چراغ راہ

Little Boy Sitting

Little Boy Sitting

تحریر : ثمرہ انور مغل
وہ آرام سے چلتا ہوا میر ے پاس آیا اور خاموشی سے میرے ساتھ پڑی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ میں کھانے کا آرڈر دے کر فرصت سے بیٹھی اپنے فون پر میسجز دیکھنے میں مصروف تھی۔ کسی کے اپنے پاس آ کر بیٹھنے پر چونک کر اس کی طرف دیکھا تو ایک بارہ تیرا سال کا ایک معصوم صورت بچہ مجھے بہت پیارا لگا۔اس نے مہذب انداز میں مجھے سلام کیا میں نے بہت نرمی سے اُس کے سلام کا جواب دیا میرا اگلا سوال شاید اُس کی توقع کے برعکس تھا۔’’بیٹا کھانا کھاؤ گے؟‘‘وہ کھچ ہچکچاہٹ سے انکار میں گردن ہلا رہا تھا۔ مجھے وہ بچہ شکل و صورت سے ہی ایک اچھی اور سلجھی ہوئی فیملی کا لگ رہا تھا حالات بدلنے میں بھلا کتنی دیر لگتی ہے کوئی بھی کسی بھی وقت لاکھوں کروڑوں سے زیرو پہ آ سکتا ہے۔ میں نے آواز دے کر ویٹر کو بلوایا اور بچے کے کھانے کے لیے آرڈر دے دیا اور اپنا رُخ اُس کی طرف کر کے بیٹھ گئی۔بیٹا آپ کا نام کیا ہے؟زید علی۔ بابا کیا کرتے ہیں؟اُن کی وفات کو دو ماہ ہو چکے ہیں میرے ابو ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کلرک تھے پوری زندگی ایمانداری اور فرض شناسی میں گزار دی۔ اب میں ایک Manufacturing Factory میں پیکنگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہا ہوں۔کتنے بہن بھائی ہو آپ لوگ؟ہم تین بہن بھائی ہیں دو بہنیں اور میں اکیلا بھائی ہوں۔اچھا اور امی کیا کرتی ہیں؟امی بیمار ہیں ہیپائٹس سی ہے انہیں،آپ سکول جاتے ہو؟نہیں آپی میں 7+4 میں پڑھتا تھا پھر اچانک ایک دن دل کا دورہ پڑنے سے ابو فوت ہو گئے پھر مزید تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔

میں نے محبت میں اس کا ہاتھ پکڑا اور اس سے پوچھا’’بیٹااب دوبارہ پڑھو گے؟ہاں موقع ملا تو ضرور پڑھونگا مگر میری وجہ سے ہی میرے گھر میں چولہا جلتا ہے میں صرف اکیلا کمانے والا ہوں مجھے اپنے گھر کی ساری ذمہ داریاں دیکھنی ہیں میری دو بہنیں بھی ہیں۔اتنی چھوٹی سے عمر میں اتنی بڑی بڑی ذمہ داریاں اُس نے اپنے نازک کاندھوں پر ڈال رکھیں تھیں۔ مجھے اس بچے کو دیکھ کر بہت رحم آیا اُس کے نازک ہاتھ جو کھیلنے اور کتابیں پکڑنے کے قابل تھے ان ہاتھوں سے وہ اپنی فیملی کیلئے پیسے کمانے اور انکا پیٹ پالنے میں لگا ہوا تھا۔میں اپنی سوچوں میں گُم تھی کہ اتنی دیر میں ویٹر کھانا لے کر آ گیا۔’’چلو پہلے کھانا کھاتے ہیں باقی سب باتیں بعد میں‘‘میں نے بچے کا دھیان کھانے کی طرف مرکوز کروایا۔کھانا کھاتے ہوئے میری نظر یں اُس بچے کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے رہی تھیں۔کھانے کے بعد میں نے اُسے ایک کاغذ پر نام و فون نمبر اور ایڈریس لکھ کر دیا اور خُدا حافظ کہہ کر وہاں سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔اُسی رات کو میں اپنے کمرے میں بیٹھی زید علی کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ بچہ ذہین تھا ، محنتی تھا، زندگی میں کچھ کر دیکھانے کا عزم اُس کی آنکھوں سے چھلک رہا تھا۔ اُسے صرف ایک سپورٹ کی ضرورت تھی ایک سہارے کی ضرورت تھی کہ زندگی کو دوبارہ شروع کر سکے۔ دوبارہ اپنی اسٹڈی شروع کر سکے اور زندگی میں اپنے اور اپنی فیملی کے لیے بہت کچھ کر کسے۔ میں نے اس بچے کی زندگی کو بہتر بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

میں جس حد تک ہو سکے اُس کی مدد کرنا چاہتی تھی اُسے تعلیم کی طرف واپس لانا چاہتی تھی۔زید علی کیا اس جیسے ہر اُس بچے کو میں تعلیم دلوانا چاہیت ہوں جو کسی بھی مسئلے سے دو چار ہو کر تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ پایا تھا۔ اب بس مجھے اس فیصلے پر عمل کرنا تھا مجھے اس بچے کا ہاتھ تھامنا تھا اور اُسے اس منزل کی طرف لے کر چلنا تھا۔ کامیابیوں کی طرف پہلے قدم میں مجھے اس کی رہنمائی کرنی تھی۔دو دن بعد جب میں کلاسز سے فری ہو کر یونیورسٹی سے نکل رہی تھی تو میرے فون کی گھنٹی بجی میں نے اسکرین پر نمبر دیکھا کوئی انجانا نمبر تھا میں نے کال رسیو کی ہیلو:کون؟آپی میں زید علی ہوں۔ہاں زید کیسے ہو؟ سب ٹھیک ہے؟جی سب بہت اچھا ہے۔ آپ نے کہا تھا نہ سکول کے ایڈمیشن کا میں کل آؤں جویریہ کے ساتھ آ جاؤں اگر آپ فری ہیں تو؟ ہاں ہاں کل آ جاؤ ہم سکول جا کر ایڈمیشن کروا لیتے ہیں میں نے سکول کے پرنسپل سے بات کر لی ہے۔اسطرح اگلے دن میں نے اُس بچے کا سکول میں دوبارہ ایڈمیشن کروایا۔ اس کی ملازمت کی جگہ جا کر اُس بچے کے سپروائزر سے بات کی اور اُسکی ٹائمنگ تین سے نو بجے کی کروا دی۔اُس کی دونوں بہنوں کے پرائیویٹ میٹرک اور ایف اے کے ایڈمیشن بجھوائے۔ اُس کی امی کا علاج بھی شروع ہو چکا تھا۔وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزرتا گیا میں اپنی عمر کی تین بہاریں دیکھ چکی تھی اُن دنوں میں جرمنی سے پاکستان اپنے بھائی کی شادی کے سلسلہ میں آئی ہوئی تھی میں اُن دنوں شاپنگ اور فیملی فنکشن میں بہت مصروف تھی۔

Welfare

Welfare

ایک دن بیٹھے بٹھائے مجھے زید کا خیال آیا آخری دفعہ اُس سے بات دو سال پہلے ہوئی تھی جب میں اپنی Welfare Organization کا ایک سیمینار کروانے پاکستان آئی ہوئی تھی۔ تب وہ میڈیکل کے تھرڈ اےئر میں تھا۔ اُس کی تعلیم کا جو سلسلہ اللہ کی مدد اور میرے وسیلے سے شروع ہوا تھا وہ جاری و ساری تھا۔ اور اب وہ بچہ ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ تھا۔اور جلد ہی ڈاکٹر بننے والا تھا۔ اُس کی دونوں بڑی بہنوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور وہ اپنے گھروں میں خوشگوار زندگی گزار رہی تھیں۔ میں اپنی سوچوں کو ماضی سے نکالتی ہوئی حال میں لے آئی۔اب تو وہ مکمل ڈاکٹر بن چکا ہو گا اور ہاؤس جاب بھی شروع ہو چکی ہو گی۔ شادی کی تقریبات سے فراغت کے بعد میں جن دنوں واپس جانے کی تیاریوں میں مصروف تھی مجھے ڈاکٹر زید علی کی کال آئی وہ مجھ سے گھر آ کر ملنا چاہتا تھا۔ وہ بچہ جو تیرا سال کی عمر سے میرے گھر آ رہا تھا۔ میرے سب گھر والوں کے ساتھ گھل مل کر فیملی کی طرح رہتا تھا اور میرے چھوٹے بھائیوں جیسا تھا۔ آج میں اُسے ایک ڈاکٹر کے روپ میں دیکھنے والی تھی اور ایک چوبیس سالہ نوجوان کے روپ میں۔ وہ بچہ جس نے گیارہ سال پہلے سفر کا آغاز میرے ساتھ کیا تھا آج منزل پہ آ کر کھڑا ہوا تھا۔میں نے گیارہ سال پہلے اُسے ایک نصیحت کی تھی جسے وہ آج تک بڑی خوبصورتی سے نبھا رہا تھا۔مجھے آج بھی وہ دوپہر یاد ہے جب سکول ایڈمیشن کروانے کے بعد واپسی میں جب میں نے سنجیدگی سے مخاطب ہو کر اُس سے کہا۔’’دیکھو زید یہ جو سلسلہ میں نے آج شروع کیا ہے یہ ختم نہ ہونے پائے۔ اس شمع کو ہمیشہ جلائے رکھنا۔ یہ چراغ کبھی بجھنا نہیں چاہیے۔ جب بھی تم زندگی میں کامیاب ہو کسی قابل ہو کوئی بھی ایسا ضرورت مند بچہ کوئی دوسرا زید تمہیں نظر آئے تو اُس کا ہاتھ ضرور تھامنا۔ اُسے ایسے ہی منزل کا راستہ دکھانا جیسے میں نے تمہیں دیکھایا ہے۔

میں تعلیم کی اس روشنی سے اپنے ملک کے در و بام کو روشن دیکھنا چاہتی ہوں۔اور وہ معصوم چھوٹا سا بچہ میری بات سُن کر سر ہلا کر رہ گیا۔ مگر بعد میں گزرتے سالوں نے یہ سچ ثابت کیا کہ اس نے اس بات کو سُن کر محض سَر نہیں ہلایا تھا۔زید علی نے میری کی ہوئی اُس نصیحت نہ صرف سُنا بلکہ اس پہ عمل پیرا ہونے کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ کئی ایسے بچے ہیں جن کی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ زید علی نے شروع کروایا جن کے تعلیمی اخراجات زید علی پورے کرتا ہے۔ کئی خاندانوں کا مستقبل آج اس کے مرہونِ منت تابناک اور روشن ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔میں جب بھی ڈاکٹر زید علی سے ملتی ہوں اُسے دیکھ کر مجھے ایک عجیب سی سرشادی محسوس ہوتی ہے۔ ایک ایسی خوشی اور راحت جو زندگی کی کوئی آسائش مجھے نہیں دے سکی۔ میں ایک کامیاب اور مشہور آرکالوجسٹ ہوں۔ آج کل کچھ غیر ملکی ہیلتھ پروجیکٹس کے سلسلے میں کبھی انگلینڈ ہوتی ہوں تو کبھی امریکہ۔ میری فیملی ایک سیٹلڈ بزنس کلاس فیملی ہے۔ میری زندگی ہمیشہ آسائشوں میں گزر ی ہے کسی چیز کی کمی زندگی نے نہیں دی مگر جو سکون اور اطمینان مجھے اس بچے کی مدد کرنے میں ہوا مجھے آج تک کوئی چیز ایسی دلی خوشی نہیں دے پائی۔

جب بھی میں گیارہ سال پہلے اُس شام کو سوچتی ہوں جب میں کھانے کا آرڈر دیے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھی تھی۔ ایک معصوم آنکھوں والا بچہ جسے دیکھ کر ہی مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ کافی دنوں سے بھوکا ہے میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ تب اللہ نے مجھے اُس کی رہنمائی کرنے کا موقع دیا۔ اور آج وہ بچہ اُسے معاشرے کا ایک پڑھا لکھا فرد اور قابل ڈاکٹر ہے۔نیکی اور بھلائی کے کئی روپ ہیں کبھی خُدا کی عبادت کر کے نیکی کمائی جاتی ہے اور کبھی خُدا کے بندوں کے کام آ کر اور میں نے جو راستہ چُنا وہ لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے کا راستہ تھا وہ خدمتِ خلق کا راستہ تھا۔ میں نیکی اور بھلائی کے راستے پر چلتی ہوئی نہ کبھی تھکی ہوں نہ ہی کبھی ناکام ہوئی ہوں۔ اُسی اللہ نے مجھے ہر موڑ پر کامیابی دی ہے۔ اور میرے لیے سب سے بڑی کامیابی اُس ماں کے دل سے نکلنے والی دُعائیں ہیں جس کے بیٹے کے بیٹے کو میں نے کامیابی کے راستے کی پہلی سیڑھی دیکھائی۔

Simra Anwar Mugal

Simra Anwar Mugal

تحریر : ثمرہ انور مغل