پی ڈی ایم میں شامل 11 جماعتوں نے اپنی توپوں کا رخ براہ راست جی ایچ کیو کی طرف کررکھا ہے اور بغیر کسی وقفہ کے ان کے منہ سے گولہ باری جاری ہے اپوزیشن نے اس بار جس طرح فوج پر حملہ کیا پہلے ایسا کبھی نہیں ہواشائد اسکی وجہ یہ ہے کہ ان سب کا راشن پانی بند ہوچکا ہے مولانا فضل الرحمن کو نوٹس نیب نے بھیجا ہے اور انہوں نے چڑھائی فوج پر کررکھی ہے ایسے لگتا ہے کہ اپوزیشن فوج کے خلاف بھارت کی زبان استعمال کر رہی ہے اوراپنی چوری بچانے کے لیے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں بظاہر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا کر اپوزیشن آئی ایس آئی چیف اور آرمی چیف کو ٹارگٹ کررہی ہے۔
اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو کیا اپوزیشن الیکشن کمیشن کے پاس گئی؟ اپوزیشن نے کوئی ثبوت دیے نہ کسی کے پاس گئے اور اداروں پر بولنا شروع ہوگئے اس وقت اپوزیشن کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ ان کو این آر او دے دیاجائے اگرایسا ہوا تو این آر او دینے والے بھی ملک دشمن سمجھے جائیں گے آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے اور کوئی چیز عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتی اور اسی میڈیا کو بھارت بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا کچھ عرصہ قبل یورپی یونین کی ڈس انفو لیب نے انکشاف کیاتھا کہ ہندستان نے 700 جعلی نیوز ویب سائٹس بنا رکھی تھیں جس میں مردہ اشخاص کے ناموں کو بھی استعمال کیا اور اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو دنیا میں برے انداز میں پیش کیا جائے تا کہ باہر سے کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کرے خاص طور پر پاکستانی فوج کو ہدف بنایا گیا کیوں کہ بھارت طویل عرصے سے چاہتا ہے کہ پاکستانی فوج کمزور ہو اور ان کی پوری منصوبہ بندی ہے کہ دنیا میں پاکستانی فوج کو اس طرح پیش کیا جائے کہ جیسے وہ دہشت گرد ہیں۔
جبکہ نریندر مودی تو گزشتہ آرمی چیف کو دہشت گرد بھی کہہ بھی چکا ہے اور بدقسمتی سے یہ جعلی نیوز سائٹس اپوزیشن کی پی ڈی ایم کو بھی فروغ دے رہے تھے پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن اس طرح پاکستانی فوج، آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف کو اس طرح ہدف بنا رہی ہے اس سے قبل اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اپوزیشن کا موقف یہ ہے کہ الیکشن میں فوج نے دھاندلی کروائی اس لیے حکومت سلیکٹڈ لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ اگر انتخابات می دھاندلی ہوئی ہے تو کیا آپ الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ گئے یا پارلیمنٹ میں آئے کسی فورم پر آپ نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ اسی طرح امریکی انتخابات میں جب ری پبلکنز نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو میڈیا پہلے کہتا تھا کہ انہوں نے ابھی تک کوئی ثبوت نہیں دیے نہ دھاندلی کے کوئی ثبوت دیے نہ کسی فورم پر گئے اور پاکستانی فوج پر حملہ کرنا شروع کردیا کہ وہ ایک سیلیکٹڈ حکومت لے کر آئے۔ ماضی میں مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی نے ملک میں بدترین کرپشن کی، آصف زرداری کو نواز شریف نے کرپشن پر ہی جیل میں ڈالا تھا، انہی دونوں جماعتوں کی وجہ سے ملکی قرضے میں اضافہ ہوا، جبکہ مولانا فضل الرحمن نے خود فیصلہ کرلیا کہ میں صادق و امین ہیں اور کسی کو جوابدہ نہیں یہی نہیں بلکہ خود کو جمہوریت پسند کہلانے والے کہتے ہیں کہ جمہوری حکومت گرا دو کیونکہ ان پر کرپشن کے الزامات ہیں۔مولانا فضل الرحمن سے انکے اپنے بھی ناراض ہوچکے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے نائب امیر مولانا عبد القادر لونی کا بیان بھی ہوشربا ہے کہ مولانافضل الرحمان اجرتی سیاست دان ہیں وہ حصول اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں،مولانا این آر او کے لیے وکیل بن چکے ہیں،مولانا نے اپنے بیٹے کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر اور بھائی کو سینیٹر بنایا،ہم نے مولانا فضل الرحمن کی موروثی سیاست، حصول اقتدار اور کرپشن کے بعد اپنے آپ کو الگ کیا،پی ڈی ایم مفاد پرست ٹولہ ہے۔1988 سے مولانا فضل الرحمان نے موروثی سیاست، جھوٹ اور کرپشن ڈے اکابرین کو بدنام کیا،کرپشن،خیانت اور جھوٹ سے باز نہ آنے پر ہم نے ان سے راستہ الگ کیا،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے باریاں لگا کر حکومت کی،اب قانون کے مطابق دونوں جماعتیں تحریک انصاف کو بھی پانچ کی مدت پوری کرنے دیں،حکومت گرانا مسائل کا حل نہیں، جمہوری استحکام کیلئے پارلیمنٹ کردار ادا کرے،پی ڈی ایم اور دھرنے صرف حصول اقتدار اور موروثی سیاست کی خواہش ہے،پی ڈی ایم پارلیمانی نظام کے خلاف بغاوت، آئین اور جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
پی ڈی ایم کی قیادت ماضی قریب میں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام لگا چکے ہیں،اپوزیشن کی سیاسی محاذ آرائی سیاست اور جمہوریت کیلئے نقصان پہنچانے کا موجب بن رہی ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سابق مرکزی رہنما اور میری پسندیدہ سیاسی و مذہبی شخصیت حافظ حسین احمد کا بھی کہنا ہے کہ پارٹی دستور کی ہم نے نہیں مولانا فضل الرحمان نے خلاف ورزی کی ہے ہم مولانا فضل الرحمان سے پہلے جمعیت میں شامل ہوئے، اور مولانا محمد خان شیرانی پارٹی کے بانی اراکین میں سے ہیں، ہماراجے یوآئی (ف)سے نہیں جمعیت علما اسلام پاکستان سے تعلق ہے اسی طرح کچھ باتیں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)سے نکالے جانے والے مولانا شجاع الملک کی بھی ہیں جنکا کہنا ہے کہ جے یو آئی ف میں شہنشاہیت اور موروثیت کا رجحان پیدا کیا جا رہا ہے،مولانا شجاع کا کہنا تھا کہ ان کی رکنیت سے متعلق فیصلہ عجلت میں کیا گیا، مسئلہ پارٹی کے اندر اصلاح کا تھا، توقع تھی کہ ان سے پوچھا جائے گاکہ مولانا فضل الرحمان صاف ہیں تو اپنے اثاثے پیش کریں۔
اگر کچھ نہیں تو بات ختم، چیئرمین نیب سمیت کسی کے سامنے دھرنے کی ضرورت نہیں اور اب آخر میں مریم نواز شریف کا یہ بیان کہ جیل میں انہیں میاں شہباز شریف سے ملنے نہیں دیا جارہا میں سمجھتا ہوں کہ اس بیان میں کوئی حقیقت نہیں اگربلاول بھٹو زرداری اور محمد علی درانی انہیں جیل میں مل سکتے ہیں تو انکا خاندان بھی ملاقات کرسکتا ہے اوراس حوالہ سے صوبائی وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان کی وضاحت بہت خوبصورت ہے کہ محمد علی درانی سے ملاقات میں شہباز شریف کی مرضی و منشا شامل تھی، کسی بھی قیدی کو کسی بھی فرد سے ملاقات کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا شہباز شریف کی اپنے خاندان کے افراد سے ملاقات نہ کرنے میں بھی ان کی مرضی شامل ہوتی ہے شہباز شریف کو جیل میں قانون کے مطابق بی کلاس کی تمام سہولیات میسر ہیں۔