اے جذبہء دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے

Poets

Poets

شاعر لوگ بھی بڑے عجیب مزاج اور خصلت کے ہوتے ہیں یہ کبھی کبھارتو کیا …؟بلکہ اکثروبیشتراپنی شاعری میںکچھ ایسی باتیںبھی کہہ جاتے ہیں جو دراصل حقیقت و حقائق کے اتنے قریب ترہوتی ہیںکہ اِنہیں بسااوقات جھٹلانابھی مشکل ہوتاہے تو اِنہیں قبول کرنااور ماننا اِس سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہوجاتاہے۔

اَب شاعرکی غزل کے اِس مطلع کو ہی دیکھ لیجئے کہ شاعر نے کس طرح اِس میں اپنی کیفیت و کیفیات اور اپنی ہمت و عزم کا اظہارکیاہے کہ پڑھنے اور سُننے والے کو ہرمرتبہ ایسالگتاہے کہ جیسے شاعر نے اپنی غزل کا یہ مصرع اپنے لئے جو کہاسوکہا…مگریہ میرے اور ہم جیسے اُن سب لوگوں کے لئے بھی کہہ دیاہے جوایسی خصلت کے حامل ہیں جس کاشاعرنے اپنی غزل میں کچھ یوں تذکرہ کیا ہے کہ :۔

اے جذبہء دل گرمیں چاہوں ہر چیزمقابل آجائے
منزل کے لئے دوگام ہی چلوں اور منزل سامنے آجائے

اَب اگر میںشاعر کی اِسی غزل کے مطلع کو لوں اور اِسے اپنے حکمرانوں
سیاستدانوں اور ادارو ں کے سربراہان پر فٹ کرنے اور صادق لانے کی کو شش کروں تو کوئی بُرانہ ہوگا،بلکہ سب نہ صرف یہ سمجھیں گے اُلٹااسسیپٹ(قبول)بھی کریں گے کہ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ” ہمارے دلوں میں جذبہ تو بہت کچھ اچھاکرنے اور کرانے کا ہے۔

مگر افسوس ہے کہ ہم اپنے دلی جذبہ اور جذبات کے آگے اپنے وسائل کی عدم فراہمی اور بہت سے اندرونی اور بیرونی مصالحتوں کے باعث وہ کچھ نہیں کرپاتے ہیں جنہیں کرنے اور کرانے کا ہم نے اپنے اندر جذبہ پیداکیاہوتاہے اور ہم عزم کرچکے ہوتے ہیں مگرہم مصالحتوں کے شکارہوکر کچھ بھی نہیں کرپاتے ہیں حالانکہ کہ ہم کرسب کچھ سکتے ہیں مگر پھر بھی کچھ نہیں کرپاتے ہیں اور پھر اپنے دل اور قوم کو سمجھانے کے خاطر یہ کہتے پھر تے ہیں کہ :۔

Politicians

Politicians

اے جذبہء دل گرمیں چاہوں ہر چیزمقابل آجائے….
بالفرض آج اگر ہمارے حکمران ، سیاستدان اور مُلک میں کرتادھرتاقومی اداروں کے سربراہان ذراسی اپنی اندر ہمت پیداکرلیں اور اللہ توکل کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو کو حرج نہیں کہ ہمارے سارے کام خوب بخودبنتے چلے جائیں گے اور ہماراغیارسے رشتہ ناطہ بھی خودبخودٹوٹ کر ختم ہوجائے گامگر افسوس تو اِسی بات کا ہے کہ نہ تو ہمارے حکمران و سیاستدان اور قومی اداروں کے سربراہان سمیت ہم خود بھی تو ایساکرنانہیں چاہ رہے ہیں کہ اپنے دلی جذبات کو حقیقت کا رنگ عملی طور پر دے دیںاور پھر ایساہی ہوجائے جیساکہ شاعر نے اپنی غزل کے مطلع میں کہاہے تو پھر ایساہی ہوجائے کہ:
اے جذبہء دل گر میں چاہوں ہر چیزمقابل آجائے
منزل کے لئے دوگام ہی چلوں اور منزل سامنے آجائے

اور پھر اِس طرح ہمارے حکمران وسیاستدان اور قومی اداروں کے سربراہان بَرملاطور پر سینہ پھولاکر اور اپنی اپنی گردنیں تان کر قوم کے سامنے یہ کہنے کے بھی صحیح معنوں میں حقدار ہوں گے کہ :۔
ہاں یاد تم مجھے کرلینااور آوازمجھے تم دے لینا
اِس راہ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آجائے

مگراِس مقام تک پہنچنے کے لئے سب سے پہلے ہمارے حکمرانوں سیاستدانوں اور قومی اداروں کے سربراہان کو یقینی طور پر دل پہ پتھررکھ کر مُلک و قوم کی بہتری کے خاطراپنے اندرحقیقی معنوں میں ایسے جذبات اور ہمت پیداکرنے کے ساتھ ساتھ وہ سب ہی کچھ کرنے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی کہ جو مُلک وقوم کی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ اِن کی خودمختاری اور استحکام کی بھی ضامن ہو۔

اور پھردیکھنا کہ مُلک و قوم ترقی او رخوشحالی کی کن بلندیوں کو چھورہے ہوں گے بشرطیکہ ہمارے حکمران و سیاستدان اور قومی اداروں کے سربراہان اگر، مگر، لیکن ویکن، چوں وچراں اور ایساویساکیساکی بحث سے نکل جائیںتوبہت اچھاہوگا۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com