تحریر : سالار سلیمان بعض نقصانات معمولی سے ہوتے ہیں کہ جو ہو جائیں اور کوئی بھی پرواہ نہیں کرتا ہے اور بعض نقصانات قابل تلافی ہوتے ہیں ۔ تاہم کبھی کبھار ایسے نقصانات بھی ہوتے ہیں کہ جو اگر ہو جائیں تو پھر ان کی پھر پائی نہیں ہو پاتی ہے ، انکی تلافی ممکن نہیں ہوتی ہے۔ ایسے نقصانات پر دل پھٹ جاتا ہے، کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے اور انسان بس سوچتا ہی رہتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ عید کے تیسرے دن جب بابائے خدمت عبد الستا ر ایدھی کی خبر کراچی سے ایک دوست نے دی تو پہلے تو یقین نہیں آیا لیکن مختلف ذرائع کی تصدیق اور میڈیا میںاُن کے بیٹے فیصل ایدھی صاحب کے بیان کے حوالے سے آنے والی بریکنگ نیوز نے دل کو بتا دیا کہ ایدھی صاحب اب اس بے رحم دنیا کے غم سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ساری زندگی انسانیت کی خدمت کرنے والے نے اٹھاسی سال کی عمر میں اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کی دی۔
تاریخ نے بھی کیا لکھا کہ جس وقت بابائے خدمت نے اس جہاں سے کوچ کیا تھا تو اسی وقت پاکستان کے حاکم اور بادشاہ جو کہ خود کو وزیر اعظم کہلوانے میں امان محسوس کرتے ہیں وہ پاکستان تشریف لا رہے تھے۔ ایک عبد الستار ایدھی کہ جس کو دنیا امیر ترین غریب آدمی کے نام سے جانتی ہے ‘ وہ ایک عام سی ایمبولینس میں قبرستان کی جانب محو سفر تھا اور ایک نواز شریف کہ جس کو آج پاکستان کی اکثریت نہایت ہی بڑے الفاظ سے یاد کرتی ہے، جس کے علاج تک کا سنجیدہ معاملہ ان کی حرکتوں کی وجہ سے ایک مزاح بن چکا ہے اور جس کی بونگیوں کا دفا ع کرنا اب اُن کے درباریوں کیلئے بھی مشکل ہو چکا ہے’ وہ تشریف لائے۔ ان کے خاندان نے عید الفطر ‘اپنوں میں ‘ یعنی لندن شریف میں منائی اور جب ان کو دل کیا کہ چلئے ذرا ملک کو دیکھ آتے ہیں تو انہوں نے رخت سفر بھی شاہی کروفر اور جاہ وجلال کے ساتھ باندھا۔ان کے خاندان کو لانے کیلئے پاکستان کی قومی ائیر لائن کے تمام شیڈول کو اوپر نیچے کیا گیا، نظام کو درہم برہم کیا گیا اور وہ قومی ائیر لائن کہ جس کی نجکاری کیلئے سمریاں تک ارسال ہو چکی تھی ‘ اس کو بہترین طیارہ نشستوں کی تبدیلی کے بعد لندن بھجوایا گیا تاکہ بادشاہ سلامت اور ان کا خاندان وطن واپس آ سکے ۔ اس سارے عمل میں قومی خزانے کو ایک ہی جھٹکے میں ایک یا دو نہیں بلکہ چالیس کروڑ روپے کا بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا ۔ جب بابائے خدمت اپنی مستقل آرام گاہ میں سادگی کے ساتھ ہی جا رہے تھے تو دوسری جانب بادشاہ سلامت اپنی عارضی آرام گاہ میں مکمل شاہی کروفر کے ساتھ تشریف لا رہے تھے۔
ایدھی صاحب 1928ء کو بھارتی گجرات میں پیدا ہوئے ۔جب آپ گیارہ برس کے تھے تو ان کی والدہ کو اسٹروک ہوا جس کے بعد وہ بستر سے لگ گئیں اور پھر آٹھ سال بیمار رہنے کے بعد وہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔اس آٹھ سال کے عرصے نے ایدھی صاحب کو انسانیت کی خدمت کیلئے پالش کر دیا تھا۔ آپ بتاتے ہیں کہ بچپن میں میری ماں مجھے دو آنے دیتی تھیں کہ ایک آنہ خود پر خرچ کرنا اور ایک آنہ کسی غریب اور نادار کو دے آنا۔ ایدھی صاحب میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ پوری ایمان داری سے اپنی ماں کے حکم کی تعمیل کرتے تھے ۔ انہوں نے اس دوران میں بہت سے تلخ تجربات بھی سہے تھے اور انہوں دم توڑتے ہوئے برٹش راج اور نوازئیدہ پاکستان میں سسٹم کی خرابیوں کو نہایت ہی قریب سے دیکھا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سب کچھ حکومت پر ہی نہیں چھوڑیں گے۔ قیام پاکستان کے وقت انہوں نے ہجرت کے زخم سہے تھے اور پھر جب جلد ہی والدہ کا ساتھ بھی چھوٹ گیا تو ایدھی صاحب نے ان غموں کو انسانیت کی خدمت کے حوالے سے اپنی طاقت بنا لیا۔ انہوں نے جوانی میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ‘ہمت مرداں ،مدد خدا ‘کی پیروی کرنی ہے ، انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اگر کچھ بدلنا ہے تو پہلے تو خود کو بدلنا ہے اور اس کے بعد ہی دنیا میں تبدیلی کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔کپڑ ے کے کام کو چھوڑ کر انہوں نے کراچی میں ایک ایمبولنس خریدی
Abdul Sattar Edhi Helping
اس پر اپنا نام اور نمبر لکھا اور اس کے بعد انسانیت کی خدمت شروع کر دی۔ ایدھی صاحب نے ان مردوں کو بھی غسل دیا ہے کہ جن کو ان کے اپنے لواحقین بھی نہیں پہچانتے تھے ، انہوں نے ایسی لا وارث لاشوں کی تدفین بھی کی ہے جس میں کیڑے پڑ جاتے تھے ، جس کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاتا تھا اور ایدھی صاحب آستین چڑھا کر ان لاشوں کو غسل بھی دیتے تھے، ان کی نماز جنازہ بھی پڑھاتے تھے اور ان کی تدفین بھی کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ نماز فجر کے بعد کسی نے بتایا کہ مسجد کی دہلیز پر کوئی لاوارث نوزائیدہ بچہ چھو ڑ گیا ہے ، انہوں نے اس بچے کو لیا اور پالنا شروع کر دیا۔ ایدھی صاحب نے معروف صحافی جاوید چوہدری کو 2003ء میں بتایا تھا کہ وہ بچہ آج ایک معروف بینک میں اہم اور اعلیٰ ترین افسر ہے ۔ وہ ناجائز بچوں کو بھی مکمل عزت کے ساتھ پروا ن چڑھاتے تھے ، ان کا کہنا تھا کہ ایک گناہ کو ناجائز تعلق قائم کرنے کی صورت میں کر دیا تو کم از کم دوسرا گناہ اس کو قتل کرنے کی صورت میں تو نہ کرو۔ میں نے لاہور مال روڈ پر اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو ایدھی صاحب کے سامنے روپوں کا ڈھیر چھوڑتے ہوئے ‘ عورتوں کو اپنے زیور عطیہ کرتے ہوئے اور بچوں کو اپنی عید ی دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ کہنا ہر گز غلط نہیں ہوگا کہ انہوں نے تنہا ہی پاکستان میں ویلفیئر کا منظر نامہ تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔
ایدھی فاونڈیشن بلا مبالغہ پاکستان کا سب سے بڑا چیریٹی کا ادارہ ہے۔ اپنے قیام سے اب تک یہ ادارہ 20ہزار سے زائد ناجائز اور لاوارث بچوں اور بچیوں کو پال چکا ہے ، 50ہزار سے زائد یتیموں کی کفالت کر چکا ہے ، 40ہزار سے زائد نرسوں کی تربیت کر چکا ہے ۔ آج بھی ملک بھر میں لگ بھر چار سوایدھی سینٹر قائم ہیں، اس ادارے کے توسط سے اب تک ہزاروں بچیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں، میٹرنٹی ہومز ہیں، یتیم خانے ہیں، کچن ہیں، ایدھی جھولے ہیں۔ 2000ء میں ایدھی فاونڈیشن کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج ہو چکا ہے اور یہ ادارہ دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس کا نیٹ ورک بھی چلاتا ہے ۔ بلامبالغہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی پاکستان کی مشہور و معروف شخصیت تھے اور ان کی عزت اور ادب کا یہ عالم تھا کہ اگر کہیں دو متحارب گروپوں میں فائرنگ ہو رہی ہوتی اور ایدھی صاحب وہاں پہنچ جاتے تو دونوں گروپ فوراً ہی جنگ بندی کر دیتے تھے، لوگ ان کی جھولی کو کبھی خالی نہیں ہونے دیتے تھے ۔ معاف کرنے کی ایسی زبردست عادت تھی کہ 2014ء میں جب ان کے سینٹر میں ڈکیتی ہوئی ‘ جس میں ڈاکوں نے نا صرف عبدالستار ایدھی جیسے انسان کے سر پر پستول رکھا بلکہ مکمل منصوبہ بندی سے 5کلو سونا اور کروڑوں روپے ی ملکی اور غیر ملکی کرنسی لوٹ کر غائب ہوگئے تو انہوں نے اپنی مدعیت میں کوئی کاروائی نہیں کروائی بلکہ لوگوں کے مطابق تو انہوں نے ان ڈاکووں کی ہدایت کیلئے دعا ہی کی تھی ۔ ایدھی فاونڈیشن صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی آفت آتی ہے
ریلیف آپریشن سر انجام دیتی ہے ۔ ایک مرتبہ امریکہ میں ایک رفاعی کام کے سلسلے میں جاتے ہوئے ایدھی صاحب کو ائیر پورٹ پر روک لیا گیا تھا اور ان سے آٹھ گھنٹے پوچھ گچھ ہوئی تھی ۔ایدھی صاحب کے مطابق ان سے یہ سلوک ان کے سادہ سے حلیے اور داڑھی کی وجہ سے ہوا تھا، پھر اسی امریکہ پر جب کترینہ طوفان آیا تو ایدھی صاحب اور اسکی فاونڈیشن نے تاریخی مدد کی۔ بابائے خدمت کی فاونڈیشن کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے لیکن ایدھی صاحب کی نظر میں لوگوں کی جانب سے دی جانے والی عزت ہی ان کا حقیقی ایوارڈ ہے ۔
Controversial
یہاں میں ایک اور بات بھی بتا دوں کہ سوشل میڈیا پر کچھ فتنہ باز ایدھی صاحب کی موت کے بعد بھی ان کو متنازعہ کرنے سے باز نہیں آئے ہیں ۔ کوئی دین کا ٹھیکے دار ان کے مسلک اور فرقہ کا تعین کر رہا ہے اور کوئی ان کو حکیم سعید کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے ۔ ایدھی صاحب ہم سے بہت اچھے مسلمان تھے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ انہوں نے ساری زندگی اللہ کے بندوں کی خدمت کی ہے۔ ان کا مسلک اور فرقہ خدمت خلق تھا۔ اب اس سے آگے کی تما م تر بحث ایک فروعی بحث اور وقت کا ضیاع ہے ، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اللہ نے ان کا حساب خود کرنا ہے اور ان کا بھی کرنا ہے جو کہ دین کے ٹھیکے دار ہیں اور جنت اور دوزخ کے ٹکٹ اس دنیا میں بانٹ رہے ہیں۔
حکیم سعید کے قتل کے حوالے سے عرض ہے کہ جب نادیدہ قوتوں نے دیکھا کہ ایم کیو ایم اب ایک عفریت میں بدل چکی ہے اور اس کو روکنا بہت ہی ضروری ہے کیونکہ وہ اب بھارت اور برطانیہ کی انٹیلی جنس کی باتیں زیادہ سنتی ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ حکیم سعید، عبد الستار ایدھی ، حمید گل، عمران خان اور ان جیسے دیگر افراد پر مشتمل ایک الگ سے گروپ تیار کر یں گے تاکہ کراچی کی سیاست کو درست سمت میں لگایا جا سکے۔ اس ضمن میں عبدالستار ایدھی سے بھی بات کی گئی ۔ انہوں نے فوراً ہی انکار کر دیا اور کہا کہ میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے اور نہ ہی میں سیاست کروں گا۔ ایدھی صاحب جیسا بندہ پاکستان کے گندے تالاب میں خود کو گندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس ملاقات اور اس میں ہونے والی گفتگو کی خبر کسی طرح ایم کیوایم کو پہنچ گئی اور انہوں نے نادئیدہ قوتوں کے سامنے اپنی طاقت کے اظہار کیلئے حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا۔ اس حوالے سے جو بھی ایدھی صاحب کو ان کی موت کے بعد متنازعہ بنا رہا ہے اور یاں اس آڑ میں دیگر سیاست دانوں پر کیچڑاچھا ل کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے ، ان کو ویسے ہی چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے اور وہ بھی پہلی فرصت میں یہ کام کر کے قوم پر احسان کر دیں۔
Abdul Sattar Edhi
جب ایدھی صاحب کی طبعیت سخت ناساز ہوئی تو سابق وزیر رحمان ملک ‘ سابق صدر آصف زرداری کے حکم پر ان سے ملاقات کیلئے پہنچے ۔ انہوں نے کہا کہ زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ ایدھی صاحب بیرون ملک جہاں بھی علاج کی غرض سے جانا چاہتے ہیں ، وہ ان کو اپنے خرچے پر وہاں لے جائیں گے اور اپنے ہی خرچے پر ان کا مکمل علاج کروائیں گے ۔ ایدھی صاحب نے انکار میں سر ہلا دیا اور ہاتھ کے اشار ے سے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی ۔ انہوں نے صاف بتا دیا کہ جس ملک کیلئے انہوں نے دن رات خدمت کی ہے، وہ اپنا علاج بھی اسی ملک سے کروائیں گے۔
خدمت، ایثار، قربانی کا دوسرا نام عبد الستار ایدھی تھے ۔ خدمت خلق کا جب بھی نام لیا جائے گا تو ایدھی صاحب کا ذکر خیر ضرور ہوگا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اپنی مدد آپ کے تحت بھی نامساعد حالات سے نبرد آزما ہوکر عوام کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے ہر وہ کام کیا ہے جو کہ ہر دور کی حکومت وقت کو کرنا چاہئے تھا۔ پاکستان میں چیریٹی کا مترادف عبد الستار ایدھی تھے ۔ جاتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی آنکھیں عطیہ کر دی کہ ان کی وصیت تھی کہ ان کے جسم کا ہر قابل استعمال عضو عطیہ کر دیا جائے ۔ میر ی رائے میں ان کی آنکھیں حکمرانوں کو لگانی چاہیے تھیں تاکہ ان کی نظر ٹھیک ہوتی، ان کو اس ملک کے مسائل نظر آتے ، ان کو اس ملک کی غریب عوام نظر آتی، ان کو اس ملک کے ہر چوڑاہے میں ناچتی ہوئی بھوک، غربت ، افلاس اور موت کا ننگا ناچ نظر آتا اور پھر شاید وہ اس ملک کی حقیقی خدمت کرنے کے قابل ہوتے، وہ خدمت جو کہ عبد الستا ر ایدھی نے کی۔
ان کی تدفین پورے اعزاز کے ساتھ ہوئی ہے اور آرمی چیف سمیت فوج کے اعلیٰ افسران نے ان کو سفر آخرت میں سیلوٹ پیش کیا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت ان کی شخصیت اور خدمت کو نصاب کا حصہ بنائے اور 8جولائی کو ہر سال ایدھی ڈے منائے۔ اس دن سرکاری چھٹی نہ ہو بلکہ اس دن ایدھی صاحب کی خدما ت کو اجاگر کیا جائے ، سرکاری سطح پر دن کے دو گھنٹے چیریٹی ورک کیا جائے ۔ وزراء پر لازم ہو کہ وہ دو گھنٹے ایدھی سنٹر پر جا کر گزاریں گے اور لوگوں کے ساتھ ایدھی فاونڈیشن کیلئے عطیات اکھٹے کریں گے۔ تاریخ لکھے گی کہ آدمی تو مرتے رہتے ہیں لیکن 8 جولائی کو انسان مر گیا ۔ سلام اے ایدھی ۔۔۔!