تحریر : ملک نذیر اعوان قارئین محترم خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق فرمایا کرتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے پر کوئی کتا بھی بھوکا اورپیاسا مر گیا تو عمر اس کا جواب دہ ہو گا۔لیکن آج جو ہمارے معاشرے کے اندر رہتے ہوئے انسانوںکے ساتھ سلوک ہو رہا ہے یہ تو جانوروں سے بھی بد تر ہے۔قارئین چند دن پہلے قصورکی خاتون زہرا بی بی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیااس نے ہر انسان کے دل کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔اس واقعہ کی جتنی مزمت کی جائے اتنی کم ہے۔قارئین پیر کی صبح جب دل کی مریضہ زہرا بی بی کو اپنے بیٹوں نے جناح ہسپتال کی ایمبر جینسی میں لایاتو ڈاکٹروں نے نہایت لاپرواہی کا ثبوت دیازہرا بی بی کو صحیح طریقے سے چیک نہیں کیا گیا۔۔
اس کے ٹیسٹوں کا جائزہ نہیں لیا گیا اور نارمل چیک اپ کے بعدڈرپ لگا کرفرش کے نیچے لٹا دیا گیااور یہاں تک کہ زہرا بی بی کو بیڈ بھی نہ دیا گیا اور کچھ دیر کے بعداسی ٹھنڈے فرش پربیچاری زہرا بی بی کا دم نکل گیا۔یہ کتنی دکھ اور شرم کی بات ہے یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ڈیلی بیس پر ہزاروں ایسی اموات ہوتی ہیں۔دو دن پہلے گوجروانوالہ کے حاجی مشتاق کو جب ہسپتال میں لایا گیاتو بر وقت اس کی ڈیلیسز نہ کی گئی جس سے وہ جان کی بازی ہار گیا۔
اگر حقیقت بیان کی جائے تو غریب آدمی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔غریب شخص بیچارہ سرکاری ہسپتالوں کا سہارا لیتا ہے اور پھر سرکاری ہسپتالوں میںغریبوں پر ڈاکٹر خاص توجہ نہیں دیتے کیونکہ ڈاکٹروں کے جو اپنے ذاتی کیس ہوتے ہیں ان پر توجہ دیتے ہیں ۔جن سے وہ پیسے بٹورتے ہیں ۔قارئین جو سیاست دان اور وڈیرے ہیں اگران کو معمولی سر میں بھی درد ہو تو یہ باہر جاتے ہیں۔
Lack of Medical Facilities in Pakistan
اس کے بر عکس غریبوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے غریب بیچارے در بدر پھررہے ہیں ان کا کوئی ولی وارث نہیں ہے۔زہرا بی بی کے کیس پرپنجاب کے خادم اعلیٰ شہباز شریف صاحب نے نوٹس تو لے لیا لیکن اس پر عمل در آمد بھی ہونا چاہیئے۔اور جن لوگوں نے زہرا بی بی کے ساتھ غفلت سے کام لیا ہے وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔قارئین محترم قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کا ترجمعہ یہ ہے ،،کہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہوتی ہے۔لیکن آج تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم سب اس سے باخبر ہیں ۔قارئین میں تو ہر وقت دعا کرتا رہتا ہوںکہ اللہ پاک ہر آدمی کو تنددرستی دے اور ہسپاتالوں کے چکروں سے بچائے ہاسپیٹل میںجب ڈاکٹروں اور سٹاف کا رویہ دیکھتا ہوںدل خون کے آنسو روتا ہے۔
سب سٹاف ایک جیسا نہیں ہوتا ہے میڈیکل شعبہ کیا ہے یہ دکھی انسانیت ہے ہر آدمی کے ساتھ اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اخلاق سے بڑھ کر کوئے اور چیز نہیں ہے۔سرکار دو عالم ۖ کا فرمان مبارک ہے کہ جس شخص کے اخلاق اچھے ہیں وہ قیامت کے دن اس طرح میرے قریب ہو گا جس طرح میرے دونوں ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔اور آخر میں ہماری پنجاب کے خادم اعلیٰ شہباز شریف صاحب سے گذارش ہے کہ ہسپاتالوں کی کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنائیں۔خادمہ اعلیٰ صاحب انسان کی جو بنیادی ایشیو ہیں اس پر زیادہ فوکس کریں ۔خادمہ اعلیٰ صاحب اورنج ٹرین،میٹرو منصوبوں پر تو آپکی حکومت نے اربوں کھربوں صرف کر دیے لیکن اس کے برعکس جو عوام کے بنیادی مسائل صحت۔تعلیم،پینے کا صاف پانی اور مہنگائی اس پر بھی خاص توجہ دیں۔
حقیقت میں ہمارے حکمران دوسرے ملکوں کا رقص کرتے ہیں لیکن یہ ملک سب سے پہلے بنیادی مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔خادمہ اعلیٰ صاحب آپ کی کارکرگی دوسرے صوبوں سے بہتر ہے بے شک آپ میٹرو ٹرین اور پل بنائیں۔مگر ہسپاتالوں پر خصوصی توجہ دیں ہسپاتالوں میںوینٹیلیٹر اور مشینیں زیادہ مقدار میں مہیا کریں تاکہ مریضوں کوپریشانی نہ ہواور ہاسپیٹل کے سٹاف کا جو ایم ایس ہے اس کو ہدایات جاری کریںکہ سٹاف کا اخلاق درست کریںتاکہ سٹاف تمام مریضوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور اخلاق کے دامن کو برقرار رکھیں اور مریضوں کی دعائیں لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔