حکمت کی عظیم الشان کتاب کہتی ہے کہ رَب کو جاننے والے اُس کے عالم بندے ہیں اور میرے آقا ۖ کا فرمان ہے ایک عالم ہزار عابدوں سے وقیع ہے۔ یہ بھی فرما دیا گیا کہ علم حاصل کرو خواہ کہیں سے بھی ملے۔ آقا ۖکے اِس فرمان سے واضح ہوتاہے کہ علم سے مراد صرف دینی علم ہی نہیں بلکہ علم کی ہر شاخ ہے کیونکہ کسی غیر مسلم سے تو دینی علم کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ علم کی فضیلت اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ خاتم المرسلینۖ کا فرمان ہے کہ حصولِ علم کا ایک ایک لمحہ عبادت میں گزرتا ہے ۔قُرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں حصولِ علم پر زور دینے کی وجہ یہ ہے۔
کہ اسی کی بدولت ہمیں اللہ ، رسول اللہ اور دینِ مبیں کا ادراک ہوتا ہے اور یہی رَبِ لازوال اور رحمت ِ دو عالم کی محبت کا باعث بنتا ہے لیکن کم علمی اور کَج فہمی کی بنا پر ہماری عبادات رَبِ کردگار کے ہاں مستجاب نہیں ہوتیں۔ ہماری نمازوں میں سرور نہیں ،روزے محض فاقہ کشی ، زکواة و حج محض نمود و نمائش اورجسے اللہ حج کی توفیق دیتا ہے، اُسے حاجی کہلانے کا اتنا شوق کہ اگر حاجی نہ کہیں تو اُس کی جبیں شِکن آلود ہو جاتی ہے۔
زکواة ہم ایسے دیتے ہیں جیسے کسی پر احسان کر رہے ہوں حالانکہ حضور ۖ کا حکم ہے کہ خیرات ایسے کرو کہ اگر دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں کو خبر نہ ہو ۔عبادات کا ہماری نجی زندگی پر پرکاہ برابر اثر نہیں ہوتا ۔ایسی عبادات کی رَبِ کردگار کو قطعاََ ضرورت نہیں اسی لیے فرما دیا گیا ”اے نبی ! ہم تمہیں بتائیں کہ اِن میں سب سے زیادہ بَد نصیب کون ہے ۔ وہ جِس کی عبادتیں قیامت والے دِن ہم اُس کے مُنہ پر دے ماریں گے۔
ماہِ صیام میں افطار پارٹیوں کی بھرمار ہوتی ہے ۔ لاریب کسی روزہ دار کو افطاری کروانا عین ثواب ہے لیکن افطاری تو اُسی کا حق ہے جو خود اِس کی استطاعت نہ رکھتا ہو جبکہ ہماری افطار پارٹیوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوتا جو نانِ جویں کا محتاج ہو بلکہ ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی ہی قبیل کے لوگوں کو اکٹھا کرکے نمائش کا اہتمام کرتے ہیں ۔یہ سب کچھ محض اِس لیے ہے کہ ہم نے تحصیل ِ عِلم کو ثانوی حیثیت دے رکھی ہے اور ہر حکومت سالانہ بجٹ میں تعلیم و تعلم کے لیے بقدرِ قطرۂ شبنم رقم مختص کرتی ہے۔ صاحبِ حیثیت لوگ شعبۂ تعلیم کی طرف آئے ضرور لیکن محض پیسہ بٹورنے کے لیے۔
آپ کو اسی معاشرے میں ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے پیسے کے زور پرسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھولیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا شمار پاکستان کے 400 امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا ۔ ایسے اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کا محض خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے اور نانِ جویں کے محتاج تو ایسے خواب دیکھنے سے بھی پرہیز ہی کرتے ہیں ۔یہ بجا کہ تعلیم و تعلم کو کاروبار میں ڈھالنے والوں نے دولت تو ڈھیروں ڈھیر اکٹھی کر لی لیکن اگر کوئی کہے کہ وہ دین کی خدمت کر رہے ہیں۔
یا ملک و قوم کی تو اِس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ہو گا۔ میرا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سبھی لوگ ایسے ہیں کیونکہ میں ذاتی طور پر چند ایسے اداروں کو جانتی ہوں جنہوں نے اللہ تعالےٰ کی خوشنودی کی خاطر ترسیلِ علم کا بیڑا اُٹھایا ۔ بِلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ”غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ”اِن میں سے ایک ہے۔
ایک چبوترے پر قائم کی گئی اسلام کی اولین درسگاہ کا نام ”صفہ ” تھاجہاں نادار صحابہ ا کرام بیٹھا کرتے اور میرے آقا ۖ نہ صرف اُن کی تمام حاجتیں پوری کرتے بلکہ اُنہیں درس بھی دیا کرتے تھے ۔آقا ۖ کے تتبع اور سُنتِ رسولۖ کی پیروی کرتے ہوئے کچھ اصحاب نے تعلیم و تعلم کے لیے ”غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ” قائم کرکے محیر العقول کارنامہ سر انجام دیا ۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے کالم نگاروں کے اعزاز میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا اور مجھے بھی اپنے صدر دفتر میں آنے کی دعوت دی۔ میں نے لیت و لعل سے کام لیا۔
وجہ یہ تھی کہ میں اکثر ایسے پروگراموں میں شمولیت سے گریز ہی کرتی ہوں لیکن تکرار اور اصرار ہی اتنا تھا کہ انکار کا یارا نہ رہا ۔جب میں وہاں پہنچی تو دیکھا کہ وہاں ملک کے چیدہ چنیدہ صحافی اور لکھاری موجود تھے اور سیّد وقاص جعفری ڈاکومنٹری کے ذریعے اُنہیں ٹرسٹ کے مختلف تعلیمی منصوبوں سے آگاہ کر رہے تھے ۔یقین مانیئے کہ اگر میں ”غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ” نہ جاتی تو نہ صرف قوم کے اِن با ہمت جوانوں کے ساتھ تعارف سے محروم رہتی بلکہ حضرتِ اقبال کے اِس شعر پر میرا ایمان بھی ہمیشہ متزلزل رہتا کہ نہیں ہے نہ اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نَم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
Ghazali Education Trust
تہی داماں ”غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ” کے اربابِ اختیار نے وہ کچھ کر دکھایا جو ستاروں پہ کمند ڈالنے کے مترادف ہے ۔ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ بڑی بڑی NGO’s تعلیمی ادارے کھولنے کے لیے بڑے بڑے شہروں کا انتخاب کرتی ہیں اور پھر انہی اداروں کی آڑ میں ڈھیروں ڈھیرمُلکی و غیر ملکی امداد بھی اکٹھی کرتی رہتی ہیں لیکن پتہ نہیں یہ کیسے لوگ ہیں جنہوں نے ایسے چھوٹے چھوٹے گاؤں ، قصبوں اور دور دراز بستیوں کا رُخ کیا جن کا نام سُن کر بھی اشرافیہ کی روحیں لرز اُٹھتی ہیں شاید یہ وہی مردانِ حُر ہوں جنہیں اقبال کا یہ سبق یاد ہوکہ تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ، تیرا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے ، نگاہِ آئنہ ساز میں
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے 1995ء میں پاکستان کے دور دراز پسماندہ دیہاتوں میں کم اور بے وسیلہ خاندانوں تک علم کی رسائی کا بیڑا اُٹھایا اور محض 18 سالوں میں 35 اضلاع میں 325 سکول قائم کرکے پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی نیٹ ورک کا اعزاز حاصل کر لیا ۔اِن سکولوں میں 2400 سے زائد اساتذہ اور 48000 سے زائد طلباء تعلیم و تعلم کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں۔ وسائل کی قِلت کے باوجود یہ مردانِ حق شناس صبح و مساء تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ٹرسٹ کے سکولوں میں 24000 سے زائد یتیم و مستحق بچوں کو نصابی کُتب سے لے کر یونیفارم تک تعلیمی ضرورت کی ہر شٔے مفت فراہم کی جاتی ہے۔
اِن بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے عیدین اور دیگر تہواروں پر بچوں میں تحائف بھی تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ٹرسٹ کے اربابِ اختیار اب ہر ضلع میں ایک ماڈل سکول اور مرکزی سطح پر یونیورسٹی کے قیام کے علاوہ ٹیکنیکل کورسز کے اجراء اور ایک ہزار سے زائد معذور بچوں کو تعلیم کی فراہمی کا بھی ارادہ رکھتے ہیں ۔وطنِ عزیز کے طول و ارض میں علم کی شمعیں روشن کرنے کا عزم لے کر نکلنے والے یہ اصحاب اپنے اِس مقصد میں بھی انشاء اللہ ضرور کامیاب ہونگے ۔اِن کی کامیابی اظہر مِن الشمس سہی لیکن کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم دامے ، درہمے ، قدمے ، سخنے اِن کی مدد اور حوصلہ افزائی کریں؟۔
ماہِ صیام کا تقاضہ تو یہی ہے کہ آپ اپنی زکواة کے لیے ایسے اداروں کا انتخاب کریں جو واقعی اِس کے حق داراور اتنے عقیل و فہیم ہوں کہ وہ اِس کا بہترین مصرف تلاش کرسکیں ۔میں ذاتی طور پر سمجھتی ہو کہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ واحد تو نہیں لیکن اُن اداروں میں سے ایک ضرورہے جہاں آپ کی اعانتوں اور زکواة کے ضائع ہو جانے کا کوئی خطرہ نہیں۔
ٹرسٹ کا بینک اکاؤنٹ 047153-01-4 0007-0081- بینک الحبیب گارڈن ٹاؤن لاہور ہے۔ یاد رکھیے کہ کسی ضرورت مند بچے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا سُنتِ رسول ۖۖہے اور صدقۂ جاریہ بھی ۔آئیے ہم سب مِل کر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں جو نو نہالانِ وطن کو 100 فیصد خواندہ بنانے کا عزم لے کر نکلے اور جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ اُن کی نیتوں میں کھوٹ ہر گز نہیں۔