تحریر : پروفیسر رفعت مظہر پرویز مشرف نے ”سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگایا تو ہم خوش تھے کہ چلو پاکستان کو ایک محبِ وطن مِل گیا ۔قوم نے سوچاکہ وہ آمر ہے تو کیا ہوا، ملک کی تقدیر تو بدل سکتا ہے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اُس سے بڑا دروغ گو پاکستان کی تاریخ میں پیدا ہی نہیں ہوا ۔ دراصل اُس کے اِس نعرے کا قوم نے غلط مطلب لیا ۔پرویز مشرف کا مطلب تو یہ تھا کہ اُس میں جتنی ہمت اور سکت ہے اُس کو بروئے کار لا کر وہ خاکم بدہن سب سے پہلے پاکستان کو ہی برباد کرے گا جبکہ قوم یہ سمجھی کہ اِس نعرے کا مطلب یہ ہے کہ پرویز مشرف پاکستان کی سلامتی کی خاطر کسی حد تک بھی جا سکتا ہے ۔ پرویز مشرف کے بعد آصف زرداری نے بینظیر کی شہادت پر جذباتی ماحول میں ”پاکستان کھپے” کا نعرہ لگایا تو پوری قوم نے تحسین کی اور مسٹر ٹین پرسینٹ ، مسٹر سینٹ پرسینٹ جیسے نعرے بھول کر زرداری صاحب کو بھی نجات دہندہ سمجھنے لگی لیکن جونہی وہ برسرِاقتدار آئے ، اُنہوں نے واقعی پاکستان کو ”کھَپا” کے رکھ دیا ۔ اُنہی کے دَور میں غضب کرپشن کی عجب کہانیاں سامنے آئیںاور اُنہی کے مقرر کردہ چیئرمین نیب نے بَرملا کہا کہ پاکستان میں روزانہ آٹھ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے ۔ پاک فوج کو دھمکیاں دینے والے اور اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے جیسی ”بڑھکیں” لگانے والے زرداری صاحب پردیس سدھارے اور اُن کی جماعت (پیپلزپارٹی) سُکڑ سمٹ کر صرف دیہی سندھ کی ہو رہی۔
اکتوبر 11ء میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے کپتان صاحب نے جلسہ کیا جس میں شرکاء کی تعداد بلا مبالغہ محیرالعقول تھی ۔ کپتان صاحب کے مخالفین کے مخالف تجزیہ نگار حیران اور نوازلیگ سمیت سیاسی جماعتیں پریشان ۔ کہا جا سکتا ہے کہ بھٹو مرحوم کے بعد کپتان صاحب ہی وہ واحد شخصیت تھے جنہیں اتنا عروج ملا ۔ اُنہوں نے ”نیاپاکستان” کا نعرہ بلند کیا اورقوم نے اُن سے توقعات وابستہ کر لیں۔ اپنے آپ کوکپتان صاحب کا مشیرِ خصوصی سمجھنے والے سینئر لکھاری تو اُنہیں قومی نجات دہندہ اور قائدِ اعظم ثانی جیسے القاب سے نوازتے نہیں تھکتے تھے لیکن کپتان صاحب کی اِس مقبولیت کا دَورانیہ بہت کم رہا ۔ تحریکِ انصاف کا تو اُسی وقت زوال شروع ہو گیا جب وہی دیمک زدہ چہرے اُس میں دھڑا دھڑشامل ہونے لگے جنہیں آزما آزما کر قومی طبیعت” اوازار” ہو چکی تھی ۔ اِس کے باوجود بھی 2013ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف بلحاظِ ووٹ پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی مگر کپتان صاحب کو تو جلدی ہی بہت تھی۔
مسندِ اقتدار کی ہوس نے خاں صاحب کو احتجاجی سیاست کی راہ دکھائی اور وہ سڑکوں پرنکل کر وزیرِاعظم بننے کے خواب دیکھنے لگے ۔ اُدھر نوازلیگ نے ”شرارت” کرتے ہوئے خیبرپختونخواکی حکومت کپتان صاحب کے حوالے کر دی حالانکہ مولانا فضل الرحمٰن نے میاں نوازشریف صاحب کو بہت کہا کہ نوازلیگ اور جمعیت علمائے اسلام مِل کر آسانی سے حکومت بنا سکتے ہیں ۔غالباََ میاں صاحب کو اُس وقت بھی یقین تھا کہ کپتان صاحب خالی خولی ”بڑھک باز” ہیں اور وہ ”نیاپاکستان” تو کجا ”نیا پشاور” بھی نہیں بنا سکتے ۔ میاں صاحب کا سوچا سچ ثابت ہوا اور آج خیبرپختونخوا میں سرِمُوبھی فرق نظر نہیں آتا۔ خاںصاحب کی سیاست نے اگر قوم کو کچھ دیا ہے تو صرف غیرپارلیمانی اور بازاری زبان، نفرت ،بغض ،کینہ ،عداوت اور ذاتیات پر حملے۔ پاکستان میںایسی سیاست کا تو کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں محض تفریح اور مفت میں ”میوزیکل کنسرٹ” کے لیے اُن کے جلسوں میں آتے ہیںاور خاںصاحب اِس خوش فہمی میں کہ یہ” اُن” کے چاہنے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2013ء کے انتخابات میں اُنہیں توقع سے کہیں کم سیٹیں ملیں تو وہ اس شکست کو ہضم نہیں کرپائے۔
Imran Khan
جب سے کپتان صاحب سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے ہیں ،اُن کی شخصیت کے کئی روپ سامنے آئے ہیں ۔ قدم قدم پہ جھوٹ بولنا ، یو ٹرن لینا اور اپنی ہی کہی باتوں سے مُکر جانا اُن کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ یہ سب کچھ تو قوم نے برداشت کر لیا لیکن اب محض میاں برادران کی دشمنی میں وہ جن راہوں پہ چل نکلے ہیں وہ اُنہیں قصۂ پارینہ بنا دیں گی۔ دنیا جہاں کا اصول ہے کہ آزمائش و ابتلاء میں قومیںمتفق و متحد نظر آتی ہیں۔ آج ہمیں اپنے بَدترین دشمن اور پڑوسی بھارت کی خباثتوں کا سامنا ہے۔ وہ اقوامِ عالم کی کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اپنی توپوں کا رُخ پاکستان کی طرف کیے ہوئے ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کی جانب سے متواتر دھمکیاں مِل رہی ہیں ۔ ایسے میں الحمدُللہ پوری قوم اور تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ہیں سوائے کپتان صاحب کی تحریکِ انصاف کے ، جس کی وجہ بھی صرف عمران خاں ہیں۔ اُن کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی ایسی کانفرنس یا اجلاس میں جانے کو تیار نہیں جس کی سربراہی وزیرِاعظم میاں نوازشریف کر رہے ہوں۔ 3 اکتوبر کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں عمران خاں خود تو شریک نہیں ہوئے لیکن بقول شیخ رشید اُنہوں نے شاہ محمود قریشی کو بھی شرکت سے منع کر دیا تھا۔ شیخ صاحب دعویٰ کرتے ہیںکہ اُن کے سمجھانے پر خاںصاحب نے شاہ محمود قریشی کو اے پی سی میں شرکت کی اجازت دی۔
4 اکتوبر کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک سمیت چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ نے بھی شرکت کی ۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاکستان بھارت کی گیدڑبھبھکیوں میں نہیں آئے گا ۔ امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ ہم ہر قیمت پر اپنے وطن کا دفاع کریں گے اور کشمیر کی سفارتی ،سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اقوامِ متحدہ کو کشمیر کے بارے میںاپنی 18 قراردادوںپرعمل درآمد کے وعدے کو پورا کرنے پر بھی زور دیا گیا۔ یہ اجلاس دشمن کے لیے پیغام تھا کہ دفاعِ وطن کے لیے ہم سب ایک ہیں لیکن یہ ”پیغام” شاید کپتان صاحب کو پسند نہیں آیا۔ اُسی دِن یعنی 4 اکتوبر کو ہی اُنہوں نے اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں پارٹی اجلاس طلب کیا اور یہ فیصلہ سامنے آیا کہ 5 اکتوبر کو منعقد ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ باخبر ذرائع کے مطابق اجلاس میں بائیکاٹ کے حامی صرف کپتان صاحب تھے باقی پوری جماعت اجلاس میں آنا چاہتی تھی۔
اسدعمر نے بائیکاٹ کے فیصلے پر شدید احتجاج کیا ، جہانگیر ترین خاموش رہے اور شاہ محمود قریشی نے بھی پارلیمنٹ کے اجلاس میں جانے کی حمایت کی۔ بقول سلیم صافی خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک رکنِ اسمبلی نے جب پارلیمنٹ کے اجلاس میں جانے کی حمایت کی تو کپتان صاحب نے اُنہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا ”تمہیں اگر نوازشریف سے پیار ہے تو اُسی کی پارٹی میں چلے جاؤ”۔ یہی رکنِ اسمبلی ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہہ رہے تھے کہ پارٹی کے لوگ تو اجلاس میں آنا چاہتے تھے اور وہ خود بھی بائیکاٹ کے حق میں نہیں تھے لیکن یہ فیصلہ کپتان صاحب کا تھا۔ بعدازاں کپتان صاحب نے صحافیوں سے کہا کہ وہ چونکہ میاں نواز شریف کو وزیرِاعظم نہیں مانتے اِس لیے اجلاس میں بھی نہیں جائیں گے ۔یہ کپتان صاحب کا ایک اور بڑا یو ٹرن تھا کیونکہ 29 ستمبر کو شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ انٹرویو میں خاںصاحب نے بَرملا کہا تھا ”ملکی سلامتی کے معاملے میں ہم سب اکٹھے ہیں ، کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے”۔ قومی سلامتی کے معاملے میں پپلزپارٹی کا رویہ یقیناََ قابلِ ستائش ہے۔ مولا بخش جانڈیو نے کہا ”ملکی سلامتی کے آگے پارٹی کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہمیں حالات کے مطابق وزیرِاعظم کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا”۔ قمرالزماں کائرہ نے کہا ”نوازشریف منتخب وزیرِاعظم ہیں ۔ عمران خاں اُنہیں وزیرِاعظم نہیں مانتے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کی سیاست سمجھ سے بالاتر ہے”۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بائیکاٹ کا اعلان کرکے کپتان صاحب نے ذہنی دیوالیہ پَن کا ثبوت دیا ہے اور اگر اُن کا یہی وتیرہ رہا تو آمدہ انتخابات میں تحریکِ انصاف کی جگہ پیپلزپارٹی لے لے گی۔