ہم تو اکڑتے پھرتے تھے کہ ہمارے وزیرِاعظم نے فون کالز پر عوام سے براہِ راست مخاطب ہو کر تاریخ رقم کر دی لیکن ایک لیگئیے نے یہ کہہ کر ہماری ساری اکڑخوں ختم کر دی کہ یہ کام تو بہت پہلے نوے کی دہائی میں اُس وقت کے وزیرِاعظم میاں نواز شریف کر چکے۔ وہ بولا” اپنے ”قائدِاعظم ثانی” سے کہو کہ کچھ نیا کرکے دکھائے کیونکہ اُس نے تبدیلی کا نعرہ بلند کرکے حکومت ہتھیائی”۔ ہم چاہتے تو اُس کو مُنہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہہ سکتے تھے کہ تبدیلی تو اُس وقت ہی آگئی تھی جب 2014ء کے دھرنے میں کنٹینر پر کھڑے ہوکر کپتان نے کہا تھا ”کون کہتا ہے کہ تبدیلی نہیں آئی، میرے گھر میں تو تبدیلی آگئی ہے”۔ لیکن ہم نے بحث مناسب نہیں سمجھی کیونکہ اُنہیں اپنی حکومت چھِن جانے کا دُکھ ہی لے کر بیٹھ گیا ہے جس کی وجہ سے وہ اول فول بکتے رہتے ہیں۔ اُدھر پی ڈی ایم میں ”افراتفری” بھی اُنہیں مایوسیوں کے سمندر میں دھکیل رہی ہے لیکن جب کچھ تجزیہ نگاروں نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ وزیرِ اعظم کی کالز لائیو نہیں، ریکارڈڈ تھیں اور اِس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ اُنہیں اچھی طرح سے ایڈیٹ کیا جائے تاکہ کوئی سوال ایسا نہ ہو جو وزیرِاعظم کے ماتھے پر پسینہ لے آئے، تو ہمیں ایسے ”سَڑے بُسے” تجزیہ نگاروں پر بہت غصہ آیا۔ اِن سے پوچھا جائے کہ کیا وہ سلیمانی ٹوپی پہن کر اُس جگہ موجود تھے جہاں کالز ایڈیٹ کی جا رہی تھیں؟۔
ہمارے وزیرِاعظم عوام سے براہِ راست مخاطب ہوئے اور کہا کہ اُنہیں مہنگائی کا احساس ہے ”بَس تھوڑا سا صبر اور”۔ جب یہی نصیحت ہم نے ایک پپلئیے کو کی تو وہ بولا ”بابا جی کہتے ہیں بیٹا صبر کا پھل میٹھا ہوتاہے مگر اتنا صبر بھی نہ کرو کہ جب پھل کھانے کی نوبت آئے تو تمہارے مُنہ میں دانت ہی نہ ہوں”۔ تمہارے لیڈر نے اڑھائی سال تو ”گھبرانا نہیں” اور صبر کی تلقین کرتے گزار دی، اگر کچھ کیا تو ترقیٔ معکوس اور چور چور کی گردان۔ پھر اُس نے کہا ،تمہارا لیڈر کہتا تھا اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو سمجھ لیں کہ حاکم چور ہے۔ اب 45 دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 3 بار بڑھی ہیں۔ کیا آپ اپنے قائد کو چور کہنا پسند فرمائیں گی؟۔ ہم نے کہا ”مُنہ سنبھال کے بات کرو۔ خبردار جو ہمارے عظیم قائد کے بارے میں بَدکلامی کی”۔ وہ تو یہ کہتے ہوئے کہ لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ بے ننگ ونام ہے، البتہ ہمیں سوچوں کے بھنور میں چھوڑ گیا۔
ہم نے ڈرتے ڈرتے اور چپکے چپکے اپنی حکومت کی کارکردگی کو ”پھرولا” تو یہ دیکھ کر ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے کہ 64 روپے لیٹر خریدا جانے والا پٹرول 111 روپے اور 70 روپے لیٹر خریدا جانے والا ڈیزل 116 روپے فی لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ ہمارے لیڈر کے خلاف گھناؤنی سازش ہے کیونکہ وہ تو قومی درد میں اتنے گھُلے جا رہے ہیں کہ اُن کا وزن 185 پاؤنڈ سے 200 پاؤنڈ ہو گیاہے۔ اگر یہ اُن کے خلاف بین الآقوامی سازش نہیں تو کرپٹ اپوزیشن کی سازش ضرور ہے جس کا قوم کو احساس ہے نہ ادراک۔ سبھی جانتے ہیںکہ وہ دن میں کئی کئی میٹنگز کرتے ہیں جن میں ایجنڈے پر صرف 2 ہی باتیں ہوتی ہیں، اپوزیشن کی دُرگت کے نِت نئے طریقے اور قومی درد۔ اگر پھر بھی صورتِ حال ”گلاس توڑا، بارہ آنے” والی رہتی ہے تو اِس میں اُن کا قصور ہے نہ اُن کی ”آنیاں جانیاں” کا۔ اب تو اُنہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر میاں نوازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن لوٹا ہوا مال واپس کر دیں تو وہ استعفیٰ دینے کو تیار ہیں لیکن اپوزیشن لوٹے ہوئے مال کے ثبوت مانگتی ہے۔ کسی ستم ظریف نے کہا کہ اگر اپوزیشن نے بغیر ثبوت کے اپنے ”خون پسینے” کی کمائی وزیرِاعظم کے سپرد کر بھی دی تو پھر بھی کپتان کا کوئی اعتبار نہیں، وہ مسکراتے ہوئے یوٹرن لے لے گا۔ ہمیں دُکھ ہے کہ جس طرح میاں نوازشریف کا ”مجھے کیوں نکالا” والا بیانیہ پِٹ چکاہے اِسی طرح ہمارے قائد کے کرپشن والے بیانیے کی بھی بھَد اُڑائی جا رہی ہے جس کی واحد وجہ ”ٹُٹ پینی” مہنگائی ہے۔
کسی نے ہمیں بتایا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں 2019ء کے مقابلے میں 2020ء میں کرپشن 4 درجے بڑھ چکی۔ ہم نے اِس پراعتبارنہ کرتے ہوئے اُسے کہا کہ ہمیں یقین ہے یہ بھی پیپلزپارٹی، نوازلیگ اور مولانا فضل الرحمٰن کی ہمارے قائد کے خلاف کوئی گہری سازش ہے۔اُس نے کہا کہ ادارہ شماریات تو حکومت کا ہے، اگر اُس پر یقین ہے تو اُس کی رپورٹ پڑھئیے اور سر دھنئیے۔ ہم نے جب ادارہ شماریات کی رواں ہفتے کی رپورٹ کا مطالعہ کیا تو ایک دفعہ پھر ہمارے سارے طبق روشن ہوتے ہوتے رہ گئے۔ رپورٹ میں لکھا تھا کہ رواں ہفتے میں چینی، گندم، گھی، خوردنی تیل، سرسوں کا تیل، پٹرول، ڈیزل، مصالہ جات، دودھ، مونگ کی دال اور مچھلی مہنگے ہوئے۔ ایل این جی اور سی این جی بھی مہنگی ہوگئی۔ ہمیں یہ تو پتہ تھاکہ بجلی کا بِل اب تین، تین گنا زیادہ آتاہے لیکن حیرت تواُس وقت ہوئی جب ہم 2 ماہ تک ہیوسٹن (امریکہ) میں رہے اور گھریلو ملازم شام کو گیراج اور راہداری کی ایک ایک لائیٹ جلاتا رہا (باقی پورا گھر لاک تھا) لیکن ایک ماہ کا بِل 7 ہزار اور دوسرے کا 8 ہزار آیاوہ بھی سردیوں میں۔ پہلے تو ہم اپنے قائد سے تھوڑا بَدظن ہوئے لیکن پھر یہ سوچ کر خون کے گھونٹ پی لیے کہ یقیناََ یہ بھی میٹرریڈر کی ہمارے قائد کے خلاف سازش ہے۔ یہ تو ہمیں پہلے ہی پتہ تھا کہ وہ میٹر ریڈر لیگیاہے لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ اِس طریقے سے اپنا ”ساڑ” پھونکے گا۔
دوسری طرف پی ڈی ایم کی سیاست کا تقریباََ دھڑن تختہ ہو چکاہے۔ اُس کی اندرونی پھوٹ اب اندھوں کو بھی نظر آنے لگی ہے۔ آصف زرداری کی اپنی ڈفلی ہے اور میاں نوازشریف کا اپناراگ۔ 4 فروری کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں استعفوں کا فیصلہ ہوسکا نہ تحریکِ عدم اعتماد کا البتہ 26 مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا فیصلہ ہوا لیکن وہ بھی ٹوٹاپھوٹا۔ کہا گیا کہ 26 مارچ کو لانگ مارچ ہوگا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ دھرنا بھی ہوگا یا نہیں۔ سینٹ کے انتخابات مشترکہ طور پر لڑنے کا فیصلہ کیا گیالیکن ہمیں یقین کہ مشترکہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے کی صورت میں پی ڈی ایم مذید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی اور تحریکِ انصاف کو سینٹ میں بھی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ اِس صورت میں حکومت مَن مرضی کی قانون سازی کی اہل ہوجائے گی۔ اِس لیے ہم سمجھتے ہں کہ حکومت کے پاس اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ اُس کے سامنے نہ تو حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی کوئی جماعت ہے اور نہ ہی کوئی ایسی رکاوٹ جو اُس کی راہ میں روڑے اٹکا ئے۔ مقتدر قوتوں کا دستِ شفقت اب بھی اُس کے سر پر ہے جس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ حکومت اِس موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے اپوزیشن کو رگیدنے اور چور چور، ڈاکو ڈاکو کی گردان کرنے کی بجائے مہنگائی کے خاتمے پر توجہ دے اور زرتاج گل جیسی ارسطوانہ ذہن رکھنے والی وزیر باتدبیر کو ”ہَتھ ہولا” رکھنے کی تلقین کرے جو کراچی کی بھینس کالونی کی گائے کے گوبر سے بسیں چلانے کی نوید سنا رہی ہے۔