نوٹ قارائین سے گزارش ہے کہ اس کالم کا عدم توجہی سے مطالعہ نہ فرمائیں۔ اور اپنی رائے ای میل کر کے دیں میں نے جب سے یہ پڑھا ہے ایک بے کلی، بے چینی سی ہے، دل میں ایک اداسی سی ہے۔ اور بے بسی کی وجہ سے غم اور بھی سوا ہوا ہے۔ جنگ عظیم اول کی بات ہے جب اتحادیوں سے شکست خورہ جرمن قوم نے ہتھیار ڈالنے سے پہلے فاتح فوج سے اک مطالبہ منوایا۔ اور پھر چالیس سال بعد دنیا نے دیکھا اس کا نتیجہ کہ آج جرمن نے وہی مقام دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ اسی طرح جاپان پر جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایٹمی حملہ کیا اور تب بھی جاپان نے اپنی فاتح قوم سے ایک مطالبہ کیا تھا جس کو مان لیا گیا۔یوں آج جاپانی ین کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔آپ مفتوح ملک کا اپنے فاتح سے منوائے جانے والے یہ مطالبہ پڑھ کر حیران ہوں گے۔
انہوں نے کہا تھا، کہ ہمارے نظام تعلیم اور استاتذہ کو نہ چھیڑاجائے ان کو تحفظ دیا جائے،ان میں دخل اندازی نہ کی جائے۔تب سے اب تک ایک تو میں دل سے جاپان اور جرمن کے ان حکمرانوں جنہوں نے اپنی نسلوں کو غلامی سے بچا لیا، دور رس سوچ پر حیران ہوں۔۔اور ایک واقعہ ہے لارڈ میکالے کا جن سے ہم سب واقف ہیں۔ اس پر بات کرنے سے پہلے میں پاکستان میں ڈائریکٹ میٹھڈ کے نام سے رائج نظام تعلیم پر بات کرنا چاہتا ہوں جس کے مطابق، اردو لکھتے، بولتے سائنسی اصطلاحات کا عام فہم ارود ترجمہ کرنے کی بجائے انگریزی اصطلاحات و الفاظ ہی استعمال کیے جائیں، آپ کیا سمجھے میں کیا کہنا چاہتا ہوں مثلا سبز ہ خور جانوروں کے لیے ہربی وورز کا لفظ استعمال کیا جائے۔ اس کا معنی نہ بتایا جائے۔
ہمارے نصاب، نظام تعلیم کو ہمارے ماحول، ہماری زبان سے کاٹنے کا یہ عمل نسلوں کو برباد کرنے کا یہ فعل ایک تو ہمارے نصاب کو معیاری اور جدید بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس فارمولے سے رٹے بازی کو فروغ، فہم و ابلاغ سے دوری، قوم کے تہذیبی و ثقافتی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ اس سے ایسے طلبا پیدا ہوں گے جو اپنا خیال اپنی زبان میں تو کیا انگریزی میں بھی پیش نہ کر سکیں گے۔ ہماری نئی نسل کو اس طرح پڑھایا جا رہا ہے کہ انگریزی کو مادری زبان کی طرح۔ الفاظ کامعنی مطلب نہیں بتایا جاتا ہمارے ہاں ایسے سکول بھی ہیں جہاں اردو بولنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں جس کی سرکاری زبان اردو ہے اب آپ کا دل جو رونے کو کرئے یا ہنسنے کو آپ کی مرضی ہے۔ اصل میں یہ لارڈ میکالے کا ھی فلسفہ ہے۔
Lord Macaulay
جس کو مختلف نام دے کر ہماری آنکھوں میں دھول جھونکی جا ری ہے۔لارڈ میکالے کون تھا، اس کا فلسفہ تعلیم کیا تھا، اور اس کے بنائے ہوئے نظام تعلیم، وغیرہ کو آخر ہمارے ملک میں کیوں نافذ کیا گیا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ نافذ کرنے والے کون ہیں، ان کا کیا مفاد ہے، پھر اس کے خلاف آواز کیوں نہ اٹھائی گی آواز کس نے اٹھانی تھی اور کیوں نہ اٹھائی، وغیرہ ان سوالات کے جواب میں مختصر دینے کی کوشش کروں گا۔ ذرہ دھیان سے سنیں 2 فروری 1835 میں لارڈمیکالے کی تقریر جو اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں کی۔ اس میں سے چند باتیں اپ یاد دلانا چاہتا ہوں ویسے بھی ہمارہ حافظہ کمزور ہےخاص کر ان معاملات میں جن کا تعلق وطن سے ہو اس نے کہا تھا۔
مفہوم میں نے ہندوستان (موجودہ پاکستان اور بھارت)کا طول و عرض کا سفر کیا۔ ہم اس ملک کو کبھی فتح نہ کر سکیں گے یہان تک کہ ہم اس کی کمر نہ توڑ دیں اس کی کمر اس کی روحانی اور تمدنی میراث ہے۔ اس کے لیے میری تجویز ہے کہ ہندوستان کا قدیم تعلیمی نظام و تمدن تبدیل کر دیں اس کی جگہ ایسا نظام تعلیمو نصاب ہو جس کو پڑھ کر۔ ہندوستانی یہ سوچنے لگ جائیں کہ وہ سب کچھ جو انگریزی مین ہے، غیر ملکی ہے بہتر ہے، بدتر ہے۔ یعنی ان کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا جائے۔ ان کا نصاب، نظام تعلیم اس طرح کا بنا دیا جائے جس سے)اسطرح وہ احترام ذات سے، اپنے آبائی تمدن سے محروم ہو جائیں گے، اور ایک سچی مغلوب قوم بن جائے گی۔ اگر کونسل کے سربرہ کا وہی فیصلہ ہوا، جو میں نے کہا ہے۔
تو میں ذمہ داریاں پوری کروں گا۔ اور اگر اس کے برعکس فیصلہ ہوا تو مجھے اس کمیٹی سے سبکدوش ہونے کی اجازت دی جائے۔ لاڈمیکالے کی تقریر کے یہ الفاظ آپ دوبارہ پڑھیں وہ اپنے ملک کے لیے کتنا مخلص تھا، کتنا وفادار تھا، کتنا ایماندار، محنتی، تھا اور سب سے بڑہ کر اس کو اپنی بات پر کتنا یقین تھا۔ پھر یہ کہ مجھے اس کمیٹی سے الگ ہونے کی اجازت دی جائے جس میں میں اپنا کام نہیں کر سکتا۔ لارڈ میکالے کو طعنے دینے والو، اپنی ثقافت سے محبت کرنے والو، دیکھو اس دشمن نے جو چاہا کیسے حاصل کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ ہندوستان میں نیا نظام تعلیم متعارف کرایا جائے جس سے جدیدیت کے نام پر غلامانہ ذہنیت کو فروغ دیا جا سکے، اس نے اپنی دشمنی ایمانداری، دیانتداری اور پوری محنت اور منصوبہ بندی کے ساتھ نبھائی اور آج ہم میں سے اکثریت ویسی ہے جیسی وہ بنانا چاہتا تھا۔
Pakistan
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف جہاں اردو سرکاری زبان ہے جہاں اردو سے محبت کا دعوا کرنے والوں کی کمی نہیں۔ مگر اردو دفتری، نہ عدالتی بن سکی نہ یہ سرکاری زبان بن سکی۔ اس کے بر عکس بہت سے اردو کو ایک گھٹیا زبان سمجھتے ہیں۔ مگر اب تو اس کو اپنے گھر سے ہی نکالا جا رہا ہے۔ اور اس کے لیے ہمارے حکمرانوں کو اربوں ڈالر مل رہے ہیں۔ کیا یہ سامراجی طاقتیں اس لیے ڈالر دے رہی ہیں کہ ہم تعلیم میں ترقی کر جائیں نہیں بھائی یہ اردو کا رسمالخط بدلنا چاہتی ہیں جو عربی سے ملتا ہے، یہ ہمارے نوجوانوں کو رٹو طوطے بنانا چاہتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق (یہ ماہرین بھی اس قوم کے ہیں جو ہمارے ہاں انگریزی نرسری سے رائج کرنا چاہتے ہیں)کسی قوم کی ترقی میں 70 فیصد کردار اس کی مادری زبان ادا کرتی ہے۔
کوئی قوم اپنی مادری زبان سے کٹ کر ترقی نہیں کر سکتی۔ اور نہ ہی اس کی کوئی مثال ہے دنیا میں۔آج پاکستان میں 3500 سے زائد تنظیمیں فروغ تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں ۔بہت سی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں اس کے علاوہ ہیں۔ استاتذہ کے حقوق کے لیے کام کرنیوالی اس کے علاوہ تنظیمیں ہیں۔ استاد کو اسلام نے روحانی باپ کا درجہ دیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس کا درجہ حقیقی والدین سے زیادہ ہے۔ استاد کی فضیلت پر لاکھوں مضامیں لکھے جا چکے ہیں۔ حقیقت میں استاد ہی قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں استاتذہ کی اکثریت کا کیا حال ہے۔ کیا ہمارے استاذہ، ماہرین تعلیم، ہمارہ نظام تعلیم ترتیب دینے والے، ہمارہ نصاف تعلیم لکھنے والے(یہ سب استاتذہ ہی ہوتے ہیں)اور ہمارے حکمران ہماری آنے والی نسلوں سے مخلص ہیں۔
کیا وہ اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں۔ اردو سے محبت کے دعوے دار، فرسوہ نظام تعلیم کے مخالف، میدان میں کیوں نہیں نکلتے۔ سب سے بڑی ذمہ داری استاتذہ پر عائد ہوتی ہے ۔وہ میدان میں نکلتے ہیں مگر بھلا کس لے اکثریت استاتذہ کی تنظیمیں صرف ایک ہی مطالبہ دہراتی ہیں۔ کہ استاتذہ کی تنخواہیں بڑھائی جائیں، مراعات میں اضافہ کیا جائے ایسی کوئی تنظیم نہیں ہے۔ سوائے حافظ محمد سعید کی جماعت کے جو یہ مطالبہ کریں کہ لارڈ میکالے کا بنایا ہوا نظام تعلیم ہم کو قبول نہیں ہے۔ اس نئی نسل کو ذہنی غلام بنانے والے نظام تعلیم میں ہم تعلیم نہیں دیں گے۔ کاش کوئی (پاکستانی استاتذہ اپنے فرض کو سمجھیں)کوئی پاکستانی لارڈ میکالے بھی اٹھے۔ جس کو پاکستان سے محبت ہو، اپنی زبان سے محبت ہو۔ورنہ ہم سب لارڈ میکالے کو لعن طعن کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کریں گے۔