ایک شدید ذہنی مرض جس میں مبتلا انسان خود کو دنیا کا سب سے زیادہ مجبور اور قابل ترس انسان سمجھتا ہے۔ یہ مرض مرد و زن دونوں ہی میں پایا جاتا یے۔ اس مریض کا مالی طور پر کوئی طبقہ نہیں ہوتا۔ یہ کروڑ پتی ہو یا بھکاری۔ دونوں ہی صورتوں میں اس کے منہ پر بارہ ہی بجے رہتے ہیں۔
خوشی کے مواقع پر بھی اسے اپنے رونے پیٹنے ، مرے ماروں ، اور غم و اندوہ کے واقعات سنانے کا موقع ڈھونڈنا خوب آتا ہے ۔ نہ یہ خوش ہوتا ہے نہ کسی کو ہوتا دیکھ سکتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر غم کی لکیریں اتنی واضح چھپ جاتی ہیں ۔ کہ ان کا چہرہ دیکھتے ہی سامنے والا انا للہ پڑھنے کا ذہن بنا لیتا ہے۔
ان میں مختلف ذہن اور سوچ کے کوگ شامل ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ اکثر شادی شدہ لوگ غیر شادی شدہ کوگوں کو دیکھ کر خود ہر ترس کھاتے پائے جاتے ہیں کہ ہک ہائے کیا آزاد زندگی جی رہے ہیں یہ اور ہم کس عذاب میں پڑ چکے ہیں ۔ جبکہ وہ کنوارے یہ۔سوچ کر خود ترسی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ واہ بھئی کیا ٹھاٹھ اور لاڈ ہیں ان کے ۔ جو چاہیں منوا لیتے ہیں دوسروں سے ۔۔مالک یہ سوچ کر خود پر ترس کھاتا ہے کہ ملازم ہونا کتنا اچھا ہے۔۔
کیا کرنا ہے کیا لانا ہے ،کیسے پورا کرنا ہے ہر ٹینشن سے آزاد مہینے بھر مقررہ گھنٹے کام کیا، بندھی ہوئی تنخواہ اٹھائی اور مزے کیئے ۔ جبکہ اسی مرض میں مبتلا ملازم سوچتا ہے کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے بھلا، مالک کو دیکھو کتنا مال بناتا ہے ، کتنے لوگوں پر حکم چلاتا ہے ، کتنا خودمختار ہے ،کوئی کام نہیں کرتا ،سب ملازمین سے کرواتا ہے ۔ ۔۔
ایسے خود ترسوں کو سوئی چھبھ جانا کسی اور کو گولی لگ جانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور بڑا سانحہ ہوتا ہے (اسکی نظر میں )۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ سننے والا اپنی اصل پریشانی کو بھی معمول خیال کرنے لگتا ہے ۔ لیکن ان کا یہ ڈرامہ ان کے ملنے والوں اور جاننے والوں کوجلد ہی ان سے متنفر اور بیزار کرنے کا ہی باعث بنتا ہے ۔ اور ایک روز یہ اپنے جھوٹے اور خودساختہ قصوں اور اپنی خود ترسی کیساتھ اکیلے ہی رہ جاتے ہیں ۔غور کیا جائے تو خود ترسی بھی ناشکری کی ہی ایک شکل ہے ۔ یعنی اپنے حال سے دونوں ہی ناخوش رہتے ہیں خود ترس بھی اور ناشکرے بھی ۔
ایسے لوگوں میں ہی سب سے زیادہ شرح ڈپریشن یا مایوسی کا شکار ہونے والوں کی ہوتی ہے ۔ یہ عادت اگر وقت پر قابو نہ کی جا سکے تو خدانخواستہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے ۔
ایسے لوگوں کو چاہیئے کہ کوئی ان کی اس عادت کی نشاندہی کروائے تو ناراض ہونے کے بجائے اپنی اس عادت پر غور کرے اور اپنے گھر باہر کسی اچھے دوست کو کہیں کہ وہ آپ کو اس کیفیت میں مبتلا ہوتے ہی کسی اشارے سے روکے ۔ اس کے علاوہ ان کے لیئے بہت ضروری ہے کہ اپنی ذات کے قید خانے سے بار نکل کر اللہ کی مخلوق پر نظر ڈالیں ۔ ان کی سنیں ۔ ان کے حالات میں ان چیزوں اور باتوں پر نظر دوڑائیں ۔ جو ان کے پاس نہیں ہیں لیکن اللہ پاک نے آپ کو عطا کر رکھی ہیں ۔ چاہے وہ علم ہو ،رتبہ ہو، ، صحت ہو، گھر بار ہو، رشتے ناطے ہوں ، وقت ہو، رزق ہو، یا فرصت ہو۔۔جب دوسرے کی کمی سے اپنی عطاء کا موازنہ کرنے کی عادت ہو جائے گی ۔ تو شکر گزاری آپ کے مزاج کا ایک خوبصورت حصہ بن جائے گی۔ جس کی روشنی آپ کی روح کو ہی نہیں چہرے کو بھی روشن ،حسین اور مطئن بنا دیگی۔