تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری پاکستان میں جان لیوا امراض میں مبتلا مریضوں کی ادویات بالخصوص امراض دل ،ہیپاٹائٹس ،پھیپھڑوں ،گردوں ،جگر پتہ وغیرہ اور جان بچانے والی ادویات اتنی مہنگی ہیں کہ عام غریب مریض کی پہنچ سے بہت دور ہیں اسطرح پاکستان میں غریبوں کا علاج ہو ہی نہیں سکتا خادم اعلیٰ و مرکزی حکومت کے خالی خولی دعوے اور وعدے ہیں مگر ہسپتالوں میں ادویات قطعاً نہیں مہیا ہو پاتیںحکومتی اعلانات کے بالکل الٹ ہورہا ہے ہسپتالوں کے انچارج ایم ایس و دیگر انتظامی افراد جو مہنگی ادویات اوپر سے آتی ہیںان کا لازماً آدھے سے زیادہ حصہ فوراً اپنے پسندیدہ میڈیکل سٹورز کو بیچ ڈالتے ہیںحکومت کے نئے اعلانات کہ مزید ہسپتال قائم کیے جارہے ہیں۔
بالکل فضول اور پیسے اینٹھنے والااآئیٹم ہے پہلے موجودہ ہسپتالوں کی حالت زار کو درست کیا جانا چاہیے نئے بھرتی شدہ ڈاکٹرز کو اعلیٰ تنخواہیں اور سہولتیں مہیا ہوں تو وہ اپنے حلف کے علی الرغم کیوں ہڑتالیں کرتے پھریں؟ ہسپتالوں میں تو اسپرین تک بھی مریضوں کو نہیں ملتی اور جو مریض سفارشیں کروانے کے بعد داخل ہوجائے اسے سرنج تک بھی باہر سے خریدنا پڑتی ہے۔ہسپتالوںمیں موجود سٹورز کے انچارج بچی کھچی دوائیاں بھی ہضم کرنے کا عزم کیے ہوتے ہیںاگر ادویات رجسٹروں میں درج ہوکر وارڈوں میں نرسز انچارج کے پاس پہنچ بھی جائیں تو وہ بھی مہنگے اینٹی بائیوٹک خود رکھ لیتی ہیں اور ڈیوٹی کے بعد باہر جا کر بیچ ڈالتی ہیںاس طرح وہ بھی اپنی دیہاڑی ہزاروں کی لگا لیتی ہیں۔
یہ چوری کیسے پکڑی جائے گی کہ ایم ایس اگر ایماندا ر مقرر کردیے جائیں تو وہ کسی وارڈ بوائے یا دوسری ایماندار نرس کے ذریعے سارا راز فاش کرواسکتے ہیں پھر ایسی کرپٹ نرسز اورہسپتال کے میڈیکل سٹور کے انچارج کو قرار واقعی سزا ئیں دی جائیں اور ان کی خوب تشہیر کی جائے تو پھر کوئی دوسرا ادویات کا چور ایسا عمل نہ کرے گا مگر “مجھاں مجھاں دیاں بہناں ہوندیاں نیں”اسلئے کیونکہ اوپر سے نیچے تک حکمرانوں کی طرح ہسپتالوں میں بھی آوے کا آوا بگڑا ہوا ہوتا ہے اسلئے چھوٹے چوروں کو بھی پکڑا نہیں جا سکتا۔ہمارے ہاں ادویات اسلئے بھی مہنگی ہیںکہ ادویات تیار کرنے والی فیکٹریاں زیادہ منافع کمانے کے لیے وزارت صحت کو کروڑوں روپیہ رشوت دیکر اپنی ادویات کی قیمتوں کاتعین کرواتی ہیںمثال کے طور پر ہیپا ٹائیٹس کی ادویات پاکستان میں اگر روزانہ کافل کورس 275میں مل جاتا ہے تو وہی ادویات اانڈیا میں روزانہ 30روپے کی قیمت پر مل جاتی ہیں اتنا بڑا فرق کیسے اور کیونکر ہوگیا کہ سارا را میٹریل Material RAW انڈیا اور پاکستان میں ایک ہی جگہ اور ملک سے حاصل کیا جاتا ہے در اصل منسٹری آف ہیلتھ اور دیگر ذمہ داران جو ادویات کی قیمتیں مقرر کرتے ہیں وہ اس کی قیمت مقرر کرتے وقت ڈھیروں ساری رشوت وصول کرتے ہیںتبھی اس کی قیمت کا تعین ہو سکتا ہے۔
آپ حیران ہو جائیں گے کہ کسی دوائی کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ کرنے کے لیے مرکزی محکمہ صحت کے افراد ایک کروڑ روپے تک وصول کر لیتے ہیں علی ھذا لقیاس ۔اب جبکہ صرف ہیپاٹائیٹس کی ادویات انڈیا میں 9گنا ہ سستی ہیں اس طرح باقی فی کس روزانہ245روپے کس کی جیب میں جارہے ہیں لا محالہ محکمہ تجارت و صحت ہی اس کے ذمہ دار ہیںاس طرح رشوت کھربوں تک پہنچ جاتی ہے تبھی ادویات کی قیمتیں اتنی مہنگی ہوجاتی ہیں نام نہاد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی تو سفید ہاتھی کی مانند ہے وہ ان سمگلروں سے مل کر مال بٹور رہی ہیںاس طرح ایسے کرپٹ افراد کی بیرون ملک کئی پانامہ و وکی لیکس بن چکی ہیںکئی ڈرگ کمپنیوں نے وزارت صحت سے ڈیکلا سٹور نامی گولی جو کہ ہیپا ٹائٹس کے امراض کے لیے اشد ضروری ہے یہاں پاکستان میں تیار کرنے کی اجازت مانگی مگر وزارت صحت چونکہ یہاں اسے بھارت کی نسبت 10گنا زیادہ قیمت پر بکوا رہی ہے تو وہ کیوں اپنی اربوں کی حرام کمائی یوں ضائع ہونے دے گی؟ ویسے حکومت سے نئے ہسپتال بنوانے کی تجویز بھی ان لوگوں کی ہے جو تعمیرات میں گھپلوں کے ذریعے کروڑوں کمانا چاہتے ہیںوگرنہ موجودہ ہسپتالوں کا نظام درست کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔
اسی طرح کمپنیوں کے میڈیکل ریپس جب ڈاکٹروں کو آکر سیمپلنگ دیکر اپنا مخصوص برانڈ نسخوں میں لکھنے کے لیے گزارش کرتے ہیں تو ساتھ ہی وہ ڈاکٹروں کو بھاری رشوت کی آفر کرتے ہیں وہ عمرہ کا ٹکٹ حتیٰ کہ اچھے ماڈل کی کار اور تمام گھر کا فرنیچر تبدیل کر ڈالنے یاکئی کمروں میں سپلٹ اے سی لگوا کر دینے یا پھر نقد ہی لکھو کھا روپے کا لین دین کرتے ہیںتاکہ ڈاکٹر ان کی دوائی ہی لکھیں اور بیشتر میڈیکل سٹورز پر ان کی دوائی بکنے لگ جائے ایسی ہی وجوہات کی بنا پر ہمارے ہاں بھارت سے ادویات آٹھ یا دس گنا مہنگی بک رہی ہیںکہ یہ سارے خرچے بالآخرادویات کی قیمت فروخت میں ڈال دیے جاتے ہیں جنہیں غریب مریضوں نے ہی مرتے کیا نہ کرتے خریدنا پڑتا ہے۔بڑا ظلم یہ بھی ہے کہ سیپملنگ کے وقت دوائی کی مقدار اور پوٹینسی پوری ہوتی ہے اور مارکیٹ میں بکنے والی ادویات میں اسی سالٹ کی مقدار کم ہوجاتی ہے ڈاکٹروں کے لکھنے کے باوجود مریض صھت یاب نہیں ہوپاتے تو اس میں قصور وار ادویات تیار کرنے والی فیکٹریوں کے سود خور نو دولتیے سرمایہ دار ہی ہوتے ہیں پھر یہاں تک کہ دو نمبر ادویات کی مارکیٹ میں بھرمار ہے یہ کہاں سے آتی ہیں یہ ہماری ہی دھرتی پر تیار ہوکر فروخت ہوتی ہیں تھانوں کوہر دو نمبر کاروبار کی طرح اس میں منتھلیاں ملتی ہیںاور میڈیکل سٹور مالکان زیادہ منافعوں کے لالچ میںخرید کر ڈھیروں مال کماتے ہیں مریض خواہ مرتے رہیں مگر آج ہرکسی کومقتدر افراد کی طرح مایہ اور حرام مال اکٹھے کرنے کی پڑی ہوئی ہے۔