تحریر : سید انور محمود گذشتہ سال 29 جولائی 2015ء کو پاکستان کی سرحد سے متصل بھارتی ریاست پنجاب کے شہر گرداس پور میں تھانے پر حملہ ہوا، حملہ میں تین افراد شامل تھے، ان تینوں افراد کو کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے آپریشن کے دوران مار دیا گیا۔ اس حملے کے فوراً بعد بھارت نے الزام عائد کیا کہ تھانے پر حملہ کرنے والے دہشتگرد پاکستان سے آئے تھے، جبکہ پاکستان نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا، پاکستان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے الزامات خطے کی سلامتی کے لیے خطرناک ہیں۔ 30 نومبر 2015ء کو پیرس میں ایک کانفرنس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنی نشست سے اٹھ کر وزیراعظم نواز شریف کے پاس آئے اور ان سے مصافحہ کیا جس کے بعد دونوں رہنماء صوفے پر بیٹھ گئے، اس ملاقات کا دورانیہ دو منٹ سے بھی کم تھا لیکن اس غیر متوقع ملاقات کو دونوں ملکوں کے میڈیا نے بھرپور کوریج دی۔ 25 دسمبر 2015ء کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بغیر کسی پیشگی پروگرام کے کابل سے نئی دہلی جاتے ہوئے مختصر قیام کے لیے لاہور پہنچے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق بھارتی وزیر اعظم کے مختصر قیام کے دوران دونوں وزرااعظم نے خوشگوار ماحول میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس ملاقات کے فوراً بعد دونوں ملکوں کے درمیان یہ طے پایا تھاکہ پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکریٹریز کی ملاقات 15 جنوری کو ہوگی جس میں جامع دوطرفہ مذاکرات کے طریقہ کار اور نظام الاوقات پر بات چیت ہو گی۔
خارجہ سیکریٹریز کی ملاقات سے بہت پہلے دو جنوری 2016ء کو پاکستان کی سرحد سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بھارتی ریاست پنجاب کے شہر پٹھان کوٹ میں واقع بھارتی فضائیہ کے اڈے پر چھ دہشتگردوں نے حملہ کرکے سات بھارتی فوجیوں کو ہلاک کردیا۔ چار دن تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں تمام حملہ آور بھی مارے گئے۔ بھارت کی جانب سے پٹھان کوٹ حملے کا الزام کالعدم جیش محمد اور اس کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پر عائد کیا گیا اور مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ پاکستان ان کے خلاف کاروائی کرے۔
Pakistan
پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے بھارتی حکومت کے ساتھ رابطے میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس عزم کو دہرایا تھا کہ دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لیے بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا۔ 18 فروری 2016ء کو وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر قائم کی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی سفارش پر بھارت میں پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کا مقدمہ گوجرانوالہ میں ڈپٹی سیکرٹری داخلہ کی درخواست پر6 نامعلوم دہشتگردوں کے خلاف درج کیا گیا۔ سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اس کیس کی تحقیقات کا باقاعدہ آغازکریگی۔ پٹھان کوٹ ایئربیس پرحملے کی ایف آئی آر میں کالعدم تنظیم جیش محمد اور اس کے سربراہ مسعود اظہر کانام نہ شامل کئے جانے پر بھارت نے افسوس کا اظہار کیا ہے اورپاکستان کی جانب سے اس اقدام کو درست سمت کی جانب سے ایک چھوٹا سا قدم قرار دیا ہے۔
بھارت میں جب بھی اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا ہے، بھارتی حکومت اپنی نااہلی اور ناکامی کو چھپانے کے لیے اس دہشتگردی کا الزام پاکستان پر لگادیتی ہے۔ بھارتی حکومت نے جس طرح اس حملے کے خلاف آپریشن کیا اس سے نہ صرف اس کی نااہلی ظاہر ہوگئی ہے بلکہ بہت سارئے سوالات نے بھی جنم لیا ہے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پیشگی اطلاعات مل جانے کے باوجود حملہ آوروں کو ایئر بیس میں داخل ہونے سے کیوں نہیں روکا جا سکا؟ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے حملے کے روز شام کو ٹوئٹر پر کہا تھا کہ سبھی پانچ دہشتگردوں کو مار گرایا گیا ہے، لیکن اس کے دو دن بعد بھی آپریشن جاری تھا اور وزیر داخلہ نے اپنی ٹوئیٹ کو اپنے اکاؤنٹ سے ہٹا دیا کیا بھارتی وزیر داخلہ واقعی اتنے بے خبر تھے یا پھر پاکستان کے خلاف کوئی سازش تیار کی جارہی تھی؟ حملے کے تیسرے دن بھی واضح نہیں تھا کہ حملہ آوروں کی کل تعداد کتنی ہے، وہ دو ٹیموں میں تھے یا ایک، کیا آپریشن کو لمبا کھینچنا ہی ان کی حکمت عملی تھی، دو حملہ آور سنیچر کی شام سے اتوار کی دوپہر تک کیوں خاموش چھپے رہے، اگر حملہ آور دو ٹیموں میں تھے تو دوسری ٹیم فضائیہ کے اڈے تک کیسے پہنچی؟ بھارت کے لیے پٹھان کوٹ حملہ کا مقدمہ درج ہونا بہت اہم پیشرفت ہے۔
Nawaz Sharif
حکومت ایک سال تک کسی کو حفاظتی تحویل میں رکھ سکتی ہے اس کیلئے ایف آئی آر کاٹنے کی ضرورت نہیں تھی، پٹھان کوٹ حملہ پر ایف آئی آر درج کرکے پاکستان نے بھارت کی بہت پرانی خواہش پوری کردی، ایف آئی آر درج کرکے پاکستان نے قبول کرلیا ہے کہ پٹھان کوٹ حملے میں کچھ پاکستانی بھی شامل تھے۔ گوجرانوالہ میں جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے وہ وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر کی گئی ہے جبکہ اس کا دفاع مرکزی وزیر داخلہ چوہدری نثار، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے علاوہ حکومت کے حامی تجزیہ نگار بھی کررہے ہیں اور حکومت پاکستان اس کا سیاسی فاہدہ اٹھانا چاہ رہی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ ممبئی ، گرداس پور اور اس کے علاوہ بھارت نے اب تک جس جس دہشت گردی میں پاکستان کا نام لیا ہے ان سب کی بھی ایف آئی آر پاکستان میں درج کروایں ، لیکن اس سے پہلے اپنے ہمنصب بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی سے اس بات کی ضمانت ضرور لے لیں کہ جن دہشتگردی کے واقعات کے لیے ماضی میں پاکستانی حکومت بھارت پر الزام لگاتی رہی ہے بھارتی حکومت بھی ان بھارتی دہشتگردوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائے گی۔
پاکستان کے جی ایچ کیو، پی این ایس کارساز کراچی، واہگہ بارڈراورآرمی پبلک اسکول پشاور کے دہشتگرد واقعات میں بھارت ملوث رہا ہے، کراچی میں نیوی کی بسوں پر حملے کا ذمہ دار بھی بھارت ہی ہے، اسکے علاوہ کراچی کے امن کو تباہ کرنے کی ذمہ داربھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ ہے۔
لاہور آنے والی سمجھوتا ایکسپریس کو آٹھ سال پہلے بھارت میں ہندو انتہا پسند آر ایس ایس کے دہشتگردوں نے جلایا تھا، اس دہشتگردی میں ایک بھارتی انٹیلی جنس کا کرنل بھی شامل تھا۔ اس واقعہ میں 68 پاکستانیوں کی لاشیں پاکستان پہنچی تھیں۔ کیا نواز شریف ان تمام واقعات کی ایف آئی آر بھارت میں درج کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ جواب یقیناً نہیں میں ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ پاکستان کسی بھی عالمی فورم میں جاکر بھارت کی دہشتگردی کی شکایت کرسکے گا؟، یقیناً نہیں لیکن پٹھان کوٹ واقعہ کی پاکستان میں ایف آئی آردرج ہونے کے بعد بھارت کو یہ موقعہ مل گیا ہے کہ وہ کسی بھی عالمی فورم پر پاکستان پر دہشتگردی کا الزام لگا سکتا ہے۔ پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے پٹھان کوٹ واقعے کی ایف آئی آر کے اندراج پر پیالی میں طوفان اٹھایا ہوا ہے جبکہ طوفان اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یہ ایف آئی آر درج نہیں کرانی چاہیے تھی۔