کراچی (جیوڈیسک) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ادائیگیوں کے متبادل ڈیجیٹل ذرائع متعارف کرا کر الیکٹرونک ادائیگیوں کو فروغ دینے اور کارڈ کی صنعت میں ہونے والی ٹیکنالوجی کی ترقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وسیع تر مالی شمولیت کے حصول کے لیے پری پیڈ کارڈ کے ضوابط (ریگولیشنز) جاری کر دیے ہیں۔
مرکزی بینک کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پری پیڈ کارڈ ادائیگی کا ایک آلہ ہے جو ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز کے بالتریب فوری اور بعد میں ادائیگیوں کے ماڈل کے بجائے ’’پہلے ادائیگی، بعد میں خرچ‘‘ کے ماڈل پر تیار کیا گیا ہے، پری پیڈ کارڈز کو آبادی کے بینکاری سہولتوں سے محروم طبقات کے لیے بینکاری اکاؤنٹ کھولے بغیر رسمی مالی مصنوعات کی فراہمی کے لیے مثالی سمجھاجاتا ہے۔
پری پیڈ کارڈز کو ٹرانزیکشن بینکاری اکاؤنٹ کے متبادل کے طور پر فروغ دیا جا رہا ہے کیونکہ اس کی خصوصیات ٹرانزیکشن بینکاری اکاؤنٹس میں مہیا کی جانے والی خصوصیات سے مماثلت رکھتی ہیں جس کے نتیجے میں پری پیڈ کارڈز کو نہ صرف کم آمدن بینکاری خدمات سے محروم افراد بلکہ روایتی بینکاری خدمات کے روایتی صارفین تک رسائی کے پیش نظر مالی شمولیت کے سلسلے میں اہم کردار کا حامل تصور کیا جا رہا ہے، پری پیڈکارڈ کسٹمرز ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈ کے بغیر اے ٹی ایمز سے نقد نکلوا، فنڈز ٹرانسفر، امتحان کی فیس جمع، آن لائن خریداری اور بیرون ملک سفر کر سکیں گے اس طرح پیمنٹ کارڈ کے استعمال سے منسلک خطرہ بھی محدود ہو گا۔
ایس بی پی کے مطابق یہ ضوابط فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جاری کردہ بین الاقوامی سفارشات کے مطابق تیار کیے گئے ہیں جن کا مقصد اینٹی منی لانڈرنگ/ دہشت گردی کی مالی معاونت سے منسلک ان خطرات کو کم کرنا ہے جو پری پیڈ کارڈز سے وابستہ ہوتے ہیں، اس مقصد کے لیے پری پیڈ کارڈ کے اجرا، لوڈ کی جائز حد، استعمال کی حد، تنازعات کا حل اور صارف کے تحفظ کے ساتھ دیگر عملی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ملکی مارکیٹ میں اس کارڈ کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے مالیاتی اداروں کو اجازت دی گئی ہے کہ مجاز ڈیلرز کے ذریعے پری پیڈ کارڈ جاری کریں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق ان ضوابط سے پاکستان میں بینکوں کو موقع ملے گا کہ وہ ملک میں پری پیڈ کارڈز کی مارکیٹ تشکیل دے سکیں تاکہ بینک خدمات سے محروم طبقے کو ادائیگی کے مزید طریقے دستیاب ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معیار کے مطابق حفاظت، سلامتی اور صارف کا تحفظ یقینی بنانے کے اقدامات بھی کیے جا سکیں۔