تحریر : عبد السبحان وطن عزیز پاکستان کئی طرح اندرونی وبیرونی سازشوں کا شکار ہے. چند ہفتے پہلے ایسا باور کرایا جاتاتھا کہ دہشت گردوں کی کمرٹوٹ گئی ہے، لیکن دہشت گردی کی حالیہ تازہ ترین لہر نے “لعل شہباز قلندر” کے مزار پر حملے سے لے کر “چارسدہ” تنگی کی عدالت تک ، دہشت گردوں کے اقدام سے ہمارےسب دعوؤں اور خوش فہمیوں کی قلعی کھل گئی اور حکومت کےبلندوبانگ دعوے دھرے کےدھرے رہ گئے۔ بےشمار گھر اُجڑ گئے، سینکڑوں شہید اور متعدد زخمی ہوئے. حکومت وقت نے متاثرین کے لیے کروڑوں تک اعلان کیا، اور کرنا بھی چاہیے.ہمیں اِس سے اختلاف نہیں.اُن کا حق بنتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ کیا اِس کے بعد حالات ٹھیک ہوجائیں گے؟؟۔
ویسے تو کشت وخون کی ابتداء پاکستان میں کئی عشرے پہلے ہوئی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی گئی ۔ پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا کو روز اول ہی سے اس طرح کے مسائل میں غیروں ہی نے اُلجھایا۔ اور آج بھی جوکچھ نظر آرہا ہیں محض دشمن کی عیاری ومکاری ہے . آج خونِ مسلم اِتنا ارزاں کیوں؟ ہر بم دھماکے کے بعد مذمت در مذمت یا چند کاغذ کے ٹکڑوں پر ٹرخا کر کام چلالیاجاتاہے. کیا ان پیسوں سے ان کے بےگناہ باپ، بیٹوں اور نوجوان بھائیوں کا ازالہ ہوسکتا ہے ؟ کیا انہیں معصوم بچوں کے تڑپتے لاشوں پر چند روپے دینے سے وہ دوبارہ مل سکتے ہیں؟؟۔
جواب ندارد. کیا واقعی اس کی وجوہات معلوم کرکے درست طریقہ سے اس کا ہمیشہ کے لیے سدباب ناممکن ہے؟؟ کیا پاکستانی قوم اسی طرح مزید لاشوں کو اُٹھاتی رہے گی؟. اللہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ سب لوگ امن کے منتظر بیٹھے ہیں کہ چلو قربانیاں توہم دے چکے اور دے بھی رہے ہیں ایک نہ ایک دن کوئی ” سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ” جیسا حکمران پیدا ہوجائے گا اور امن وآشتی کا دور دورہ ہوگا۔
Pak Army
دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کےلیے ماضی قریب میں کئی نامور اپریشن ہوچکے ہیں۔ پاکستانی قوم نے ہزاروں کی تعداد میں قربانیاں دیں۔ “پاک آرمی” کے سینکڑوں جوان شہید ہوئے اسی طرح پولیس، سولین اور علماء کرام نے بھی ان گنت قربانیاں دیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ چند دن سکون سے گزرتے ہیں تو انتظامیہ پھر آنکھیں بند کرکے خوابِ خرگوش کے مزوں میں مگن ہوجاتی ہے اور پھر اچانک کہیں نہ کہیں قیامت ٹوٹ پڑتی ہے ….. گزشتہ دس دنوں میں یکے بعد دیگرے وطنِ عزیز کے چاروں صوبوں میں ہونے والے دھماکوں نے یہ بات واضح کردی کہ جس دشمن کو ہم نے کمزور سمجھا تھا اسے کئی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور دشمن ابھی بھی جہاں چاہے واردات کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر دشمن کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اسی تناظر میں اب آپریشن رد الفساد شروع ہونے والا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں ہونے والے آپریشنز میں کوئی کمی تھی؟ یا انہیں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا گیا ؟؟ ماضی میں جو بھی اپریشن ہوئے ان سے کتنا امن قائم ہوا؟؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آپریشن رد الفساد نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جو ماضی میں ہونے والے آپریشنز کی تکمیلی کڑی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آپریشن ردالفساد کو فی الفور پوری قوت اور جامع حکمتِ عملی کے ساتھ کیاجائے ۔ اور یہ ضروری ہے کہ رینجر، پولیس اور فوج کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم والوں کو بھی خواب غفلت سے بیدار کیاجائے. سوشل میڈیا پر کافی دنوں سے بھینسا جیسے غلیظ ترین پیجز پر سرِ عام دین اسلام اور مقدس شخصیات کے خلاف توہین کا بازار گرم ہے. ایسی مغلضات اپ لوڈ کی جارہی ہیں کہ جن سے انسان تو کیا ایک حیوان بھی شرما جائیں ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کےلیے کچھ ہفتے پہلے چند بلاگرز کوبھی اُٹھاگیا تھا.وہ کافی مشکوک تھے لیکن بعد میں رہاکر دیے گئے۔
ان لوگوں کے مقاصد کیا ہیں؟ اور یہ لوگ ہیں کون جو اتنے بھونڈے رویے پر اُتر آئے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دشمن ہمیں ایک بار پھر انتہا پسندی کی دلدل میں دھکیلنا چاہتا ہے ؟؟ کیا پاکستان میں رہ کر مسلمانوں اور اسلام کا اس طرح استہزاء اڑایا جائے گا؟؟ کیا اس ٹیکنالوجی کے دور میں بھی پاکستانی سائیبر کرائم کا ادارہ ان غلیظ عناصر کو ڈھونڈنےسے قاصر ہے؟؟ آخر میں مَیں تمام مکاتب فکر کے علماء سے بھی گزارش کرتاہوں , کہ فرقہ واریت کو روکنے اور امن وامان کے بحالی کے لیے جزوی مسائل اور ذاتی مفادات کوپس پشت ڈال کر ہر ممکن کردار ادا کریں۔