تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مارچوں نے اس وقت پورے ملک کو پریشان کیا ہواہے۔ کوئی شخص پریشانی سے آزاد نہیں۔ مارچ میں شریک لوگوں نے اسلام آباد کو یرغمال بنا رکھا ہے اور باقی عوام کوٹی وی نے یرغمال بنایا ہوا ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں کے لیڈر وقفے وقفے سے شرکاء سے خطاب کررہے ہیں۔ وہ اپنے خطاب میں ہربار کوئی نیا سنسنی خیز بیان دیکر واپس اپنے اپنے کنٹینر میں چلے جاتے ہیں۔اس لیے عوام ٹی وی سے اٹھنے کا نام نہیں لیتی۔اگر کوئی اپنے کام کی وجہ سے ٹی وی چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو وہ آکر اس طرح دل چسپی سے معلومات لیتا ہے جیسے کسی ڈرامے کی قسط میں کوئی سین رہ جائے تو اس کے متعلق پوچھاجاتا ہے۔
مارچ کواسلام آباد میں بیٹھے ایک ہفتہ ہوچکا ہے مگر افسو س اس بات کا ہے کہ ابھی تک اس دھرنے کاحل نہیں نکلا۔ حکومت ، طاہر القادری اور عمران خان ضدی بچوں کی طرح اپنی اپنی ضد پر اٹکے ہوئے ہیں۔کوئی بھی ایک انچ اپنی ضد ے پیچھے نہیں ہٹ رہا ۔آرمی کی نظر پاکستان کے مسائل پر بہت گہری ہے کیونکہ ایک طرف وہ دہشتگردوں کے خلاف نبردآزما ہے تو دوسری طرف سیاستدانوں نے محاذ کھول رکھا ہے۔ آرمی نے کئی بارحکومتی لیڈروں کو باور کرادیا ہے کہ اپنے مسائل کو خودحل کرلیں تو اچھا ہوگا۔جس سے ثابت ہورہا ہے کہ آرمی بھی ان سیاستدانوں کی حرکات سے تنگ آچکی ہے۔اگر خدا نہ کرے ان حالات میں آرمی مداخلت کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوجائے تو پھر یہ لوگ کس کو منہ دکھائیں گے؟ان کے کارکن کونسی جمہوریت کی بات کریں گے؟ عدلیہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ اس مسئلے میں کچھ نہیں کرسکتے یہ انتظامی مسئلہ ہے مگر نہ حکومت ٹس سے مس ہورہی ہے اور نہ ہی طاہر القادری اور عمران خان۔
سوچنے کی بات یہ ہے اگراس طرح دھرنا دینے سے منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجا جاسکتا ہے توپھر آنے والے وقت میں تو یہ ڈرامہ روز سجے گا۔اگر عمران خان یا طاہر القادری کے پاس کارکنان ہیںتو کیا دوسری جماعتیں جو اسمبلیوں میں بیٹھی ہیں ان کے پاس کارکنان نہیں؟ اگر ان کی خواہش پر آج نوازشریف استعفیٰ دے دیں تو اسکی کیا گارنٹی ہے کل کو جو بھی وزیراعظم بنے گا اس کوان کی اپوزیشن برداشت کرلے گی؟ اس طرح سیاستدانوں کے لیے ایک نیا کھیل شروع ہوجائے گا۔ جس سے نقصان ملک کا ہوگااورعوام سٹرکو ں پررسوا ہوگی۔
Media
ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام سیاستدان بیٹھ کر مذاکرات کریں۔ اپنے اپنے نکات سامنے رکھیں اور جو سب کو قابل قبول ہوں ان پر متفقہ طور پر عملدآمد کیا جائے مگر یہاں تو سب لوگ اپنی انا ء کا مسئلہ بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ کوئی بھی ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ رہی سہی کسر ہمارا میڈیا پورا کررہاہے جوجلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کررہا ہے۔ اینکر حضرات ٹی وی پر بیٹھ کر ایسے لوگوں کو مہمان بلاتے ہیں جو درمیانی راستہ نکالنے کی باتوں کے بجائے اور بھڑکانے کی باتیں کرتے ہیں۔
دھرنے میں موجود ایک تحریک انصاف کے مقامی رہنماسے بات ہوئی۔ اس کو کہا اپنے قائد کو سمجھائیں اس طرح بضد رہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگاجب حکومت نے بول دیا کہ نوازشریف کے استعفیٰ کے علاوہ باقی مطالبات قابل غور ہیں تو پھر کیا رہ گیاوہ مذاکرات کریں مگر وہ بھی اپنے ضدی قائد کی طرح بولا” پہلے استعفیٰ پھر کچھ اور”میں نے کہا اس طرح حکومت اور آپ لو گ بضد رہے تو پھر ”بوٹ والے”بھی مداخلت کرسکتے ہیں تو وہ فوراًبولے اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟یہ تو ن لیگ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آئے گی۔اسی طرح جب ن لیگی رہنما سے کہا کہ آپ کوئی لچک پیدا کرکے درمیانی راستہ نکالیں ورنہ آپ کی حکومت پر دوسری باری حملہ ہوسکتا ہے تو انہوں نے بھی تحریک انصاف کی طرح کہا کہ اگر آرمی آئی تو یہ طاہر القادری اور عمران خان کی وجہ سے آئی گی۔
اب تینوں قائدین سچے ہیں تو قصور کس کا ہے؟ اب آپ لوگ سوچیں اگر آرمی آگئی تو اس میں کس کا قصور ہے؟ عمران خان استعفیٰ مانگتا ہے وہ بھی چند ہزار لوگوں کے ذریعے سے جبکہ نوازشریف سمیت پورا ہاؤس کہتا ہے کہ میاں صاحب عوامی منتخب وزیراعظم ہیں اور وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔اس طرح تو قصور ان تینوں کا نہیں بلکہ عوام کا جس نے ان کو اپنا لیڈر بنایا۔
اگرہم وقتی طور پر عمران خان کے نئے پاکستان بنانے کی بات کو مان لیں اور عمران خان نیا پاکستان بنا لے تو کیا وہ اس نئے پاکستان سے پرانے پاکستان کے حمایتی سیاستدانوں اور ان کے کارکنان کو نکال دیں گے؟ اگر خان صاحب نے ایسا نہ کیا تو آنے والے وقت میں ان سیاستدانوں کی حمایتی کارکنان ان کے لیے مشکلات پیدا کریں گے ۔ہاں یہ ممکن ہے جس طرح بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی مخالفت کرنے پر جماعت اسلامی کے لیڈر اور کارکنان کو جیل کی سلاخوں میں بھیجا اور کتنے کو پھانسی پر لٹکایا اسی طرح خان صاحب بھی پرانے پاکستان کے حامی لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کریں تو شاید رزلٹ کچھ اور نکل آئے۔
حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ اس وقت یہ سب سیاستدان بمعہ قادری ملک کی نہیں اپنی انا ء کا مسئلہ بنا کر ملکی معشیت کو تباہ کررہے ہیں۔ کئی ملک کے سربراہان جنہوں نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا وہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا دورہ منسوخ کرچکے ہیں۔ ڈالر جو 98روپے پر تھا اس وقت 100سے اوپرجاچکا ہے۔ عوام پریشان ہوچکی ہے۔دھرنے کو ایشو بناکرخودساختہ مہنگائی کی جارہی ہے۔ چند ہزار لوگوں کو جمع کرکے باقی عوام کی توہین کی جارہی ہے۔ اگر یہ سیاستدان ملک اور عوام سے مخلص ہیں تو پھر وہ کام کریں جو ملک اور عوام کے لیے فائدہ مند ہوں۔