واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ امریکا کی 2015 کے جوہری معاہدے پر بات چیت میں واپسی پر ایران کے ساتھ ہمارے صبرو تحمل کی کچھ “حدود ہیں”۔
گذشتہ ہفتے امریکی حکومت نے ایران سے کہا تھا کہ واشنگٹن دوسرے ممالک اور ایران کے ساتھ مشترکہ طورپر جوہری معاہدے پر بات چیت کے لیے تیار ہے تاہم اس حوالےسے ایران نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
پریس بریفنگ میں جب وزارت خارجہ کے ترجمان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا اس پیش کش کی میعاد ختم ہونے کی کوئی آخری تاریخ ہے تو نیڈ پرائس نے کہا کہ جوہری معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اور اس کی جوہری سرگرمیوں پر پابندیوں سے معاملہ امریکا کے لیے ایک “فوری چیلنج” بن گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے صبر کی حدود ہیں لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایران کو جوہری معاہدے کی شرائط کا پابند بنائیںگے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر جوبائیڈن کا ایران کے معاملے میں موقف واضح ہے اور ہم یہ معاملہ سفارت کاری اور سیاسی بات چیت سے حل کریں گے۔
بدھ کو وائٹ ہاؤس نے بدھ کے روز العربیہ کو بتایا کہ جوہری معاہدے پر عمل پیرا ہونے سے قبل امریکا ایران پر کسی قسم کی پابندیاں نہیں اٹھائے گا۔
ریپبلکن سینیٹر ٹام کاٹن نے بدھ کے روز ٹویٹر پر ایک ٹویٹ میں زور دیا کہ جب تک ایران جوہری ہتھیاروں کی تلاش، دہشت گردی کی حمایت اور یرغمالیوں کو گرفتار رکھتا ہے اس وقت تک ایران پر مکمل پابندیاں نافذ رہنی چاہئیں۔
قابل ذکر ہے کہ بدھ کے روز ‘ سی آئی اے’ کے مجوزہ سربراہ نے کہا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا ایک جامع حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ولیم برنس نے کہا کہ ایران سے مختلف خطرات سے نمٹنے کی کلید ایک جامع حکمت عملی ہے اور ایران کو جوہری ہتھیار کے حصول سے روکنا اس ایک حصہ ہے۔