈا فوج کے خلاف کرو سارا ملبہ فوج پہ ڈالو ہم میں سے بہت سے لوگ اس زندگی سے تنگ آکر مارے جا چکے ہیں۔
کچھ انڈیا چلے گئے ہیں ہم نے اپنی جوانیاں ان کی غلامی میں پہاڑون میں سعوبتیں کاٹتے گذار دیں ہمارے آگے بھی موت ہے پیچھے بھی موت ہے لیکن ہم سے کام لینے والے انڈیا ،برطانیہ اور سوئزرلینڈ میں عیاشیاں کر رہے ہیں وہ ایسا کڑا وقت تھا جس کو صرف میڈیا ،سیاستدان،اور ملک دشمن عناصر کیش کروا رہے تھے اتنے برسوں بعد بلوچستان کے لوگوں پر سازش کھلی اب وہ چورن بکنا بند ہوا ہے تو ایک نیا محاذ کھل رہا ہے اس قوالی پر ہمنوا اکھٹے کیے جا رہے ہیں یہاں میں ایک پشتون کی تحریر سامنے لانا چاہتی ہوں اس کو پڑھ لیں پھر بات آگے بڑھے گی ۔۔۔۔ ولی اللہ وزیر نامی یہ نوجوان لکھتا ہے میں جنوبی وزیرستان وانا (اعظم ورسک) سے تعلق رکھتا ہوں اب میں مستقل طور پر لکی مروت میں رہتا ہوں میرے پاس لکی مروت کا شناختی کارڈ ہے لیکن وزیرستان میں بھی میرا زمین ہے جب گرمی کا موسم آتا ہے تو ہم وزیرستان کا رخ کرتے ہیں اور تین مہینے ادھر ہی آرام سے گذارتے ہیں لیکن میں خود کبھی کبھار جاتا ہوں بچپن میں بہت دفعہ وزیرستان گیا ہوں لیکن بعد میں تعلیم کی وجہ سے نہ جا سکا۔
جب میں ڈومیسائل بنوانے کے لیے 2006میں وزیرستان گیا تو اس وقت میں چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا تب جب میں وزیرستان گیا تو ایک دہشت کا بازار گرم تھا ہر آدمی کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھا چھوٹے چھوٹے طالبان کے گروہ بنے ہوئے تھے ازبک دندناتے پھرتے تھے تاجک ،ترکمانی اور یمن کے کافی لوگ آباد تھے جو جو کہ طالبان سے تعلق رکھتے تھے وزیرستان کے لوگوں نے بہت گہرا تعلق ان لوگوں سے بنا رکھا تھا اور بعض لوگوں نے تو ازبک کے ساتھ رشتہ داریاں بھی قائم کر لی تھیں ازبک اپنے آپ کو بہت بڑے اسلامی ٹائپ کے لوگ ظاہر کر رہے تھے اور وزیرستان کے لوگوں کا ان پر پختہ یقین تھا وہ سمجھتے تھے یہ لوگ حق پر ہے اور ان کے مخالف گمراہ ہیں وزیرستان کے لوگوں نے ان ازبک غریبوں اور تاجک لوگوں کے لیے اپنے گھر اور حجرے خالی کر دیے ان کو رہن سہن کے لیے جگہ دیا بدلے میں انہوں نے ان پر پیسوں کی بارش کر دی کیونکہ ان کے پاس کافی دولت تھی اور ہمارے لوگ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے جب یہ ازبک وزیرستان کے لوگوں کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو گئے اور ان کو یقین ہو گیا کہ اب یہ لوگ ہم پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ ہم لوگ حق پر ہیں تو پھر ان لوگوں نے غنڈہ گردی شروع کر دی اور لوگوں سے بھتہ لینا شروع کر دیا اور بازار میں اپنے قوانین بھی لاگو کر دیے اس اثنا میں وزیرستان کے بعض مشران نے بغاوت کر دی وزیرستان کے لوگ دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔
ایک گروپ ازبک کے ساتھ ہو گیا اور دوسرا اس کا مخالف ہو گیا اب ان کے درمیان جنگ چھڑ گیا جو بھی ازبک کے خلاف بغاوت کرتا یہ اس کو زبح کر دیتے اس طرح وزیرستان کے لگ بھگ 150مشران کو انہوں نے شہید کر دیا اور اس وقت ”تورا غوگئی ” پر مشہور گاڑی ہوا کرتی تھی یہ گاڑی جس کو اٹھاتا سمجھ لیا جاتا یہ قتل ہو جائے گا یہ قتل عام شروع تھا اور اس میں وزیرستان کے لوگ شریک تھے جن لوگوں نے گھر دیے تھے اور رشتے کیے تھے آخر کار قوم نے ان کے خلاف متفقہ فیصلہ کیا کہ اس کے خلاف جنگ لڑا جائے پھر اس میں نظیر گروپ اور آرمی نے بھی ساتھ دیا اور ان ازبک کو چن چن کر قتل کیا اور جو وزیرستانی ازبک کے ساتھ ملے ہوئے تھے وہ افغانستان ،محسود اور میران شاہ فرار ہو گئے اور ان لوگوں کا وزیرستان داخلہ ممنوع ہو گیا اس لڑائی میں پاک فوج نے قوم کا بہت ساتھ دیا ورنہ ان کو نکالنا ممکن نہ تھا جب یہ علاقہ کلیئر ہو گیا تو نظیر گروپ نے جنوبی وزیرستان ،وانا کا کمانڈ سنبھال لیا اور اس نے کسی قسم کا بھی ظلم عوام کے ساتھ نہیں کیا یہ عوام کا خیرخواہ تھا اور ہمیشہ اس کا ٹارگٹ افغانستان میں کاروائیاں تھیں اور ساتھ ساتھ اس کا تحریک طالبان کے ساتھ بھی لڑائی چل رہی تھی اور اس نے اعلان کیا تھا تحریک طالبان کا داخلہ وزیرستان میں ممنوع ہے کافی عرصہ وہ وانا کی کمانڈ سنبھالے رہے لیکن ایک دن اس کو ڈرون حملے میں مار دیا گیا (یہاں آپ امریکہ کے کردار کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ امن ان کو کتنا برا لگتا ہے اور ان کے پالے کتے پاکستان کا امن تباہ کریں تو ان کے لاڈلے ہو جاتے ہیں اور کوئی ان کو نکیل ڈال دے تو اس کو ڈرون حملے میں مار دیتے ہیں )بحرحال آگے یہ نوجوان لکھتا ہے جب میں دوبارہ دس سال بعد 2016میں وزیرستان گیا تو مجھے حالات بالکل مختلف دکھائی دے رہیکشادہ سڑکیں ،پل اور کالجز بنے ہوئے تھے اسٹیڈیم اور ہسپتال بھی بنے ہوئے تھے۔
ایک امن کا ماحول بنا ہوا تھا اور وزیرستان کے لوگ مجھے ماڈرن اور خوشحال دکھائی دے رہے تھے میں تو خود سوچ میں پڑ گیا کہ دس سال پہلے کیسا ماحول تھا ہر کسی پر وحشت طاری تھی قتل و غارت کا بازار گرم تھا ہر کوئی شام کے وقت اپنے گھروں کے دروازے بند کر لیتا تھا لیکن اب ہم راتوں کو دور دور جاتے اور گپ شپ لگاتے پہاڑوں کا سیر کرتے میں نے وزیرستان کو پر امن علاقہ دیکھا جو دس سال پہلے نوگو ایریا تھا اور جہاں کسی کا جانے کو دل نہیں کرتا تھا شمسی ٹیوب ویل اور ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویل بھی لگے ہوئے تھے بڑے بڑے بغات تھے ہر کسی کا اچھا سا کاروبار چل رہا تھا کسی قسم کا خوف نہیں تھا اور ہر کوئی اپنے کام میں مصروف تھا دوسری بات جو میں نے نوٹ کی کہ وزیرستان کلاشنکوف پر مشہور ہے کہ ہر کسی کے پاس کلاشنکوف ہوتا ہے لیکن اس بار میں حیران ہو گیا کہ کسی ایک شخص کے پاس بھی کلاشنکوف نہیں دیکھا ہاں البتہ ان لوگوں کے پاس تھیں جن کی ذاتی دشمنیاں چل رہی ہیں پھر ایک دن میں دوستوں کے ساتھ افغانستان بارڈر پر چلا گیا جس کو انگور اڈہ کہتے ہیں جس پر پاکستان اور افغانستان کا تنازع چل رہا ہے راستے میں کوء ی بھی مشکل کا سامنا نہیں ہوا یہ جو لوگ کہتے ہیں جگہ جگہ پر آرمی چیکنگ کرتے ہیں اور تنگ کرتے ہیں تو یہ سب جھوٹ ہے من گھڑت باتیں ہیں انگور اڈہ پہنچ کر ادھر آرمی کے جوانوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہمیں بریف کیا کہ پاکستان کا اس مقام پر مورچے اونچائی پر ہیں اور افغانستان بالکل نیچے ہے تو انہوں نے ہمیں ٹی ٹی پی کے وہ کیمپس بھی بتائے کہ کن کن جگہوں پر یہ رہتے ہیں اور کون لوگ ان کو ٹریننگ دیتے ہیں۔
اگر ان باتوں پر کسی کو اعتراض ہے تو میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ سامنے آئیں اور مجھ سے بات کریں لیکن صرف وزیرستان کے لوگ جن کو اور اپنے علاقے کو میں اچھی طرح جانتا ہوں میں وانا اور وزیرستان کے متعلق ہر معلومات دے سکتا ہوں یہ ولی اللہ وزیر کی بیان کی گئی حقیقت یا کہانی جو میں نے اپنے الفاظ میں لکھ دی ہے بہت معمولی فرق تھا جس طرح پٹھان لکھتے ہیں ،مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ وزیرستان کی نئی نسل کافی با شعور ہے لوگ صحت مند،خوش شکل اور تعلیم حاصل کرنے کے بہت شوقین ہیں ان کو گندی سیاست میں الجھانے سے بہتر ہے ان کو پرامن ماحول دیکر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے ”پشتون تحفظ موومنٹ ” کے نام سے ایک نیا فتنہ سر اٹھا رہا ہے جس کے لیے لوگ پھر تقسیم ہو رہے ہیں اس کے پیچھے وہی کالی بھیڑیں ہیں جو قوم کو تقسیم کر کے ان پر حکومت کرتی ہیں صدیوں کی غلامی اور محکومی کو ان کا مقدر نہ بننے دیں اور اس پر جلدی ایکشن لیں۔