تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آج ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر بھارت نے2 جنوری 2016کو پٹھان کوٹ کے ائیربیس کے سانحہ کو پاکستان سے نتھی کرنے کی اپنی سر توڑ اور سینہ زور کوششیں تیز کردی ہیں جس کے لئے بھارتی حکومت، عسکری قیادت، اپوزیشن جماعتیں، بھارتی علیحدگی و انتہاپسند تنظیمیں،بھارتی تحقیقاتی ادارے اور میڈیاسمیت بھارتی عوام نے بھی اپنی تمام توپوں کا رخ پاکستان کی جانب موڑدیاہے اوراَب یہ سب کے سب اپنے اپنے انداز سے دھیرے دھیرے یہ باورکرانے میں لگے ہوئے ہیں کہ بھارت میں پیش آئے پٹھان کوٹ کے واقعے کے ڈانڈے سرحد پار پاکستان سے ملتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک اٹل حقیقت جِسے اَب تک بھارتی حکومت وبھارتی عسکری قیادت اور بھارتی تحقیقاتی اداروں اور بھارتی میڈیا نے بھی چھپا رکھی ہے وہ یہ ہے کہ 2جنوری 2016کو بھارت میں پیش آئے سانحہ پٹھان کوٹ کی اَب تک کی بھارتی تحقیقاتی اداروں کی مصدقہ رپورٹوں کے مطابق بھارت اِس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ سانحہ پٹھان کوٹ میں اِس کی اپنی علیحدگی پسند اور انتہاپسندہندوتنظیمیں اور بھارتی فورسز میں شامل علیحدگی و انتہا پسند اہلکار اوربھارتی شہری ہی ملوث ہیںجنہوں نے حملہ آوروں کی معاونت کی اور سہولت کار کا کردار ادا کیا ‘ ‘ مگر افسوس ہے کہ اِس حقیقت کے باوجود بھی بھارت اپنی اندرونی چپقلش پر پردہ ڈالنے کی کوشش میںہے اور سانحہ پٹھان کوٹ کا ذمہ دار سرحد پار پاکستان کو قراردینے کی کوششوں میں لگا پڑاہے۔
اَب اِس منظراور پس منظر میں بھارت اپنی خامیوں اور کوتاہیوں اور اپنی ڈرامہ بازیوں پر پردہ ڈال رہاہے اور اِس نے پاکستان سے سیکریٹری خارجہ مذاکرات پٹھان کوٹ حملے کی موثر تحقیقات سے مشروط کردیئے ہیںاِس یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جیسے بھارت اپنی نالائقی اور نااہلی کو چھپانے کے لئے پاکستان کودباو¿ میں لیناچاہ رہاہے اِس نے تب ہی پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کردیاہے کہ ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی ہی پاک بھارت تعلقات کو آگے بڑھاسکتی ہے،خبرہے کہ بھارت نے پاکستان سے یہ بھی کہاہے کہ” پاکستان کی جانب سے ٹھوس تحقیقات اوربھارت کو اعتماد میں لینے کی صورت ہی میں سیکریٹری خارجہ مذاکرات کا آغاز15جنوری کو ہوگا “ اوراِس پرمزید یہ کہ بھارتیوں نے ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان سے یہ بھی کہاہے کہ ”اگرپاکستان نے بھارت کی طرف سے فراہم کئے جانے والے ثبوتوں کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی اور اِس ساری صورت حال سے بھارت کو آگاہ کیا تو اِسی صورت میں پاکستان سے سیکریٹری خارجہ مذاکرات شروع کئے جائیںگے
ورنہ مذاکرات ملتوی کردیئے جائیں گے“ جبکہ اِدھر بھارت کی جانب سے بیجامطالبات اور خدشات کے جواب میں پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی بھارت پر دوٹوک انداز سے یہ واضح کردیاہے کہ ” اَب تک بھارت کی جانب سے جو ثبوت فراہم کئے گئے ہیں اِس پر حتمی رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہے بھارت کو اگر شک ہے کہ حملہ آورسرحدپارسے آئے ہیں یا اُن کی کسی قسم کی کوئی معاونت(حالانکہ یہ بھارتیوں کا محض شک اور ڈرامہ بازی ہے) پاکستان کے کسی شدت پسند گروپ نے کی ہے تو بھارت اِس سلسلے میں پاکستان کو مکمل دستاویزات اور تفصیلی ثبوت فراہم کرے تاکہ پاکستان موثر تحقیقات کرکے بھارت کے تحفظات دور کرسکے ،اور اگر بھارت نے مزیدثبوت فراہم نہ کئے تو پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکیں گی اورپاکستان اور بھارت کے درمیان سیکریٹری خارجہ مذاکرات ملتوی ہونے کا خدشہ ہے“۔
All Party Conference
جبکہ پاکستان میں سول اور عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف ایک پیچ پر ہے اورپاکستان جو پہلے ہی دہشت گردی کا شکار ہے یہ دنیامیں اپنی بدنامی سے بچنے کے لئے اپنی سرزمین اور سرحد کے پار دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا عزم کررکھاہے اور پاکستان نے اِس کا بھی اعادہ بھی کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ مسلسل رابطے میںرہاجائے گا، اور دونوں ممالک مل کر دہشت گردی کے خلاف بھر پور تعاون جاری رکھیں گے، اور خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے جانے عزم بھی کیا گیاہے اور اپنے مذاکراتی عمل کو کسی بھی صورت میں سبوتاژ نہیں ہونے دیاجائے گا،اور کہاگیاہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی مُلک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چونکہ پاکستان پہلے ہی اپنے یہاں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے سلسلے میں آپریشن ضرب عضب شروع کیئے ہوئے ہے پاکستان یہ کبھی نہیںچاہئے گا کہ پاکستان اپنی سر زمین کو کسی مُلک کے خلاف استعمال کرنے اجازت دے،اگر بھارت پٹھان کوٹ کے معاملے میں ثبوت دے گا تو پاکستان صاف وشفاف تحقیقات کرکے دہشت گردوںکے خلاف کارروائی دے گا۔ ابھی 25دسمبر 2015 کو بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے اچانک پاکستان دورے کے بعد پاک بھارت استوارہوتے تعلقات اور مثالی دوستی کے ساتھ دو ملکوں کے حکمرانوں اور عوام کے درمیان مضبوط ہوتے محبتوں کے رشتوں کی رکھی جانے والی بنیادوں پر دونوں ممالک میں ہونے والے تبصرے اور تجزے جاری ہی تھے کہ بھارت نے سانحہ پٹھان کوٹ کے چند دِنوں بعد ہی پاکستان پر الزام تراشی اور منفی پروپیگنڈوںوالی اپنی پرانی روش پھر بھی نہ چھوڑی۔
اَب بھارت پٹھان کوٹ کے واقعہ کے بعد ہمارے کان یوں پکڑے یا پھر فوراََ اُسی طرح ہمار ے کان پکڑے جیسا کہ یہ اپنے یہاں ہردہشت گردی کے پیش آئے واقعات کے بعد ماضی میں پکڑتا آیاہے اگرچہ آج بھی ایسا ہی لگ رہاہے کہ جیسے سانحہ پٹھان کوٹ کے بعد بھارت کے کل اور آج میں کوئی فرق نہیں ہے، کل بھی بھارت کاکام یہی تھاکہ یہ اپنی زمین میں ہونے والی ہر دہشت گردی کا فوراََ ہی ساراالزام پاکستان پر دھردیاکرتاتھا اور آج بھی جب پاکستان یہ سمجھتارہاکہ مودی اپنے 120افراد کے ہمراہ پاکستان آئے اور پاکستانی نمک اپنی زبان اور حلق کے راستے اپنے پیٹ میں اُتارچکے ہیں تو کچھ تو نمک حلالی کریںگے مگر ایسانہیں ہواآج تین ہفتے بعد پھر بھی بھارتیوںنے وہی کردیا جس کی توقع ہم اِن سے بھول چکے تھے اِس میں شک نہیں ہے کہ سانحہ پٹھان کوٹ کے بعد بڑی شدت سے یہی محسوس کیا جانے لگا ہے کہ بھارت پٹھان کوٹ کا ذمہ دار بھی پاکستان کو قرار دے رہاہے۔مگر آج فرق صرف اتنا ہے کہ اِس مرتبہ بھارت نے پاکستان پر فوراََ الزام تراشی تو نہیں کی ہے مگر کچھ دنوں بعد بڑے ڈرامائی انداز سے وہی کچھ کررہاہے جیسا بھارت ہر بار کرتاآیاہے۔
آج بس..!! 2جنوری 2016کے سانحہ پٹھان کوٹ پر بھارت نے یہ کیا ہے کہ اِس نے پاکستان پر الزام تراشی کے لئے بڑے ڈرامائی انداز سے جس مہارتی تیکنیک کا مظاہرہ کیا ہے اَب یہ بھی پاکستانیوں سمیت ساری دنیا کو سمجھ آنے لگاہے۔ اِس مرتبہ بھارت اپنے جس ڈرامائی انداز کو اپنارہاہے اور اپنے بھارتی شہریوں اور دنیا والوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ بھارت تو اپنے پڑوسیوں سے اچھے دوستانہ تعلقات استوار کرناچاہ رہاہے، تب ہی اِس نے سرحد پار کسی مُلک کا تُرنت نام نہیں لیا ہے مگر سرحدپار کسی مُلک کو اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے لئے بھی کھلا میدان نہیں چھوڑے گا۔ ایسے میں یہاں یہ بات واضح ہوئی کہ ہم پاکستانی کچھ بھی اچھاکرلیں مگر بھارت پاکستان کا کبھی بھی اچھاپڑوسی اور اچھا دوست نہیں بن سکتاہے ، اِس کے دل اور دماغ میں ہمیشہ سے جو پاکستان سے نفرت کی چنگاری موجودتھی وہ آج بھی موجودہے اور کل بھی موجودہ رہے گی، جو کبھی بھی کسی بڑے شعلے کو بھڑکا کرکوئی بھی سانحہ جنم دے دیگی اور یوں بھارت ہر مرتبہ اپنی اندرونی چپقلش کا الزام بھی پاکستان کے سر دے مارتارہے گا۔