زمین سے چند سیکنڈ کی دوری پر ، اپنے گھروں کے دروازے پر کھڑے پیاروں کی نگاہوں میں عمر بھر کا انتظار سونپ کر جانے والے جو اب کبھی واپس نہیں آئینگے۔
کتنی بار دردو پاک کا ورد ہوا ہو گا ۔۔ کتنے استغفار گونجے ہونگے۔۔
کتنی چیخیں بلند ہوئی ہونگی ۔۔
اور پھر سب کچھ ایک دھماکے کیساتھ خاموش ہو گیا ہو گا ۔ اللہ کو ان سب کا اپنے گھروں تک پہنچنا منظور نہ تھا ۔ یہ سفر ان سب کے لیئے سفر آخر ٹہرا ۔ زندگی کی ڈور بس یہیں تک تھی ۔ نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد ۔ ہم اپنی موت کی گھڑی سے بے خبر اپنی اپنی دوڑ میں انجام سے بےخبر دوڑے چلے جاتے ہیں ۔ اور اچانک ہی زندگی کا میدان ختم ہو جاتا ہے اور موت کی کھائی ہمیں نگل لیتی ہے ۔
پی آئی اے دنیا کی وہ فضائی کمپنی ہے جس نے پہلے دنیا بھر کی کامیاب ائیر لائنز کو بہترین عملے تیار کر کے دیئے ۔ اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ۔ پھر اس کامیاب ترین ائیر لائن کو اپنوں کی کرپشن کی دیمک لگ گئی ۔ جو اس کمپنی کی ایک ایک چیز اور خدمات کو بری طرح سے چاٹ گئی ۔ ہم نے اپنے کالمز میں پہلے بھی پی آئی اے کے پھٹے پرانے جہازوں اور اس کےعملے کی بدترین “خدمات ” کا بارہا ذکر کیا ہے جو کہ اس کے مسافروں کو ہر بار جھیلنا پڑتے ہیں۔
ہمارے پائیلٹس دنیا کے بہترین پائلٹس تھے اور ہیں ۔ جن میں سے اکثریت کے پاس باقاعدہ پائلٹس کی تربیت اور تعلیمی اسناد بھی نہیں ہوتیں ۔ ( یہ ہم نہیں کہتے کچھ عرصہ قبل شائع ہونیوالے ایک رپورٹ میں درج تھا)
یہ جانے والے مسافر اور اس سے قبل جہاز کی تباہی میں شہید ہونے والے تمام مسافر وہی تھے ، جنہوں نے اپنے اسی پائلٹ کیساتھ پہلے بھی کئی بار سفر کیا ہو گا ۔ کئی بار پرسکون ہوائی سفر کیا ہو گا ۔ جہاز کے کامیابی سے زمین کو چھولینے پر شاباشی کے لیئے تالیاں بھی بجائی ہونگی۔
آج بھی اپنے گھروں سے پورے اعتماد کیساتھ اس جہاز کی ٹکٹ اپنے دستی بیگز میں رکھتے ہوئے ایک بار مسکرا کر سوچا ہو گا کہ چلو ایک بار پھر آیت الکرسی پڑھتے ہوئے پی آئی ائے کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں دیکھو منزل پر سلامت گھر پہنچتے ہیں یا پھر اخبار کی سرخیوں پر سفر کرتے ہوئے پہنچتے ہیں ۔ اس کمپنی کا کوئی ملازم غریب نہیں ہے۔ لوڈر سے لیکر مینیجنگ ڈائیریکٹر تک ۔ سبھی دونوں ہاتھوں سے اس کمپنی کی بوغیاں نوچتے ہیں اور ہڈیاں چباتے ہیں لیکن یہ کمپنی آج غریب ترین کی جا چکی ہے ۔ جس ہانڈی میں سے سالن پہلے ہی چرا لیا جائے تو وہ کبھی کسی کو پوری نہیں پڑتی ۔ یہ ہی حال پی آئی اے کی دیگ کیساتھ ہوا۔ دودھ کی دیگ تھی اور بلوں کو رکھوالی ۔ پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ایسے میں ہوا کرتا ہے ۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی تحقیقات کے نام پر کچھ اور بلے دودھ کی رکھوالی پر بٹھائے جائینگے اور ہر بار کی طرح اس بار بھی وہ تحقیقاتی ڈرامہ رپورٹ کسی اندھیرے کنویں میں پھینک دی جائے گی ۔ جس بات کو لوگوں کے غضب سے نکالنا ہو اس کی انکوائری کا اعلان کر دیجیئے ۔ عوام ٹھنڈے تو انکوائری بھی ٹھنڈی ۔۔
اس ائیر لائن پر ترس کھائیے ۔ کیا مشکل ہے ایماندار ارباب اختیارات کے لیئے کہ اسے نوچنے کھسوٹنے والوں کے مال اسباب جائیدادیں ضبط کی جائیں اور اس ائیر لائن کے نئے بہترین بیں الاقوامی میعار کے جہاز خریدے جائیں ۔ عملے کو مسافروں کے ساتھ پیش آنے کی باقاعدہ تربیت دی جائے ۔ غیر ضروری عملے کو فارغ کر کے ان مالی وسائل کو دوسرے ضروری اخراجات پر لگایا جائے۔ سیاسی بھرتیاں بند کی جائیں ۔ میرٹ پر بھرتیاں یقینی بنائی جائیں ۔ جانے والے تو واپس تو نہیں آئینگے ۔ لیکن آئندہ ایسے حادثات سے بچنے کے لیئے عملی اقدامات کیئے جائیں تاکہ عوام کا اعتماد اس ائیر لائن پر بحال ہو سکے۔