امن کی بنیاد رکھ دیں

Peace

Peace

تحریر : چوہدری غلام غوث
انسان ہمیشہ اپنی بقا امن اور بھائی چارے میں تلاش کرتا آیا ہے یہ انسانی جبلت کا تقاضہ ہے کہ وہ امن اور بھائی چارے میں خود کو زیادہ کمفرٹیبل محسوس کرتا ہے اور اپنی بقا کو دوام دینے کے لیے امن اور بھائی چارے کی فضا کو ترجیح دیتا ہے جنگ و جدل اور بدامنی سے بھاگتا اور گھبراتا ہے۔ دنیا کے تمام الہامی مذاہب میں دو چیزیں مشترک ہیں ایک محبت اور دوسری امن ہم سب لوگ اگر ان دو چیزوں کو عالمی اصول بنا لیں تو یقین کریں دنیا کی تمام توپوں اور ٹینکوں کے دھانوں میں پھول اُگ آئیں اور دنیا کی ساری فوجی چھاؤنیاں نرسریوں کی شکل اختیار کر لیں اور پوری دنیا کی فضا محبت کے پھولوں کی خوشبو سے معطر ہو جائے اور انسانوں کے دل پھولوں کی پتیوں کی طرح نرم ہو جائیں اور دنیا میں نفرتیں ختم ہو جائیں محبتیں پروان چڑھ جائیں اور لوگوں کے پاس صرف محبت کے لیے وقت رہ جائے جبکہ نفرت کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ ہم چونکہ مسلمان ہیں اور ان دنوں پوری دنیا مسلمانوں کے بارے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہے۔اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو امن اور سلامتی پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے اور انسانی قدروں کی ترقی کی بنیاد امن پر رکھتا ہے ہمارے مذہب میں جب دو مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دونوں اسلام علیکم کہہ کر ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دیتے ہیں لہذا جو مذہب اس حد تک امن اور سلامتی پر یقین رکھتا ہو اس سے دنیا کے امن کو کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

آپ اگر موجودہ دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کریں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں تو آپ خود بخود اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ دنیا میں جتنے بھی مہلک ترین ہتھیار اور سامانِ حرب و ضرب ایجاد ہوا ہے وہ سارے کا سارا غیر مسلموں کی ایجاد ہے مسلمان تو صرف خریدار ہو سکتا ہے یا غیر مسلموں کی مدد سے اسے تیار کر سکتا ہے یہ اسلحہ اور کاروبار حرب وضرب کے تاجر تو سبھی کے سبھی غیر مسلم ہیں اور دہشت گردی کا الزام مکمل طور پر مسلمانوں کے سر تھونپا جاتا ہے۔ دنیا میں دو عظیم جنگیں ہوئی ہیں اُن جنگوں میں جو متحارب بلاک بنائے گئے اُن کی قیادت غیر مسلموں پر مشتمل ملکوں اور حکمرانوں نے کی جبکہ اس دوران ہونے والے اخراجات کے جو تخمینے لگائے گئے اُن کا حساب تک غیر مسلموں کی کرنسی ڈالرز یا پاؤنڈز میں لگایا گیا۔ جنگوں کی تاریخ کا اگر اجمالی جائزہ لیا جائے تو جنگ عظیم اوّل اور جنگِ عظیم دوئم، پہلی جنگ پر 4 ہزار 5 سو بلین ڈالرز خرچ ہوئے کروڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ دوسری جنگِ عظیم پر 13 ہزار بلین ڈالرز خرچ ہوئے اور کروڑوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ ان جنگوں کے بعد دنیا نے جنگ نہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن 1945 سے 2001 تک دنیا میں کم و بیش 112 خوفناک جنگیں ہوئیں جن میں ایک کروڑ 97 لاکھ 83 ہزار لوگ مارے گئے۔ان مرنے والوں میں 4 لاکھ 77 ہزار کا تعلق لاطینی امریکہ 12 لاکھ 93 ہزار مڈل ایسٹ اور نارتھ افریقہ 41 لاکھ 64 ہزار مشرقی ایشیا کے رہنے والے تھے۔

ان 112 جنگوں میں 16 انتہائی غیر معمولی جنگیں تھیںجن میں سے کوریا کی جنگ پر 3 سو 40 ویتنام، 7 سو 20 لبنان ، 77 افغانستان روس جنگ پر 116 ، ایران عراق ڈیڑھ سو اور خلیج کی جنگ پر ایک سو دو ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اس وقت بھی دنیا کے 68 ممالک میں جنگیں ہو رہی ہیں جن میں سے 46 بڑے تنازعات پر ہر سال 18 ہزار ایک سو 96 ملین ڈالرز خرچ ہوتے ہیں جبکہ ان بڑے 16 تنازعات پر اب تک ایک لاکھ 94 ہزار پانچ سو سات ملین ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ اس وقت دنیا کے 16 مقامات پر اقوامِ متحدہ کی امن فوج کے 30 ہزار سے زائد فوجی تعینات ہیںجن پر اب تک 20 ہزار ملین ڈالرز سے زائد اخراجات آ چکے ہیں اقوامِ متحدہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مختلف متنازعہ اور خانہ جنگی والے علاقوں میں اب تک 2 لاکھ سے زائد امن فوجی تعینات کر چکی ہے جبکہ دنیا کی سپر طاقتیں اربوں ڈالر جنگوں کی بھٹیوں میں جھونک چکی ہیں اورآئے روز انسانوں کے لیے مہلک ترین ہتھیار ایجاد کئے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اس موقع پر مجھے ایٹم بم کے موجد سائنسدان آئن سٹائن کا قول یاد آ رہا ہے جس نے کہا تھا تیسری جنگ عظیم کے بعد جو لوگ دنیا میں بچ جائیں گے وہ پتھروں اور ڈنڈوں سے لڑا کریں گے۔جس کی نشاندہی روس کے سابق صدرمردِ آہن میخائل گوربا چوف نے گذشتہ دنوں جاری اپنے بیان میں بھی کی ہے کہ ٹرمپ اور مودی جیسے حکمرانوں کے جیتنے کے بعد دنیا تیسری عالمی جنگ رکوانے میں کردار ادا کرے جو مستقبل میں ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ یہ ہے دنیا کی اصل صورتحال اس دنیا کی جس میں پاکستان جیسے ملک کا ٹوٹل سالانہ بجٹ 15 بلین کے لگ بھگ ہوتا ہے لیکن دنیا ہر سال آٹھ سو بلین ڈالرز سے زائد ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر خرچ کر دیتی ہے جبکہ جنگوں میں ہر سال لاکھوں لوگ مارے جاتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہو کر اپاہج ہو جاتے ہیں۔

Water Shortage

Water Shortage

اس دنیا میں 29 ممالک کے پاس پینے کا پانی نہیں دنیا کے ایک ارب لوگ کھلے آسمان کے تلے پڑے ہیں جبکہ سوا ارب سے زائد لوگوں کو اقوامِ متحدہ کے ادارے غربت کی لکیر سے نیچے ڈکلیئر کر چکے ہیں اسی دنیا میں مائیں بچوں کو روٹی کی جگہ زہر کھلاتی ہیں لوگ غربت مٹانے کے لیے اپنے گردے اور آنکھیں بیچ رہے ہیںاسی کرہ ارض پر لاکھوں بچے کچروں سے رزق تلاش کرتے ہیں۔ دنیا کے صحرائی خطوں میں غربت اور افلاس کے ہاتھوں زندہ انسانوں کے ڈھانچے بن رہے ہیں۔ انسان دوائیو ںکے بغیر مر رہے ہیں۔ رزق کی تلاش میں جان لیوا طریقے اپنا کر اپنی زندگیاں ختم کر رہے ہیں۔ مائیں بچوں کو دودھ کی جگہ تھپکی سے سلا دیتی ہیں۔ لوگ ضروریاتِ زندگی کے لیے بچوں تک کو فروخت کر رہے ہیں مگر اسی دنیا میں ہر روز نیا بم، نیا میزائل، نئی گولی ، نئی رائفل بنائی اور فروخت کی جا رہی ہے۔ اسی زمین پر انسان کے ہاتھوں اتنی بارودی سرنگیں بچھائی جا چکی ہیں کہ اگر وہ بیک وقت پھٹ جائیں تو دنیا کی آدھی آبادی معذور ہو جائے جبکہ سرنگیں تلاش کرنے اور انہیں ناکارہ بنانے کے لیے دنیا کو اقوامِ متحدہ کے سائز جیسے 10 ادارے درکار ہیں یہ ہے دنیا جس میں فی زمانہ خوف، وحشت، دکھ، غم، موت اور قبروں کے سوا کچھ نہیں نظر آ رہا۔ پیار، محبت، سکون، زندگی ، بھائی چارہ اور سُکھ روٹھ سے گئے ہیں دنیا کو جنگ سستی اور امن مہنگا نظر آ رہا ہے یہ انسان بھی کیا چیز ہے بارودی سرنگ پر گلاب کی قلم لگاتا ہے پھر اس کے پھلنے پھولنے کی اُمید لگاتا ہے اور پھر سوچتا ہے اس دنیا میں امن ہو جائے گا ۔کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ بوئی گندم جائے اور کاٹے چنے جائیں موت بو کر زندگی کاٹی جائے جنگیں لڑ کر امن قائم کیا جائے یہ صرف انسانی وہم ہے کیونکہ اس دنیا میں جنگ سستی اور امن مہنگا ہے ۔

قارئین! ترقی اپنی روح کے مطابق امن کی زمین پر ثمر آور ہوتی ہے جبکہ بدامنی کی زمین ترقی کے لیے ہمیشہ بنجر ثابت ہوتی ہے امن کی فاختہ کا مسکن پُرامن ممالک کے وہ شجر ہوتے ہیں جن پر امن کی ہریالی ہوتی ہے اور بدامنی کی سرزمین پر اُگنے والے درخت ہمیشہ خزاں کا منظر پیش کرتے ہیں اور وہاں سے امن کی فاختہ اُڑ جایا کرتی ہے امن کی زمین سے ہمیشہ پھولوں کی خوشبو اور بدامنی کی زمین سے ہمیشہ بارود کی بدبُو آتی ہے۔

یاد رکھیں! جب تک دنیا کی متحارب قوموں میں ڈائیلاگ کا آغاز نہیں ہوتا اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا دنیا کے تمام بااثر ممالک کے لیڈرز اور تمام مذاہب کے لوگ آگے بڑھیں انسانوں کی بقا اور خوشحالی کے لیے مثبت اور قابلِ عمل ڈائیلاگ کا آغاز کریں تاکہ دنیا جنگوں اور نفرتوں سے باہر آ سکے اور امن کا گہوارہ بن جائے۔ اس امن ڈائیلاگ میں ریاستوں کے سربراہوں کے علاوہ پوپ اور امامِ کعبہ کو بھی شریک ہونا چاہیئے اور سب کو مل جل کر عالمی امن کی دیرپا بنیاد رکھ دینی چاہیئے کیونکہ جنگیں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں۔

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر : چوہدری غلام غوث