اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم کی ناکام احتجاجی تحریک نے جہاں مریم نواز بالخصوص مولانا فضل الرحمن کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیاہے جس کے صدمے سے وہ ابھی تک باہر نہیں نکلے لیکن کھیسانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کا عمل جاری ہے اب انہوں نے یکطرفہ انتخابی اصلاحات کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلا انتخابی اصلاحات کے حوالے سے مشاورت کی جائے تاکہ جامع انتخابی اصلاحات کا پیکج تیار کر کے پارلیمنٹ میں پیش کیا جا سکے۔
آج پیپلز پارٹی اور اے این پی اتحاد سے باہر نکل گئیں ہیں اس کے باوجود مریم نواز کا کہنا ہے پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے متعلق میاں نواز شریف کا بھی وہی موقف ہے جو مولانا فضل الرحمن نے بیان کیا ہے۔ وہ دونوں جماعتیں اتحاد کا حصہ نہیں، پی ڈی ایم اور پارلیمنٹ کی سیاست مختلف ہے۔ دونوں کو یکجا نہ کیا جائے۔ مریم نواز نے کہا کہ پیپلز پارٹی شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تسلیم کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی اب پی ڈی ایم کا حصہ نہیں، اس لئے اب وہ میرا ہدف بھی نہیں۔ ”پاور ٹاکس ٹو پاور” پاور کمزور ی سے بات نہیں کرتی، جہاں کمزوری دکھائی، سیاسی دشمن حملہ آور ہو گا۔ الیکشن میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال پری پول رگنگ کا منصوبہ ہے ۔ادھر مولانا فضل الرحمٰن نے پھر” فتویٰ ”دیاہے کہ موجودہ حکومت عوام کی منتخب کردہ نہیں اور جس حکومت کو عوام کی تائید حاصل نہ ہو وہ کسی چیلنج کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس لئے یہ حکومت” ناجائز” حکومت ہے پی ڈی ایم نے 23 مارچ کو لانگ مارچ کااعلان کرتے ہوئے عمران خان حکومت کو گھربھیجنے کا عندیہ دیاہے۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ ن لیگ میں مفاہمت کی سیاست ہو گی یا مزاحمت کی؟ مریم نواز نے جواب دیا کہ اگر مزاحمت ہو گی تو ہی مفاہمت ہو گی۔ کوئی چیز پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملتی۔ اپنا حق چھیننا پڑتا ہے۔ عوام کے پاس جانا پی ڈی ایم کا حق ہے۔ مایوسی کے عالم میں جلسے جلوس نہیں کئے جاتے۔
عوام کے ساتھ کھڑے ہونا پی ڈی ایم کی طاقت ہے۔ جواب آں غزل کے طورپر وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے کہا کہ اپوزیشن حکومت کے ساتھ انتخابی اصلاحات پر بات بھی نہیں کرنا چاہتی اور انتخابی اصلاحات بھی چاہتی ہے اسی لئے میں ڈنکے کی چوٹ پر کہتاہوں اپوزیشن کنفیوڑ، مایوس اور منتشر ہے۔ ان کی سمت اور ارادے متحارب ہیں پی ڈی ایم میں واضح تضاد ہے۔
مولانا فضل الرحمن اپنی سیاسی محرومیوں کا بدلہ جمہوری نظام سے نہ لیں۔ شہباز شریف اور راگ آلاپ رہے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمنٰ کچھ اور ساز بجا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ کی مخالفت کرنے والے دھاندلی زدہ نظام کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔چوہدری فواد حسین نے کہا کہ شہباز شریف پہلے اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کی بجائے ن لیگ کو اکٹھا کرنے پردھیان دیں یہی ان کے مفادمیں ہوگا اپوزیشن سنجیدہ ہو تو الیکشن اصلاحات پر بات کرنے کیلئے پی ڈی ایم جیسے چوں چوں کے مربہ کی بجائے پارلیمانی لیڈرز بات کریں۔ عوام پی ڈی ایم کے شرانگیز بیانیے کو یکسر مسترد کر چکے ہیں۔ قوم ڈرامہ باز سیاستدانوں کی رگ رگ سے واقف ہے۔ یہ عناصر سارا زور این آر او کیلئے لگا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ہوتے ہوئے انہیں این آر او نہیں ملے گا اور پاکستان کے وسائل لوٹنے والوں کو لوٹ مار کا حساب دینا ہوگا جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا ہے کہ عوام دشمن پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کی پارلیمان سے منظوری کو ناکام بنائیں گے۔
آئی ایم ایف کے تنخواہ دار ملازمین کی جانب سے بنائے گئے بجٹ کی منظوری پاکستان کی خودداری پر ایک حملہ ہوگا۔پاکستان پیپلزپارٹی ملک کے معاشی بقا کی خاطر پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کی منظوری روکنے کیلئے جدوجہد کرے گی۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہر بجٹ سے پہلے عمران خان اعلان کرتے ہیں کہ یہ سال ترقی کا ہوگا اور پھر معاشی تباہی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔عوام دشمن حکومت عوام دوست بجٹ نہیں بناسکتی، عوام پی ٹی آئی کے کرتوتوں کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔بھاری بھرکم ٹیکسوں کے ذریعے عام آدمی کی جیبوں سے پیسہ نکال کر خزانہ بھرنے کا دعوی کارنامہ نہیں بلکہ شرم کی بات ہے سخت شرائط پر لئے گئے قرضوں اور ناقابل برداشت ٹیکسوں سے خزانہ بھرنے کا دعوی معاشی ترقی نہیں کہلاتا ایسی ہی باتیں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے مطالبات کو بجٹ کا نام دے کر عوام پر مسلط نہیں ہونے دینگے۔
مہنگائی، بے روزگاری اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے حقائق کو اجاگر کیا جائے۔ حکومت جھوٹ سے اعدادو شمار بدل سکتی ہے لیکن زمینی معاشی حقائق کو بدلا نہیں جاسکتا۔ آئی ایم ایف کے مطالبات کو بجٹ کا نام دے کر عوام پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کے پیش کردہ معاشی اعداد و شمار ناقابل اعتبار ہیں۔ معاشی غلط بیانی قوم کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ معاشی تباہی ملک پر مسلط کی جا رہی ہے۔ کوشش ہے عوام دشمن بجٹ منظور نہ ہونے دیا جائے۔ ہم نے قوم کو سچائی بیان کردی ہے تاکہ تاریخ میں گواہی رہے اور کل کوئی بہانہ نہ بناسکے۔ اپوزیشن رہنمائوں کے بیانات میںہوسکتاہے کوئی وزن ہو لیکن دیکھنے میں یہ آیاہے کہ ہمیشہ اپوزیشن رہنما ایسی باتیں کرتے ہیں اور جونہی اقتدارمیں آتے ہیں ان کا بیانیہ بدل جاتاہے پھر اپنے اقدامات کے حق میں ایسے ہی دلائل دیتے ہیں جیسے آج کل موجودہ حکومت کے رہنما دیتے پھرتے ہیں۔