تحریر : شاہ فیصل نعیم اس کے چہرے سے عیاں رعب و جلال ہر کسی کو بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کی ہر بات سننے والوں کی سماعتوں میں نئی راہیں وا کرتی ہے۔ وہ فوج میں مختلف اعلیٰ عہدوں پہ خدمات سر انجام دے چکا ہے اور آجکل فراغت کی زندگی گزار رہا ہے۔ میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اُس کے سامنے بیٹھا ہوں ہر کوئی خوفزدہ سا لگتا ہے۔ میں بھی ایک سمت سمٹ ہوا ہوں جب اُس کا سوال مجھے چونکا دیتا ہے: “اگر میں کہوں کہ مجھے تمہاری جان چاہیے تو تم اس کی کتنی قیمت طلب کر و گے”؟ُُ اُس کے غیر متوقع سوال نے مجھے اور بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ میںنے ڈرتے ڈرتے جواب دیا: “سر! انسان زندگی کے لیے پیسے کماتا ہے ۔ کوئی پیسے کے لیے زندگی تو نہیں دیتا”۔ اُس نے اپنی بات کو آگے بڑھایا: “یہ بات اُن لوگوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی جن کا ہر وقت کا راگ ہی یہ ہے کہ فوج اتنا پیسا کھا گئی۔
۔فوج نے یہ کر دیا فوج نے وہ کر دیا ۔۔۔لوگوں کو بات کرنے سے پہلے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب پیسہ ضروریات پہ خرچ ہوتا ہے۔۔۔کوئی جوان پیسے کے لیے اپنی جان قربان نہیں کرتا بلکہ کچھ جذبات ہوتے ہیں جو انسان کو لڑا دیتے ہیں۔ اس دھرتی ماں کی خاطر جان قربان کرنا اُن کی اس سرزمین سے محبت کا ثبوت ہے ۔ وہ اس وطن اور اس کے عوام کی خاطر جان قربان کرنا بھی اپنے لیے فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنا آج ہمارے کل کے لیے نثار کرتے ہیں”۔
اُس کی باتیں سنتے سنتے میں سوچوں میں غرق ہو چکا تھا مجھے کچھ الفاظ یاد آ رہے تھے جو مختلف اوقات میں میری نظروں سے گزرے: “جو کسی کے لیے جان سے گزر جانے کا جذبہ رکھتے ہوں ۔۔۔۔اُن کی محبت پہ شک نہیں کرتے”۔ “جب کوئی قوم اپنی افواج پر اعتماد نہیں کرتی تو اُس کو برباد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا”۔ وہ لوگ جو مختلف سازشوں کا حصہ بنتے ہوئے افواجِ پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں اس کو متنازعہ بناتے ہیں اُن کو سوچنے کی ضرورت ہے۔
Corruption
کرپشن میں ملوث حکام، انصاف سے بالاعہداران سلطنت، عوام سے غلاموں سے بدتر سلوک روا رکھنے والے بادشاہ، سرکاری املاک کو عیش و عشرت کا سامان بنانے والے عیاش، جلتی، ترستی، بلکتی، تڑپتی انسانیت کا تماشا دیکھتے تماش بین، عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے بد ذات ، کفریہ ایجنڈوںپہ کام کرتے شرپسند، زندگی کو موت کی نیند سلانے والے درندہ صفت انسان،غیر ملکی آقائوں کی جی حضور کرتے والیانِ سلطنت،مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو جنم دینے والے دین کے ٹھیکیدارکبھی بھی ہمارے ہیرو نہیں ہو سکتے۔
وہ لوگ جو نظر وں سے اُوجھل رہتے ہوئے اپنا تن من اس ملک کے لیے قربان کرتے ہیں وہ ہمارے ہیرو ہیں۔کئی گنا ہ بڑی فوج رکھتے ہوئے بھی انڈیا کو ہر وقت اپنی جان کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ انڈیا اور اُس کے حکمرانوں کو ١٩٤٨ء اور ١٩٦٥ ء سے سبق سیکھنا چاہیے۔ آئے دن ورکنگ بائونڈر ی پر حملے خوش آئندہ حالات کو جنم نہیں دیتے ۔ ملک دشمن عناصر کو یاد رکھنا چاہیے کہ افواجِ پاکستان ہر وقت ہر قسم کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
کیپٹن محمد سرور شہید، میجر طفیل محمد شہید، میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید، میجر شبیر شریف شہید، سوار محمد حسین شہید، لانس نائیک محمد محفوظ شہید، کیپٹن کرنل شیر خان شہیداور حوالد لالک جان شہیدکے لہو کی سرخی اس غیور قوم کے حوصلوں کی آئینہ دار ہے جوآج بھی پیغام دیتی ہے ہراُس دشمن کو جو اپنے ناپاک عزائم سے دیکھتا ہے اس وطنِ عزیز کو ۔ دشمنانِ وطن کے لیے پیغام ہے ان شیر دل جوانوں کا کہ جو بھی اس وطن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا اُسے دو گز زمیں بھی نصیب نہیں ہو گی۔