ہم اپنے گذشتہ دو کالموں میں دہشت گرد تنظیموں ،جن میں پشتون زلمے، تحریک طالبان پاکستان،جیئے سندھ اور ایم کیو ایم شامل ہے تجزیہ پیش کر چکے ہیں ۔اس کالم میں صوبہ بلوچستان کی اہمیت کی وجہ سے صرف بلوچستان لبریشن آرمی علیحدگی پسند بلوچوں پر بات کریں گے۔ کسی اور وقت آخری کالم میں پشتون تحفظ موومنٹ کی جاری تحریک پر تجزیہ پیش کریں۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت اور قوم پرست افغانستان کی مدد سے بلوچستان میں چار مزاحمتی تحریکوں پر پہلے بعث کرتے ہیں۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعدقلات ،مکران،خاران اور بلوچستان کے دوسرے علاقے قائد اعظم کی کوششوں سے آزادانہ طریقے سے پاکستان میں شامل ہو گئے تھے۔ ریاست قلات کی کہانی کچھ اس طرح ہے جو خان آف قلات نے اپنے کتاب میں بیان کی ہے۔ریاست قلات کے خان اعظم خان احمد یار خان کی کتاب ”قوم بلوچ اور خوانین بلوچ”میں ان کے بیان کے مطابق ٤اگست ١٩٤٧ ء کو پاکستان اور ریاست قلات کے مابین تاریخی معاہدہ جاریہ پر دستخط ہوئے۔ جسے ١ ١ اگست کو ایک اعلانیہ کی صورت میں نشر کیا گیا ۔یوں ریاست قلات ١٤اگست١٩٤٧ء پاکستان کے وجود میں آنے سے دس روز قبل ہی پاکستان کا حصہ بن گئی تھی۔ پاکستان دشمنی میں جب٢٧ مارچ ١٩٤٨ء کو آل انڈیا ریڈیو سے شرانگیز خبر نشر ہوئی کہ ”دوماہ پیشتر قلات نے حکومت ہند سے الحاق کی درخواست کی تھی۔ کیونکہ قلات ثقافتی اور جغرافیائی طور پر ہندوستان کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں رکھتا اس لیے حکومت ہند نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا” خان اعظم خان احمد یار خان بلوچ نے کہا میں نے اس پر سخت احتجاج کیا اور پنڈت نہرو نے بھارتی پارلیمنٹ میں ا ظہار افسوس کرتے ہوئے اس کوغلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا ۔ پھرمیں نے مصلحت وقت کے پیش نظر کراچی جا کر ٣٠ مارچ ١٩٤٨ء کو بلوچ کنفیڈریسی کی طرف سے الحاق نامہ پر دستخط ثبت کر دیے۔ میں اپنی قوم کا احسان مند ہوںکہ انہوں نے میرے اقدام کو خاموشی سے قبول کر لیا میرے احترام میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی”
پہلی مزاحمت کی کہانی کو علیحدگی پسند بلوچوں نے الٹ کر اس رنگ میں بیان کیا۔ ریاست قلات میں پہلی مزاحمت اُس وقت شروع ہوئی جب پاکستان نے ١٩٤٨ء اندر آرمی بھیجی۔ پھر خان آف قلات سے ذبردستی الحاق کامعاہدہ کیا گیا۔جبکہ خان آف قلات نے قاعد اعظم کے ساتھ پاکستان بننے کے ١٠ دن پہلے پاکستان سے الحاق کا معاہدہ کیا تھا۔خان آف قلات کے بھائی پرنس عبدالکریم ذاتی مفادات کے لیے پاکستان کے خلاف مزاحمت کی۔مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوئے اُسی دوران بھاگ گئے۔
افغانستان میں پناہ لی۔ اب شاید لندن میں مقیم ہے۔
دوسری مزاحمت ،علیحدگی پسند بلوچوں کے مطابق جب١٩٥٨میں پاکستان میں ون یونٹ قائم کیا گیا تو نواب نیروز خان نے ون یونٹ کے خلاف گوریلہ جنگ شروع کی اس وجہ سے ان کو اور ان کے بیٹوں اور بھتیجوں کو بغاوت کی وجہ سے پھانسی دے دی گئی۔بغاوت تو یہی انجام ہوتا ہے نا ۔ پھر ذاتی مفادات ،سوئی گیس کی ریائلٹی کے لیے١٩٦٣ء میں نواب شیر محمد بجارانی،مینگل، مر ی اوربگٹی ایریا میں مزاہمت شروع کی۔حکومت پاکستان نے اپنے ملک کو مضبوط کرنے کے لیے ١٩٦٩ء بلوچستان کو پاکستان کاچوتھا صوبہ بنا دیا گیا۔یہ مزاحمت ١٩٦٩ ء میں ون یونٹ کے قیام تک ختم ہو گئی۔
تیسری مزاحمت ١٩٧٢ء میںاس وقت شروع ہوئی جب سردار دائود کے کی مدد سے افغانستان میں بلوچ نوجوانوں نے دہشت گردی کی ٹیرنیگ لی اور پاک فوج سے لڑنا شروع کیا ۔(حوالہ جمعہ خان صوفی صاحب کی کتاب ”فریب ناتمام”)١٩٧٣ء میںنواب خیر بخش مری نے بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ کے تحت مزاحمت میں شامل ہو گئے۔ بلوچستان میں مسلح مزاحمت بگٹی،مری ،قلات اور جھالاوان کے پہاڑوںمیں ہوتی تھی۔ اس مزاحمت کے دوران میں پاکستان کے٤٤٠ فوجی مارے گئے اور٩٠٠ بلوچ مزاحمت کار بھی مارے گئے ۔تو ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان اور بلوچوں کی کولیشن حکومت کو ختم کیا۔ ولی خان پر پاکستان کے خلاف غداری کامقدمہ قائم کیا۔ بعد میںبھٹو دشمنی میں ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے باغی ولی خان کر رہا کیا تو یہ مزاحمت بھی ختم ہو گئی۔
چوتھی اور موجودہ مزاحمت ٢٠٠٤ء میں نواب اکبر خان بگٹی اور میر بلوچ مری کی ڈکٹیٹر مشرف حکومت کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے شروع ہوئی ۔ڈکٹیٹرمشرف دور میںنواب بگٹی نے مطالبہ کیا تھا ڈاکٹر شازیہ کو فوج کے جس آفیسر نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اسے گرفتار کیا جائے۔ مشرف نے کوئی کاروائی نہیں کی اور اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ اس کی ضد اور زیادتی نے پورے بلوچستان کو آگ اور خون میں دکھیل دیا ۔اس میں سابق گورنراویس غنی صاحب کے جھوٹ اور مشرف کو غلط رپورٹس کی وجہ بھی ہے۔ اکبر بگٹی نے ١٥ نکات حکومت کے نمائندے کے سامنے رکھے۔ ٢٠٠٥ء اسی مزاحمت کے دوران حکومت پاکستان کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ سے میجر جرنل شجاعت ضمیرڈار اور ان کے ڈپٹی سلیم نواز زخمی ہوئے۔٢٠٠٦ء میں مزاحمت کاروں نے مشرف پر راکٹ حملہ کیا۔ ڈکٹیٹر مشرف نے نواب اکبر خان بکٹی کو وارنیگ دی تھی کہ ایسی جگہ سے میزائل ہٹ ہو گا کہ آپ کو خبر بھی نہیں ہو گی۔ حکومت سے مزاحمت کے دواران کاروائی میں نواب اکبر خان بگٹی مارے گئے۔ اس میں ٦٠ فوجی اور ٧ آفیسر اور کئی بلوچ بھی اس میں مارے گئے۔
برہمداغ بگٹی نے بھارت سے مدد طلب کی جو پہلے سے ہی بلوچستان میں اپنے مقاصد کے لیے مداخلت کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت نے اپنی حمایتی قوم پرست افغان حکومت میںپاکستان کی سرحد پراپنے کئی کونصلیٹ دفاتر قائم کیے ہوئے ہیں۔ وہیں سے وہ بلوچستان کے حالات کنٹرول کر رہا ہے۔ امریکہ جو افغانستان میں موجود ہے بھی اپنے مقاصد کے لیے شورش زدہ بلوچوں کی سپورٹ کر رہا ہے۔بلوچوں کا کہنا ہے ان کے سردار نواب اکبر خان بگٹی کے قاتل ڈکٹیٹر مشرف کو قانون کے حوالے کیا جائے ۔ ایک سازش کے تحت بلوچستان میں پنجابیوں ،پختونوں اور اردو بولنے غیر بلوچوں کا قتل عام بھی ہو ا۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ مچھ سے ایف سی کے ٣ مغوی اہلکاروں کی لاشیں برآمد ہوئیں تھیں۔ ان کو اغوا کیا گیا تھا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی( بی ایل اے) نے سزائے موت سنائی تھی ۔دہشت گردحکومتی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔ مزاحمت کی وجہ سے بلوچ بھی قتل ہو رہے ہیں جس کو بڑھا چڑھاکر بیان کیا جاتا ہے۔افغانستان میں امریکہ پسپائی اور چین کی گوادر میں دلچسپی نے بلوچستان کے حالات مذید خراب کر دیے ہیں۔بلوچستان لبریشن آرمی والے اور بلوچستان کے علیحدگی پسند بلوچ لیڈر، براہمداغ بگتی ، حیار بیار مری اور اس کماش کے دیگر دہشت گرد پہلے افغانستان ، پھر دنیا سے ہوتے ہوئے اب پاکستان کے ازلی دشمن بھارت میں اکٹھے ہوئے ہیں۔بھارت نے انہیں اور افغانستان کے دہشت گردوں کو ملا کر بلوچستان دہشتگردانہ کاروائیاں کر رہا ہے۔کوئٹہ میں وکیلوں ، پولیس ٹیرینیگ اسکو ل اور مزاروں پردہشت گردی کر کے سیکڑوں بے گناہوں کو شہید کیا۔ بھارت نے گوادر پورٹ کو ثبو تاژ کرنے کے لیے اعلانیہ فنڈ مختص کیے۔ گلبوشن یادیو حاضر نوی نیوی سروس پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے بلوچستان سے گرفتار کیا۔مودی نے کہا کہ بلوچستان سے مدد کے لیے فون کالیں آرہی ہیں۔ قوم پرست افغان حکومت،بھارت اور امریکا ان کی مدد کرتا رہا ہے۔
فوج کی شب وروز محنت سے پاکستان سے محبت کرنے والے غیور بلوچ جوق در جوق واپس پاکستان کے قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔ گوادر پورٹ بننے سے بلوچستان میں ترقی کے راستے کھل گئے ہیں۔اس سے بلوچستان کے لوگوں کو روزگارمل رہا ہے۔ کاکول فوجی اکیڈمی سے بلوچستان کے سیکڑوں کیڈٹوں نے تربیت مکمل کرکے فوج میں شامل ہوگئے ہیں۔ بھارت کے خلاف منہ نہ کھولنے والے نا اہل نواز شریف صاحب کی بلوچستان حکومت کے ممبران بلوچستان اسمبلی میں نوازحکومت ختم کر کے بھارت سے آنکھ سے آنکھ ملا بات کرنے والے محب وطن بلوچوں کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ آج ہی خبر آئی ہے ڈھیرا بگٹی میں ٥ دہشت گردوں کو سیکوٹی اہلکاروں نے ہلاک کر دیا اور درجنوں کوگرفتار کیا۔بھاری اسلحہ برآمند ہوا۔ سیکڑوں فراری سیکورٹی اہل کاروں سے مل گئے ہیں۔ بلوچستان کے صوبائی اسمبلی کے ممبران، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی ممبران کی حمایت سے پاکستان کی سینیٹ کا چیئر مین جناب صادق سنجرانی منتخب ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کے حالات درستگی کی طرف مائل ہیں۔ جب سے پاکستان بنا ہے ذاتی مفادات اور پیسے کے لیے پاکستان دشمنوں کے آلہ بننے والے اپنے پیش رُوں کی طرح بلوچستان لبریشن آرمی علیحدگی پسند بلوچوں بھی منہ کی کھائیں گے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمیشہ کے لیے بنا اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ انشاء اللہ۔