بابا جی ہم بہت پریشان ہیں، بہت سے عالموں، بزرگوں اور تعویز کرنے والوں کو اپنے گھر بلوا کر اُسے بھگانے کی کوشش کرچکے ہیں لیکن وہ آسیب کسی کے قابو نہیں آتا۔ ہم بڑی آس لیکر آپ کے پاس آئے ہیں۔ ساری جمع پونجی مکان خریدنے میں خرچ ہوگئی اب تو بڑی مشکل سے گھر کے اخرجات چل رہے ہیں اور اُوپر سے اُس آسیب نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کبھی کسی بچے کو پریشان کردیتا ہے اور کبھی مجھے آوازیں دے کر پوچھتا ہے میرا کام کیوں نہیں کیا ؟میں نے تمہیں کام کہا تھا کیا بنا اُس کا؟ بابا جی ایک بات میں آپ کو بتا دوں وہ آسیب ہمیں تو صرف آوازیں دے کر پریشان کرتا ہے لیکن اُسے بھگانے والے اب تک کے تمام عالم زخمی حالت میں گھر سے رخصت ہوئے ہیں۔ بابا جی: بچہ پریشان مت ہوہم اُس آسیب کو دیکھ لیں گے ۔لیکن بابا جی ہمارے پاس اب آپ کو دینے کیلئے پیسے بھی نہیں ہیں۔ بابا:سخت ناراضگی کے عالم میں، میں نے تم سے پیسے مانگے ہیں؟ نہیں بابا جی لیکن سب لیتے ہیں۔ بابا: نہیں بچہ ہم پیسے نہیں لیتے لیکن اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنا پڑھے گا آپ کو ،جب جیب اجازت دے تب کردینا۔
ٹھیک ہے بابا جی آپ اُس آسیب کا کچھ کردیں، ہم عمر بھر آپ کو دُعائیں دیں گے۔بابا ،خاتون کے ہمراہ اُس کے آسیب زدہ گھر پہنچے اور آسیب کو اپنی زبان میں طلب کیا جس پر آسیب حاضر ہوگیا۔ بابا جی نے آسیب کو اپنی شکل دیکھانے کا کہا لیکن آسیب نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا بابا جی میں اللہ والوں کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن اگر کوئی مجھے پریشان کرے تو پھر اُس کی خیر نہیں لہٰذ آپ کیلئے بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے تنگ نہ کریں۔ میں یہاں سے کہیں نہیں جانے والا اور نہ کوئی مجھے مجبور کرسکتا ہے۔ با باجی نے کچھ عمل کیا اور ایک بار پھر آسیب کو مخاطب کرتے ہوئے بولے تم جو کوئی بھی ہو ،جس مذہب اور عقیدے سے تعلق رکھتے ہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن تمہیں یہاں سے جانا ہوگا۔
آسیب: میں نے پہلے کہہ دیا ہے کہ میں یہاں سے جانے والا نہیں اور اگر آپ نے مجھے مزید پریشان کرنے کی کوشش کی تو پھر اپنی حالت کے ذمہ دار آپ خود ہوںگے ،چنانچہ بہتر یہی ہے کہ آپ یہاں سے چلے جائیں ،میں نے پہلے کبھی کسی عامل کی اتنی عزت نہیں کی جتنی آپ کی کر رہا ہوں اگر یقین نہ آئے تو گھر والوں سے پوچھ لو۔بابا جی:ٹھیک میں تمہیں پریشان نہیں کرتا لیکن تم یہ تو بتائو کے تم کون ہو؟کیا کرتے ہواور یہاں کب سے رہتے ہو ؟آسیب :زور دارقہقہہ لگاتے ہوئے بابا جی ساڈیاں تفتیشاں کروگے توسیں؟ بابا:نہیں میں تفتیش نہیں کررہا لیکن ہوسکتا ہے تمہارے تعارف کے بعد ہمارے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوجائے ۔آسیب ایک بار پھر زور سے ہنسا اور کہنے لگا بابا جی آپ بس اتناجان لیں کہ میں 20سال تک پنجاب پولیس میں بطور انسپکٹر نوکری کرچکا ہوں اور اگر اب آپ نے میری مزید تفتیش کی تو پھر آپ جانتے ہیں پنجاب پولیس کس طرح دھوتی ہے۔ بابا:مسکراتے ہوئے ٹھیک ہے میں تمہاری تفتیش نہیں کرتا لیکن میری تمہاری ملاقات رہے گی اور اُمیدہے ہم مل کرکوئی حل نکال لیں گے ۔یہ کہہ کر باباجی مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئے۔
Police
گھر والے جو اب تک پریشان بیٹھے تھے نے بابا جی کو سہی حالت میں مسکراتے ہوئے دیکھا تو سمجھے کہ اُنہوں نے آسیب کو قابو کرلیا ہوگا۔ خاتون نے بابا جی سے سوال کیا، کیا ہوا بابا جی آسیب چلا گیا ہمارے گھر سے ؟بابا: نہیں بچہ لیکن جلد ہی چلا جائے گا۔ بابا: 8 دن بعد دوبارہ آنے کا کہہ کر چلا گیا۔ 8 دن بعد بابا اپنے وعدے کے مطابق پہنچ گیا اور آسیب کو طلب کرنے کیلئے گھر کے اُسی کمرے میں داخل ہو کر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ آسیب حاضر ہوا تو بابا نے اُسے اپنی شکل میں ظاہر ہونے کو کہا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ میں بھی ریٹائرڈ پٹواری ہوں اس لئے مجھے اُمید ہے کہ آج ہمارے درمیان سودا ہوجائے گا اگر آفر پسند نہ آئے تو کوئی بات نہیں ہم کوئی اور حل نکال لیں گے۔ آسیب: پٹواری،،،، تو پہلے کیوں نہیں بتایا، آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن آپ تو جانتے ہیں ہم پولیس والے کچھ دیتے نہیں اور پٹواری بھی ہمارے طرح کچھ لئے بغیر کوئی کام نہیں کرتے پھر ہمارے درمیان سودا کس طرح ممکن ہوگا؟ بابا: درست کہا تم نے لیکن سودا صرف لینے کانام نہیں بلکہ کچھ لینے اور کچھ دینے کا معاملہ ہوتا ہے اس لئے تم مجھے یہ چار مرلے کا گھر خالی کر دو میں تمہیں اس کے بدلے پرسکون علاقے میں دو 2 کنال کا بہترین گھر دینے کے لئے تیار ہوں لیکن یہ بات بتانا ضروری ہے کہ وہ گھر جس زمین پر تعمیر کیا گیا ہے وہ سینٹرل گورنمٹ کی ہے۔
آسیب: پٹواری صاحب آپ تو پولیس والوں سے بھی 2 ہاتھ آگے کی سوچتے ہولیکن اس گھر سے میری کچھ یادیں وابستہ ہیں میں یہ گھر نہیں چھوڑ سکتا ۔بابا :کوئی بات نہیں ہم تمہاری ہر چیز محفوظ طریقے سے وہاں شفٹ کردیں گے اور ساتھ ہی تمہاری ضرورت کی مزید چیزیں بھی مہیا کردیں گے ۔آسیب:ٹھیک ہے لیکن آپ یہ بتائو اتنی ضد کیوں کررہے ہو اور چار مرلے کے گھر کے بدلے 2کنال کا گھر کیوں دے رہے ہو؟بابا :کیا بتائوں سالے کی سفارش ہے ان لوگوں کی اور تم تو جانتے ہوکہ اک طرف ساری خُدائی ایک طرف جوروکا بھائی ۔اس جملے کیساتھ ہی آسیب نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے بابا جی کی بات مان لی اور گھر چھوڑنے پر رضامند ہوگیا۔بابا :یہ تو بتائو تم نے مجھ سے پہلے آنیوالے عاملوں کو کیوں مارا ؟آسیب:دُکھی انداز میں،عامل ،،،،،،،،،پٹواری صاحب سارے جھوٹے بابے ہیں کوئی کچھ عمل کرتا ہے اور نہ ہی کسی کے پاس علم ہے سب کے سب جاہل ،ٹھگ ملے اس گھر والوں کو ۔ٹھیک ہے میں پولیس والا ہوں لیکن پھربھی دکھ ہوتا ہے مجھے جب کوئی اللہ کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے ۔
خیر پٹواری صاحب آپ یہ بتائیں کہ آپ بابے کیوں بن گئے ؟بابا :ساری زندگی گناہ میں گزارنے کے بعد ایک اللہ والے کی نسبت نصیب ہوئی جس نے مجھے جینا سکھا دیا اور میں نے انسانیت کی خدمت کیلئے باقی زندگی وقف کردی بس جو کوئی اپنی تکلیف لے کر آتا ہے اللہ تعالیٰ سے دُعا کے ساتھ ساتھ اگر کچھ جیب سے خرچ کرنے پر بھی بات بن جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں۔ آسیب فکر مندی کے عالم میں پٹواری صاحب میں تو مر چکا ہوں اب کس طرح اپنے گناہوں کی معافی طلب کروں ؟بابا :اللہ تعالیٰ غفورو رحیم ہے اُس کے خزانے بھرے پڑے ہیں رحمت سے لیکن یہ جو تم مرنے کے بعد بھی انسانوں کو پریشان کررہے ہواللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے چھوڑ دو ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرما دے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے میرے وطن عزیز کو بھی ایسا کوئی پٹواری عطا کر جویہاں کے بگڑے نظام کو نظام عدل میں بدل دے