تحریر : سلطان حسین گذشتہ روز پختون دہشت گرد ہیں؟ کے میرے کالم کے حوالے سے میرے پنجاب کے ایک محترم بھائی عمر اعظم جو ایک ایک وئب سائیڈ سے بھی منسلک ہیں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنا ردعمل بھیجا ہے جس میں وہ لکھتے ہیںمحترم سلطان حسین بھائی آپ کی تحریر کو میں نے بڑے دکھ اور تشویش کے جذبات کے ساتھ پڑھا ہے کاش ہم ایک دوسرے کے دست و گریباں ہو کر دشمن کو اس کی ناپاک سازشوں میں کامیاب ہونے کا موقع نہ دیں میں پنجاب کا باسی ہوں، میں جانتا ہوں کہ عام پنجابی اپنے ملک کے کسی بھی فرد سے لسانی یا علاقائی بنیاد پر نفرت یا بر تری کا جذبہ ہر گز نہیں رکھتا حقیقتاََالمیہ یہ ہے کہ ہم ایک انتہائی جذباتی قوم ہیں۔اکثر جذبات کا اظہار پہلے کر دیتے ہیں سوچتے اور حقائق کا جائزہ بعد میں لیتے ہیں ۔یہی وہ خامی ہے جو ہمارے دشمنوں کو مہلک وار کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس المیے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ مفاد پرست لوگ اور گروہ اپنی منفعت کے لئے قوم و ملک کو دا پر لگانے کے در پے رہتے ہیں۔
ماضی ہمارے سامنے ہے، سیاست دان ہوں یا ادارے ملک کو کبھی مقدم نہ رکھ سکے جس کے باعث ہم اپنے ایک بازو سے محروم کر دئیے گئے ہم سب کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ کرہ ارض پر ہماری جائے پناہ اور گوشہ عافیت پاکستان ہی ہے اگر آج ہم تقسیم در تقسیم ہو کر خدانخواستہ اس قدر کمزور ہو گئے کہ ہمارا اندرونی اور بیرونی دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گیا تو ہم نہ صرف اپنے آپ سے بلکہ اپنی آئندہ نسلوں سے بھی غداری کے مرتکب ہوں گے اللہ ہمیں عقل و شعور کی نعمت سے نوازے آمین۔یہاں میں آپ جیسے ذی شعور اور محب وطن شخص سے درخواست کروں گا کہ جہاں تک ممکن ہو ان نفرتوں کے دہکتے الا کو اپنی محبت اور آگہی کے عرق سے ٹھنڈا کرنے کی سعی کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں۔آپ کی تحریرنے جہاں بے حد مضطرب کیا وہیں آپ کی تحریر کے آخری حصے نے امید کا دیا بھی روشن رکھا آپ کے مندرجہ ذیل الفاظ بڑے حوصلہ افزا رہے۔”افسوس کہ ہمارے بڑوں نے تاریخ سے کچھ بھی نہیں سکھا ۔۔یا ۔۔وہ صرف اپنے مفادات کے لیے کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتے اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے ‘نفرتیں پھیلاکر دشمن کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کی بجائے بعض قوتوں کے عزائم کو محسوس کرتے ہوئے مل کر دہشتگردی کے اس عفریت سے نجات کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت نفرتیں پھیلانے سے حاصل نہیں ہوگی اس نازک صورتحال میں وقت کے نبص پر ہاتھ رکھ کر مل کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے آخر میں ایک شاعر کی بات پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
میں سادہ سا پختون ہوں دہشت گرد نہیں ہوں۔ایذا دے دوں ا وروں کو ایسا مرد نہیں ہوں۔کٹتا مرتا، گرتا ، اٹھتا رہتا ہوں پر۔لڑتا جاتا ہوں میں سہما زرد نہیں ہوں۔تیرے شہر میں بھی جب لاشیں گرتی ہیں تو۔روتا ہوں میں بے حس اور بے درد نہیں ہوں۔اپنی محنت سے یہ ثابت کر تا ہوں کہ۔جاتے وقت کے پیچھے اڑتی گرد نہیں ہوں۔میرا دشمن کیونکر مجھے مٹا پائے گا۔اک زندہ تہذیب ہوں، تنہا فرد نہیں ہوں۔”اللہ آپ کو خوش رکھے اور ہم سب میں بھائی چارہ برقرار رہے آمین ۔محترم عمر اعظم بھائی آپ نے جس دکھ اور تشویش کا اظہار کیا ہے میں اس سے سو نہیں بلکہ ایک سو ایک فیصد متفق ہوں یہی دکھ اور تشویش میرے کالم کا موضوع تھا یہ الفاظ نہیں بلکہ ہر محب وطن کے دل کی آواز ہے یہ ملک ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے اس کے لیے ہمارے بزرگوں نے بڑی قرنیاں دی ہیں ہمارے بھائی اس کے لیے کٹ مرے ہیں ہماری سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ماؤں’ بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں اس وطن کے لیے تار تار ہوئیں ہیں ہماری کئی بیٹیوں کو ہندو وںاور سکھوں نے اغواء کرکے رکھیل بنایا جن کی نسلیں آج بھی بھارت میں موجود ہیں خون کی ندیاں بہانے اور اتنی قربانیوں دینے کے باوجود بھی جب یہ ملک قائم ہوا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے اس کی شناخت ہوئی تو ہمارے بڑے بجائے اس کے کہ وہ اس قوم کو ناقابل تسخیر قوم بناتے اپنے مفادات کے لیے اس کے قیام کے ساتھ ہی محلاتی سازشوں میں لگ گئے اقتدار کی ہوس نے ہمارے ان بڑوں کو اندھا کر دیا تھااور اقتدار کی اسی جنگ نے ہمیں 71میں دنیا کے سامنے رسوا کیا لیکن پھر بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور اسی طرح اپنی دنیا میں مگن رہے اور اب بھی ہیں۔
Terrorists
آج کی سیاسی چپقلش ہم سب کے سامنے ہے جو اس ملک و قوم کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے ہمارے موجودہ سب بڑوں نے بھی اپنے سابقہ بڑوں کی محلاتی سازشوں کی روایت برقرار رکھی ہوئی ہے اور اسی روایت کو لے کر وہ آگے بڑھ رہے ہیں آج بھی اقتدار کے ایوانوں میں وہی ہلچل ہے جو اس سے پہلے تھی کل بھی ذاتی مفادات کی جنگ تھی آج بھی ذاتی مفادات کی یہ جنگ جاری ہے اقتدار سے جو باہر ہیں وہ ایونوں تک پہنچنے کے لیے سرگرداں ہیں اور جو اندر بیٹھے ہیں وہ اندر سے نہ نکلنے اور اپنے ارادوں کے دوام کے لیے منصوبے بنارہے ہیں ”دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ” صرف اپنی برتری کے لیے ۔کوئی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کررہا کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ جس دشمن نے ہمیں دل سے تسلیم نہیں کیا تھاوہ ہمیں مٹانے کے درپے ہے اور اس کے لیے اب بھی وہ منصوبے بنارہا ہے جسے ناکام بنانے کے لیے ہمیں آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا چاہیے لیکن بجائے مل بیٹھ کر ملک و قوم کو آگے لے جانے کے ہمارے بڑے اپنے ارادوں اور عزائم کی تکمیل کے لیے سب کچھ کر گزرنے کے درپے ہیں اس میں کسی سندھی بلوچی پنجابی یا پختون کے ارادوں کا عمل دخل نہیں ایلیٹ کلاس کا یہ بڑا طبقہ ان سب کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر ان کو کچلتا ہوا آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے ان کا اپنا ہی کھیل ہے جو وہ کھیل رہے ہیں جس کے لیے وہ اپنی حدیں بھی کراس کر رہے ہیں اور عام سندھی بلوچی پنجابی اور پختون بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
کوئی سندھی ‘ بلوچی ہو یا پختون ‘پنجابی یا قبائلی ان کی قومیت اپنی جگہ لیکن یہ سب پاکستانی ہیں ‘پاکستان ان سب کی پہچان ہے نہ کہ خیبر پختونخوا’ بلوچستان ‘ سندھ یا پنجاب ۔ دنیا ان سب کو پاکستانی کے نام سے پہچانتی ہے اور یہ سب اپنی اس پہچان پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں پاکستان میں جتنی بھی قومیتیں ہیں ان کی محب الوطنی کا اس سے زیادہ اور ثبوت کیا ہوگا کہ جب بھی کسی صوبے میں کوئی قدرتی آفات آتی ہے تو سب صوبے ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں اس وقت کوئی سندھی ‘ بلوچی ‘ پنجابی یا پختون نہیں ہوتا سب خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں ساتھ دیتے ہیں اگر خون کی ضرورت ہو تو رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر نوجونوں کی بلڈ بینک کے سامنے قطاریں لگ جاتی ہیں ۔ کرکٹ میچ ہوتا ہے تویہ سب اپنے ملک کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوتے ہیں اور پاکستان کی کامیابی کے متمنی ہوتے ہیں ایسا کیوں ہے ؟صرف اس لیے کہ وہ پاکستان کو ہی اپنی پہچان سمجھتے ہیں سب ہی اس ملک کی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔
دشمن نے تفرقہ ڈالنے کی بڑی کوشش کی لیکن سب نے مل کر دشمن کی ان چالوں کو ناکام بنایا کیوں ؟؟ کیونکہ وہ خود کو ایک سمجھتے ہیںایک دوسرے سے الگ نہیں لیکن سب سے زیادہ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ عام پاکستانی تو دشمن کی چالوں کو ناکام بنا رہا ہے جبکہ اس ملک کے بڑے ہونے کے دعویدار دشمن کی چالوں اور ارادوں کو تقویت پہنچا رہے ہیں اور میں نے اپنے اسی دکھ کا اظہار اپنے کالم میں کیا تھا سوال یہ ہے کہ اب اس صورتحال سے کیسے نکلا جائے ہمارے بڑے ناسمجھی میں اپنے مفادات کے لیے دشمن کے ارادوں کو جو تقویت پہنچا رہے ہیں اس سے کیسے نمٹا جائے یہی وہ بات ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے اس کی واحد صورت یہی ہے کہ ہم سب چاہے وہ سندھی ہو بلوچی ہو پنجابی ہو یا پختون ہو اپنے ایسے بڑوں کے ان عزائم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنی ہیں اور انہیں ناکام بنانا ہے یہ سب کام ہم نے ہی کرنے ہیں ہمارے لیے کوئی باہر سے یہ کام کرنے نہیں آئے گا دعا ہے کہ اللہ ہمیں ایماندار ملک و قوم سے مخلص ‘ نیک اور صالح قیادت دے آمین لیکن اس کے لیے ہمیں صرف دعاؤں پر ہی تکیہ نہیں کرنا دعاؤں کے ساتھ دواؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے تب ہی اللہ شفا دیتا ہے یعنی ہمیں عمل بھی کرنا ہو گا۔