درد وچھوڑے دا حال:سچی کہانی

Pakistan

Pakistan

تحریر:شاہ بانو میر

دیارِ غیر میں بسنے والے ہیجانی کیفیت میں زندگی کی تیز ترین کاوش کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح پاکستان سے دور کسی بھی مُلک میں اپنی جگہہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں٬ اور پھر زندگی کی تمام رعنائیاں دیکھتے ہیں حتّٰی کہ عمر بِیت جاتی ہے اور صحت مند جسم زندگی کی جنگ ہار کر لاتعداد پریشانیوں کے انبار کو سمیٹ کر مکمل ساکت وجود کے ساتھ کسی نہ کسی تابوت میں کسی بُت کی طرح ساکت دکھائی دیتا ہےـ اور پھر عازمِ سفر ہوتا ہے ٬وہاں پہنچتا ہے جہاں اُس کا خمیر تھا٬

لاکھوں کروڑوں کمانے والا خالی ہاتھ جیسا کہ قرآن میں اللہ پاک بھی کہتے ہیں کہ زمینی خزانے میرے ہیں ٬ بظاہر تم انہیں اپنی محنت سے حاصل کرتے ہو٬ اور اسے بڑھا چڑھا کر اس پے فخر کرتے ہو لیکن میرا نظام ایسا ہے کہ سب وہیں کا وہیں پھر تم چھوڑ آتے ہو٬ واپسی خالی ہاتھ ہوگی اور جو ساتھ جائے گا وہ ہمارے شعور کا حصہ ابھی تک نہیں بنا٬ یہ تو ذکر تھا اُن جسموں کا جو روح سے مبّرا ہوں تو لاش کہلاتے ہیں یا میّت اور انہیں جہاز کے نچلے مخصوص حّصے میں رکھا جاتا ہے جہاں پاکستان پہنچتے ہی ان کے عزیز رشتے دار بیتابی سے ان کے مُنتظر ہوتے ہیں اور پھر بڑے احترام سے انہیں آخری آرماگاہ قبرستان تک پہنچا دیا جاتا ہے٬

لیکن کبھی کبھار پاکستان کے لئے تابوت میں ساکت جسم روانہ نہیں کیے جاتے
بلکہ زندہ لاشیں بھی بھجوائی جاتی ہیں ٬ جو جہاز کے اوپر والے حصّے میں عام مسافروں کے ساتھ بیٹھی دکھائی دیتی ہیں٬ لیکن ان کے چہرے ہر تاثر سے عاری ٬ سلوٹ زدہ لباس اور متحیّر قدرے پھٹی پھٹی نگاہیں یوں جہاز کے چاروں جانب مسافروں کوہونّقوں کی طرح تکتی دکھائی دیتی ہیں٬ جیسے اپنی شناخت پوچھتی ہوں؟
پاکستان میں ذہنی پسماندگی اور سوچ کی سطح بہت نچلی سطح پے ہے عام انسان کی زندگی ایک خواب کے گرد گردش کرتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ پاکستان سے باہر نکل جائے٬ دور کے ڈھول سہانے ایک ماں کے لئے وہ وقت خوش نصیبی کا سندیس لیے ہوئے آتا ہے جب اُسکی بیٹی کے لیے باہر کا کوئی رشتہ آئے٬
مڈل کلاس ہو یا غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے تقریبا ایک جیسا ماحول رکھتے ہیں٬

جہاں گھر کی پہچان گھر کا سربراہ ہے اور بیٹا اس گھر کی جان ٬ “” بیٹی “” صرف وجود ہے ٬ جس کی تعلیم ہوئی نہ ہوئی کوئی فکر ہی نہی ٬ دال روٹی پے پلنے والی یہ بچی زندگی کی تلخیوں سے کہاں آگاہ ہوتی ہے جس نے زندگی صرف جھاڑو پوچا کرتے اور ماں کے ساتھ روٹی پکاتے ہوئے گزاری ہو٬ ایسے میں جب کوئی رشتہ ملتا ہے تو ضروری تحقیق کی رسمی کاروائی پوری کی جاتی ہے٬ اور اگر اُس موقعے پے کسی عزیز رشتے دار نے کسی عیب کی نشاندہی ی تو وہ مطعون ٹھہرایا جاتا ہے٬ جو حسد کا شکار ہے ٬ بچی دل میں پیارے پیارے سادہ سے ارمان سجائے جب بیاہ کر سسرال اور پھر ــ امیگریشن ــ ہونے تک سسرال کی جو جیل کاٹتی ہے ٬ آدھے ارمانوں کا خون تو وہیں ہوجاتا ہے٬ شوہر کا سرد رویہ بالعموم بھرے پُرے گھرمیں دیگر رشتوں سے مُنسلک کر کے لڑکی بیرون ملک تنہا شوہر کے ساتھ خوشگوار زندگی کا سوچ کر صبر کر لیتی ہے٬

جب دشوار گزار مراحل سے گزر کر یہ لڑکیاں گاؤں اندرونِ شہر کی پُرپیچ تاریک گلیوں سے ایکدم رنگ و نور سے مزّین الگ دنیا میں آ جاتی ہیں توآخری سانس تک سراپا حیرت ہی رہتی ہیں٬ جہاز کا دروازہ کھلتے ہی دنیا کا بدلا ہوا انداز ان کے دل کی دنیا کو اتھل پتھل کر دیتا ہے٬ چمکتی یہ لمبی لمبی کاریں گوری چِٹیّ بااعتماد خواتین صاف ستھرا شفاف ماحول اور نِکھرے اُجلے روشن چہرے ہر لمحے بھاگتے دوڑتے انتھک محنت کر کے اس ملک کو پاکستان سے مختلف بنانے والے یہ معمار اس بچی کے ذہن پے انمٹ نقوش ثبت کر دیتے ہیں٬ سارے خواب چکنا چورہو کر کرِچی کرچی بن کر یوں ریزہ یزہ ہو کر بکھرتے ہیں ٬ جب شوہر کے چہرے پے چڑھا ہوا ماسک یہاں اترا وہ دیکھتی ہے٬ ( یہ سب کے ساتھ نہیں ہوتا) وطن سے دور ان پڑھ سادہ لوح نہ کوئی عزیز رشتے دار پاس نہ راستوں کا پتہ نہ کسی دفتر کا ٬ نہ ہی زبان آتی کہ مُدّعا بیان کر سکے٬

ایسے میں زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے٬ جو اس محدود سی زندگی گزارنے والی لڑکی کے لئے ہر روز ایک نئے درد کی کہانی اور دکھ کی گھڑی لے کر آتا ہے بات بات پے شرابی شوہر گالی گلوچ کے ساتھ بِلا وجہ دُھنک کے رکھ دیتا٬ اور یہ سسکیاں بھرتے خاموشی سے اپنے دکھ اپنے دامن میں سمیٹے جب کبھی والدین سے بات ہوتی تو اظہار س قاصر رہتی ٬ حلق سے ابھرتی چیخیں دبائے وہ “” سب اچھا “” کی رپورٹ دے کر بوجھ اتار کر پھینک دینے والے والدین سے کہتی بھی تو کیا؟

واپسی پر اضافی بوجھ اور دو وقت کی روٹیاں کہاں کوئی کھِلاتا؟ بظاہر زندگی کی ہر ممکن آسائش کے ساتھ آراستہ و پیراستہ گھر میں ایک شقی القلب انسان کے ساتھ زندگی گزارنا کتنا کٹھن ہے٬ اس کا اندازہ وہ پل پل مرتی بنتِ حوا شائد ابنِ آدم کو کبھی بتا نہ پائے٬ کیونکہ اس کی ذات سے منسوب یہ ذہنی ذلّت کا دکھ اُسے ماں ورثے میں دان کرتی ہے٬ ایسی ہی ایک زندہ لاش کی یہ کہانی ہے ٬ جسے تنہائی مارے جارہی تھی ٬ ایسے میں اللہ نے اولاد کی خوشخبری دی تو جیسے زندگی نے نئے سِرے سے کروٹ لی ٬ موہوم سی امید ابھری کہ شائد اب پردیس میں اس ننھی جان کی وجہ سے شوہر کی توجہ حاصل کر سکے٬ تخلیق کا مرحلہ عورت کی تکمیل کا لمحہ ہوتا ہے

وہ اس مرحلے سے گزر کر جب دنیا کی سب سے بڑی نعمت بیٹےکی شکل میں ہاتھ میں آئی تو یکلخت اسے لگا سارا جہاں تسخیر کر چکی٬ لیکن جونہی شوہر کی آمد ہوئی اور بڑی حسرت و یاس سے اس نے اُسکی جانب دیکھا کہ شائد آج تو قسمت کی دیوی مہربان ہو اور وہ اسے بھی قابلِ اعتنا سمجھتے ہوئے دو حرف ہمدردی کے تسلّی کے کہے؟

Woman

Woman

لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے کے مِصداق یہ خوشی بھی دم توڑتے ہوئے نیا چرکا لگا گئی٬ اب اُسے پتہ چلا کہ اولاد بھی عورت کو خوشی کا احساس نہیں دیتی اگر ذہن میں اطمینان نہ ہوتو٬ گھر کی طرف سے مسلسل لاپرواہی بچوں کی طرف سے وہی غفلت اس کے شوہر کا وطیرہ رہا ٬ ایک روز گھر میں دودھ ختم ہو چکا تھا ٬ بچہ ابھی سویا تھا باہر قیامت خیز سردی تھی ٬ بچےّ کو ٹھنڈ نہ لگ جائے یہ سوچ کراس نے بچے کے سونے کا انتظار کیا٬ اور اس کے سوتے ہی گھر سےنکلی ٬ سٹور تک آنے جانے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا تھا٬

گھر سے نکلنے سے واپسی تک کا سفر اس کی زندگی کا رُخ موڑ چکا تھا واپسی پر گھرکے سامنے ایمبولینس فائر بریگیڈ پولیس کار اس کو اندیکھے وسوسوں میں جکڑ گیا٬ اور اس وقت اس کی چیخیں آسمان تک جا پہنچیں جب ُاس نے سٹریچر پے بچے کی خون آلود لاش دیکھی٬ بد نصیبی سے اس کے گھر سے نکلتے ہی بچہ جاگ گیا اور رونے لگا٬ چھوٹے چھوٹے کاغذی دیواروں جیسے گھروں کی سرگوشیاں بھی اکثر ساتھ والے گھر سنی جاتیں ٬ ہمسائے میں رہنے والی خاتون جو اسے جاتے دیکھ چکی تھی ۔ بیس منٹ تک تو بچے کی چیخ و پکار پے ضبط کیے بیٹھی رہی پھر نہ رہ سکی تو پولیس کو فون کر دیا بچے کی عمر بتائی تو پولیس فوری طور پر پہنچی ٬

لیکن ان کے پہنچے تک بچہ بیڈ سے نیچے گِر کے بیڈ کے قریب پڑے ہیٹر کے اوپر گر چکا تھا ٬ ہیٹر کا کونا اس کے ماتھے میں شگاف ڈال چکا تھا٬ خون کی فوارہ یوں نکلا کہ لمحوں میں معصوم اپنے ہی خون میں لت پت اس دنیا سے رخصت ہوگیا٬
ہنستے کھیلتے بچےّ کی خون میں لت پت لاش بنتِ حوا کے حواس گُم کر گئے٬ پولیس نے تحقیقات کیں اور حادثہ قرار دے کر کیس ختم کر دیا ٬ لیکن یہ حادثہ کسی بے بس کو زندگی کی الجھنوں سے بے نیاز کر گیا٬ اضافی وجود کا تصور ہمیشہ سے اسے رہا اپنے والدین کے گھر ٬ اور یہاں آکر بالکل نظر انداز کۓ جانے کا دکھ کسی حد تک بچے کے گُل گوتھنے وجود میں گُم ہوچکا تھا٬

وہ پوری شدّت سے حاوی ہوا اور اب کئی سال ہوئے وہ جو پردے کی پابند تھی اب کھُلے منہ در در رُل رہی تھی٬ جو منہ میں آتا کہہ دیتی ٬ بے ربط جُملے اور بے بنیاد الزامات کی بھرمار گھُٹے ذہن کی گِرہ کھلی تو زبان یو چلنا شروع ہوئی کہ قینچی قرار پائی٬ شوہر نجانے کب سےکسی سنہرے موقعے کی تلاش میں تھا٬ پُراسرار انداز میں گھر سے بوریا بستر سمیٹ کر غائب ٬ اور ویران گھر بچے کی یادوں کے عکس اور ٹھنڈی دیواروں سے بآواز بلُند خوف کو مات دیتے دیتے ہرخوف سے عاری ہوگئی٬

بلند وبالا عمارت میں بسنےوالے پاکستانی ہمدردی کے بعد ابا گلے دور میں داخل ہو چکے تھے ٬ اس کی فراٹے بھرتی زبان ہر حد اور قید سے مُبّرا ہو چکی تھی٬ سننے والے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے کہ اس قدر واہیات گفتگو نہیں سُن سکتے
وہ ایک تماشہ بن چکی تھی ٬ لوگ زِچ ہونے لگے تو بات ہاتھ اٹھنے پے آگئی جب سر کا سائیں سر پے نہ ہو تو دنیا تپتا ریگستان ہے ٬ جس میں ہر کوئی مالک بن بیٹھتا ہے٬ یہی کچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا٬

قصہ مُختصر سب لوگوں نے کسی نہ کسی طرح اس کے گمشدہ کاغذات کو تلاش کر کے اس کے والدین سے بات کی اور ماں کے کہنے پر اس کو پاکستان روانہ کیا٬ آج سے دس سال پہلے شگفتہ کھِلے ہوئے چہرے والی ہنستی مُسکراتی یہ بنتِ حوّا زندہ لاش کی صورت کسی اور کی نگرانی میں واپس جا ری تھی٬ ذہن ختم سوچ ختم نہ رُکنے والی زبان جو اوٹ پٹانگ جُملوں کے درمیان کہیں کہیں خود پے ہوئےتمام مُظالم جو بچپن سے ماں کے گھر سے شروع ہوئے اور پردیس میں شوہر نے اس کو منطقی انجام تک پہنچایا٬

بکھرے بال زرد چہرہ پچِکے ہوئے گال٬ وحشت زدہ باتوں میں بار بار بیٹے کا ذکر اور پھر اُس کی فکر٬ مجھ سمیت ہر دیکھنے والےکو خون کے آنسو رونے پے مجبور کر دیتی ہے خُدارا!! پردیس کی رونقوں سے متاثر ہو کر بغیر سوچے سمجھے بیٹیوں کے مقدرداؤ پے نہ لگائیں٬ سادہ ماحول میں رہنے والی اس سادہ نازک کونپل کو پردیس کی سخت زندگی میں کھِل کر پھول بننے سے پہلے کمہلانے کے لیے دیارِ غیر میں نہ بھیجیں نا مانوس ماحول سادہ ذہنیت ٬ رشتوں سے ملا دکھ ٬ اور ذہنی گھٹن کم مائیگی کا احساس کسی بھی زندہ وجود سے زندہ لاش کا سفر جاری رکھے گا

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر:شاہ بانو میر